انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھنے لگے
شیئر کریں
الیکشن کی گہما گہی شروع ہوچکی ہے، تحریک انصاف کے علاوہ دیگر تمام ہی سیاسی جماعتوں نے بھرپور طریقے سے اپنی سیاسی
سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔انتخاب میں حصہ لینے والے امیدوار پارٹی ٹکٹوں کے حصول کے لیے اپنی جماعتوں سے رجوع کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے خواہش مند امیدواروں نے درخواستیں اپنی جماعتوں کے مرکزی سیکریٹریٹ میں جمع کرا دی ہیں۔جہاں ان کی چھان بین ہو رہی ہے اور انٹرویوز کئے جا رہے ہیں تاکہ جماعتی سطح پر اچھے امیدواروں کا چناؤ عمل میں آسکے،اپنے حلقوں میں ان کی جیت بھی یقینی ہو۔ ن لیگ کی اعلیٰ سطح کی ایک کمیٹی امیدواروں کی سلیکشن کے کام پر مامور ہے لیکن پارٹی قائد محمد نواز شریف خود امیدواروں سے مل رہے ہیں، انٹرویو کر رہے ہیں تاکہ جس بھی ضلع میں ایم این اے یا ایم پی اے کے امیدوار کا انتخاب ہونا ہے وہ انتخاب صحیح اور بالکل درست ہو۔ مریم صفدر اور دیگر ن لیگی قیادت کا واضح طور پر کہنا ہے کہ اس بار ٹکٹوں کی تقسیم میں نظریاتی کارکنوں کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جائے گا لیکن ان میں کسی نے یہ نہیں بتایا کہ مسلم لیگ ن کا نظریہ کیاہے۔ اگر نظریاتی سے مریم صفدر اور مسلم لیگی رہنماؤں کا مقصدیہ ہے کہ اب ایسے کارکنوں کا انتخاب ن لیگ کی اولین ترجیح ہو گا،جنہوں نے جماعت کے لیے قربانیاں دیں، تو اس کیلئے کسی طرح کے انٹرویو کی ضرورت ہی نہیں ہے پارٹی قائد ہونے کے ناتے نواز شریف،ان کے جان نثار بھائی شہباز شریف اور ان کی بیٹی بیگم صفدر کو یہ اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے پارٹی میں کون ان کا جاں نثار اور کون ابن الوقت ہے،اور اگر ایسے ہی امیدواروں کا چناؤ کرنا مقصود ہوتاتو پھر پارٹی ٹکٹ کیلئے 2 لاکھ اور ایک لاکھ کی شرط بھی نہیں رکھی جانی چاہئے تھی کیونکہ پارٹی سے وفاداری نبھانے والوں کا یہ حق بنتا تھا کہ ان سے بغیر درخواست طلب کئے ان کے گھرپر انھیں امیدوار بنائے جانے کی خبر دینے کے ساتھ ہی تمام انتخابی اخراجات پارٹی کی جانب سے برداشت کئے جانے کا اعلان کیاجاتا۔مرکزی قیادت کے اس طرح کے اعلان کے بعد کہ اس بارجان نثار ن لیگی کارکنوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوتا،اگر نواز شریف پارٹی کے جان نثاروں کو آگے لانے میں واقعی مخلص ہوتے تو پھر پارٹی کے ٹکٹوں کیلئے درخواستیں طلب کرنے کی بھی ضرورت نہ پڑتی اور اگر نواز شریف سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی میں چند سو جان نثار بھی موجود نہیں ہیں تو پھر انھیں اپنی پارٹی کی قیادت سے دست کش ہوجانا چاہئے کیونکہ وہ گزشتہ 30 سال وقفے وقفے سے اقتدار پر قابض رہے ہیں اور اگر اس طویل عرصے میں وہ پارٹی میں چند سو جان نثار اور قابل اعتبار کارکن پیدا نہیں کرسکے تو انھیں سیاست کرنے کا کیاحق پہنچتاہے۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ پارٹی کے جان نثاروں یا نظریاتی کارکنوں کو ٹکٹ دینے کا بیان صرف پارٹی کے کارکنوں کو خوش کرنے اور یہ ظاہر کرنے کیلئے دیاگیاہے کہ پارٹی کے قائدین کو ان کی بڑی فکر ہے،جبکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ انھیں ایسے امیدواروں کی تلاش ہے جو اقتدار میں شریک ہونے کیلئے اپنی تجوریوں کے منہ کھولنے کی سکت اور حوصلہ رکھتے ہوں یہی وجہ ہے کہ اب انھیں ایسے فصلی بٹیروں کی تلاش ہے جو دانے پانی کی آس میں کسی بھی درخت کی شاخ پر بیٹھنے اور کسی کی چھت پر اترنے کیلئے تیار ہوں۔ نظریاتی اور جان نثار کارکنوں کو وقعت دینا واقعی اچھی بات ہے اورتمام ہی سیاسی جماعتوں میں ایسا ہی کلچر متعارف ہونا چاہیے تاکہ نظریاتی کارکنوں کو پارٹی میں عزت اور مقام مل سکے۔یہ بات تسلیم کرنے کے لائق ہے کہ جو پارٹیاں کارکنوں کو نظرانداز کرتی ہیں وہ کبھی نہیں پھلتی پھولتیں اور وقت گزرنے کے ساتھ کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں مسلم لیگ ن کو اس وقت جس صورت حال کاسامناہے اس کاتقاضہ تو یہی ہے کہ پارٹی کے جان نثار کارکنوں کو ترجیح دی جائے لیکن ایسا کرنے کی صورت میں شاید نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے خواب دکھانے والی نادیدہ قوتیں بھی مسلم لیگ ن کو اقتدار کے قریب لانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔ اگر تمام سیاسی جماعتیں الیکٹیبلز کے پیچھے بھاگنے کے بجائے نظریاتی اور جان نثار کارکنوں کو اہمیت دینے پر تیار ہوجائیں تو پاکستان کی سیاست میں اچھی روایت قائم ہو سکتی ہے۔نواز شریف اور دوسری تمام سیاسی رہنماؤں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ پارٹیاں ہمیشہ کارکنوں کے دم سے ہی قائم رہتی ہیں وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کی قدر اور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔مسلم لیگ ن اگر اپنے نظریاتی کارکنوں کو ٹکٹ دینے سے متعلق اپنے عہدو پیماں پر قائم رہی تو پارٹی کیلئے اس کے دور رس اور اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں،لیکن فی الوقت حریف شخصیات یا سیاسی جماعتوں کو نیچا دکھانے اور عوام کو ان سے بدظن کرکے اپنی یا اپنی جماعت کی طرف راغب کرنا انتخابی سیاست کا بنیادی حصہ ہے جو فریق رائے عامہ کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اس کیلئے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں لیکن انتخابات میں حقیقی اور یقینی کامیابی حاصل کرنے کیلئے ووٹر کو پولنگ بوتھ تک لانا اہم ترین بات ہے۔ جلسے جلوسوں میں لاکھوں افراد کی شرکت کسی بھی سیاسی جماعت یا فرد کو انتخابات میں کامیابی نہیں دِلا سکتی،مقتدر قوتوں کی بیساکھی کے بغیر وہی امیدوار جیت سکتاہے جو زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے ووٹرز کو پولنگ بوتھ تک لانے میں کامیاب ہوتا ہے۔یہ ایک آئیڈیل صورت حال میں ہوتا ہے،جس میں امیدوار جماعتیں اور افراد انتخاب کی اہمیت اور حساسیت کا ادراک رکھتے ہوں ان کاکوئی سیاسی منشور ہو جس پر عوام کو قائل کیا جاسکے، لوگ جس پارٹی کے منشور کو پسند کریں اسے پارلیمنٹ میں بھیج کر حق ِ حکمرانی تفویض کرتے ہیں اس کے بعد حکمران جماعت کا امتحان شروع ہوتاہے،جو سیاسی جماعتیں 4-5 سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے میدان عمل میں ہوتی ہیں وہ انتخابی مہم چلانے کا تجربہ بروئے کار لا کر منزل پانے کیلئے جہد ِ مسلسل کے ثمرات سمیٹنے کی پوزیشن میں آ جاتی ہیں یہاں تک پہنچنے کیلئے انہیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں،ٹی وی کے ٹاک شوز میں بیٹھ کر بقراطیت جھاڑنے والوں کو کیا خبر کہ انتخابی عمل کتنے جوکھم کا کام ہے اور اس کے کیا تقاضے ہوتے ہیں لیکن جیسا کہ اوپر ذکر کیاگیا کہ پاکستان کی انتخابی سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے یہاں کی اکثر سیاسی جماعتیں عوام پر انحصار کرنے کے بجائے مقتدر قوتوں کی طرف دیکھتی ہیں، جس کے نتیجے میں عرصہ دراز سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کی بندر بانٹ کا سلسلہ مشاہدے میں آتارہاہے عوام کو انتخابی عمل سے باہر کرکے کٹھ پتلیوں کو اقتدار میں لانے والے خود کی نسلیں تو سنوار چکے، مگر عوام بدترین بدحالی کا شکار ہو کر رہ گئے اس صورت حال نے لوگوں کی اکثریت کو اپنے بچوں کے مستقبل سے برگشتہ کردیا ہے جس کی وجہ سے اب جن لوگوں کے پاس وسائل ہیں وہ اپنے بچوں سمیت بیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہے ہیں، جن کے پاس پیسہ ہے وہ تو عازمِ پردیس ہو بھی چکے، کم پیسے والے انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ کر مال اور جان دونوں گنوا بیٹھتے ہیں۔ سیاسی بے یقینی میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے ملک میں عام انتخابات یقینی بنانے کا عزم حوصلہ افزا ہے، مگر یہ ملک کو حالت ِ اضطرار میں رکھنے والوں کیلئے موت کا سندیس ہے اس لئے وہ نچلے بیٹھنے والے نہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کا شیڈول جاری ہونے کے باوجود وہ عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے افواہیں پھیلانے کی مذموم کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں اور الیکشن کو متنازعہ بنانے کیلئے مختلف حربے اختیار کررہے ہیں یہاں تک کہ مسلم لیگ ن کے سوا اب تقریباً تمام سیاسی جماعتیں لیول پلیئنگ فیلڈ کامطالبہ کرتی نظر آتی ہیں۔انتخابی شیڈول کا اعلان کئے جانے کے باوجود تحریک انصاف کو انتخابی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دینے سے گریز کیاجارہاہے یہاں تک عمران خان کی تقریر کو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے روکنے کیلئے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں،جبکہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انتخابات میں تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کریں گے اور جس شہر میں ایک جماعت کو جلسے کی اجازت ملی، اس میں دوسرے کو بھی اجازت دیں گے تاہم موجودہ صورتحال سے عیاں ہے کہ تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ حاصل نہیں ہے، ایک سیاسی جماعت کو آف دی ریکارڈ اقتدار سے پہلے اقتدار مل چکا ہے جبکہ ایک جماعت عتاب کا شکار ہے اور پیپلز پارٹی سمیت کچھ جماعتیں لیول پلیئنگ فیلڈ حاصل نہ ہونے پر فریاد کناں ہیں۔لیول پلیئنگ فیلڈ کی صورت حال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ اب خود پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ابراہیم خان کو بھی الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھانا پڑا اور انھوں تحریک انصاف کی جانب سے دائر کی جانے والی ایک درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ خیبرپختونخوا میں 700 سے زائد تھری ایم پی او کے آرڈرز جاری کئے گئے، پشاور میں 147 بار تھری ایم پی او آرڈر ایشو کیا گیا، 24 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اس تگ ودو میں بیٹھے رہے کہ ایک پارٹی کے لوگوں کو گرفتار کریں، کیا ایسے حالات میں شفاف الیکشن ہوں گے۔ جہاں بار بار ڈپٹی کمشنرز صاحبان ایم پی او آرڈر جاری کررہے ہیں، اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ اب تبدیل ہوجائیں گے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے اس پر یہ گھسا پٹاالزام دہرایا کہ ایک پارٹی بار بار خلاف ورزی کررہی ہے انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ خلاف ورزی کس بات کی کررہی ہے جلسے کی باقاعدہ اجازت لینے کے بعد جلسہ کرنے کی کوشش پر بھی جلسے میں شرکت کیلئے آنے والوں اور جلسے کے منتظمین پر پولیس کیوں ٹوٹ پڑتی ہے،کیا پولیس کو ان جلسوں کا اہتمام کرنے والوں سے کوئی قابل اعتراض شے ملی جس کی وجہ سے انتظامیہ کو تھری ایم پی او کے آرڈر جاری کرناپڑے، چیف جسٹس نے پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہاکہ الیکشن کمیشن پر ہمیں بھی اعتماد ہے، لیکن ہمیں صرف یہ بتا دیں کہ اگر اس پارٹی کا امیدوار کاغذات جمع کرنے کے لئے آتا ہے تو اس کے ساتھ ویسے برتاؤ کیا جائے گا جیسے دوسرے پارٹی کے ساتھ ہوگا؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنااللہ نے اس سوال پر یہ تاویل پیش کرنے کی کوشش کی کہ تھری ایم پی او کا بیک گراؤنڈ 9 مئی واقعات ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 9 مئی تو گزر گیا اب کیا وجوہات ہیں کہ روزانہ تھری ایم پی او کے آرڈر جاری ہوتے ہیں جس کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنااللہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ دوسری جانب صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو ”سلیبرٹی اور قومی ہیرو“ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کرکٹ میں میرے پسندیدہ پلیئر عمران خان ہیں، میرے گھر میں ان کی تصویر لگی ہے۔ کرکٹ اور سیاست الگ الگ میدان ہیں، چیف الیکشن کمشنرکو غالباًتحریک انصاف کے رہنماؤں کی اندھادھند گرفتاریوں اور الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر رکھنے کی کوششوں پر عوام کے غیض وغضب کا اندازہ ہوگیاہے اور وہ عوام کے اس غصے کو کم کرنے اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے عمران خان کو قومی ہیرو قرار دے رہے ہیں، جہاں تک زمینی حقائق ہیں وہ تو یہی ہیں کہ اس وقت الیکشن کمیشن کی طرف سے سب سے زیادہ زیر عتاب تحریک انصاف ہے۔جو شفاف الیکشن کے اصولوں کے برعکس بات ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پنجاب میں (ن) لیگ کو لیول پلیئنگ فیلڈ زیادہ مل رہی ہے اور اس کا مقابلہ کرنے والی جماعت تحریک انصاف کو کھڈے لائن لگایا جا رہا ہے یہی وہ حقیقت ہے جس کی وجہ سے چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کو بھی الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا،عام طورپر تاثر یہ ہے کہ یہ سب کچھ مقتدر قوتوں کے اشارے پر ہورہا ہے جو ہر قیمت پر نواز شریف کو ایک دفعہ پھر اقتدار سونپنے کا فیصلہ کرچکی ہے جبکہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ لانے اور واپس بھیجنے والی پریکٹس ختم ہونی چاہئے، شفاف الیکشن ہونے چاہئیں، اگر شفاف الیکشن نہ ہوئے تو پھر نتائج کوئی جماعت تسلیم نہیں کرے گی، پھر وہی غیر یقینی صورت حال ہو گی اور اس کا خمیازہ پاکستان کے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے، غیر یقینی صورتحال سے ملک کی معیشت تباہ و برباد ہو جاتی ہے اور ملک کی سلامتی اور استحکام پر بھی حرف آتا ہے۔ حکام اور مقتدر قوتوں سب ہی کو16 دسمبر 1971کے سانحے سے سبق حاصل کرنا چاہئے یہ واقعہ ہمارے لئے سب سے بڑا سبق ہے۔ 7دسمبر 1971کو متحدہ پاکستان کے انتخابات ہوئے،300انتخابی حلقوں میں سے 162 مشرقی پاکستان اور 138 مغربی پاکستان میں تھے، متحدہ پاکستان میں عوامی لیگ کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی، اگر اقتدار عوامی لیگ کے حوالے کر دیاجاتا تو شاید پاکستان دو لخت ہونے سے بچ سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔