پاکستان افغان تعلقات میں پیش رفت
شیئر کریں
میر افسر امان
افغانستان ہمارا پڑوسی مسلمان ملک ہے۔ ایک مذہب ہونے کے ناتے پاکستان افغانستان کی تاریخ بھی ملی جلی ہے۔ افغانستان کے کئی حکمران تقسیم ہند سے پہلے پاکستانی علاقوں پر حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ پاکستانی علاقوں کے لوگ بھی افغانی فوجوں میں شامل ہوتے تھے۔قدیم دور سے دونوں ملکوں کے باشندے ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر رہے ہیں۔ جب برہمنوں نے قومیت کی بنیاد پر ہندوستان کے قدیم باشندے دراوڑوں کے ساتھ ظلم کی انتہا کی۔ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے انہیں شودر بنا دیا۔ان کی بستیاں عام آبادی سے علیحدہ کر دیں۔ان کو لیٹرین صاف کرنے اور سڑکوں پر جھاڑو دینے کے کام پر لگا دیا۔ پھرذات پات کے نظام ،برہمنوں کی اجاداری، حکمران راجائوں کے عوام پر ظلم ستم، مذہب کی مرکزی سوچ نہ ہونے اور ہندوئوں کے کئی گروہوں میں بٹے ہونے کی وجہ اور اسلام کے اُبھرتے ہوئے امن و شانتی کے نظام کے تحت عرب کے محمد بن قاسم سے لیکر وسط ایشیا کے مغل مسلمان حکمرانوں ان پر حملہ آور ہوتے رہے اور ایک ہزار سال تک برصغیر پرحکومت کی۔
پھرتاریخ نے پلٹا کھایا اور انگریز برصغیرپر اپنی سازشوں سے قابض ہوگئے۔ انہوں نے برصغیر پر دو سو سال حکومت کی۔انگریزوں کو مسلمانوں اور ہندوئوں نے مل کر برصغیر سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ برصغیر میں دو ملک پاکستان اور بھارت وجود میں آئے۔ضرورت تو اس امر کی تھی کہ تقسیم کے بعد دونوں ملک اچھے پڑوسیوں کی طرح رہتے ۔مگر بھارت نے پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا۔ تقسیم کے وقت سے پاکستان کے وجود کو ختم کرنے کی سازشیں کیں۔ پاکستان کے باغیوں کے ساتھ مل کر اس کے دو ٹکڑے کیے۔ اب مزید ٹکڑے کرنے کے دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔ایران اور افغانستان سے باہمی مفادات کے تحت دوستی کرکے پاکستان مخالف بنا لیا۔ بھارت سرحدی گاندھی کے وقت سے افغانستان کی بھر پور مدد کر رہا ہے۔ اب امریکا نے بھارت کی ایماء پر قوم پرست حکومت بنا کر افغانستان کو کھل کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کرنے کی چھٹی دی ہوئی ہے۔ اس غرض کے لیے بھارت نے افغانستان میںاربوں کی سرمایا کاری کی ہوئی ہے۔ فری میںافغانستان کی پارلیمنٹ کی عمارت بنا کر دیں۔فوجیوں کو ٹریننگ دیتا ہے۔ سڑکیں بنا کر دے رہا۔ہیلی کاپٹرر دیے۔ ایران کی چاہ بہار بندر گاہ سے کابل تک سڑک بنا کر دی۔ ہوائی سفر کے لیے ایئر ٹکٹوں میں ریاعت دیتا ہے۔ اس سے قبل افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارت ہوتی تھی۔
افغانستان کراچی کی بندر گاہ کے ذریعے دنیا سے اپنی ضرورت کا مال منگواتا تھا۔ افغانستان ہمیشہ پاکستان سے گندم خریدتا تھا۔ اب بھارت نے افغانستان کو چاہ بہار کی بندر گاہ کے راستے گندم پہنچا کر پاکستان پر انحصار ختم کر دیا ہے۔ مختصر یہ کہ پاکستان مخالفت میں بھارت نے خزانے کے منہ کھولے ہوئے ہیں۔ قوم پرست افغانستان نے پاکستان دشمن دہشت گرد فضل اللہ اور دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان میں پناہ دی ہوئی ہے۔ بھارت افغانستان کے راستے پاکستان، خصوصاً بلوچستان میں دہشت گردی پھیلائے ہوئے ہے۔افغانستان کی امریکی پٹھو ،بھارت نواز قوم پرست حکومت نے پاکستان کے ساتھ ت جان بوجھ کرتعلقات خراب کیے۔ اس میں شک نہیں کی افغانستان کے عوام پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔پاکستان نے روس کے حملے کے وقت لاکھوں افغان مہاجروں کو پناہ دی۔ افغان مجاہدین کی مدد کر کے روس سے نجات دلائی۔ اب بھی لاکھوں افغانی پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ پورے پاکستان میں کاروبار کر رہے ہیں۔ دونوں ملکوںکے اسلام سے محبت اور درد رکھنے والے حلقے تو جہاں تک سوچتے اور رائے بھی دیتے ہیں کہ کسی نہ کسی وقت افغانستان کے مسلمانوں نے پاکستان ،ایران، ترکی اور پھرپوری اسلامی دنیا سے ملنا ہے انشا ء اللہ۔ ان مشکل حالات میں،مسلم سوچ کے تحت پاکستان کو اپنے مسلمان ملک افغانستان کے متعلق اپنی پالیسی کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔انگریزی اخبار پاکستان ٹو ڈے اسلام آباد نے اپنی تازہ اشاعت میںاس سلسلے کی ایک خوشگوار خبر لکھائی ہے کہ حال ہی میں پاکستان افغانستان کے ذمہ داروں نے ،دونوں ملکوں میں تجارتی رکاوٹیں ختم کرانے اور امن وامان کے لیے ایک دوسرے کو مدد فراہم کرنے کے لیے کابل میں بات چیت شروع کی۔یہ بات چیت پاکستان میں قائم ایک تنظیم’’ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی سڈیڈیز‘‘CRSS اور اس جیسا پروگرام اور سوچ رکھنے والی افغانستان میں قائم ایک تنظیم’’ آرگینیزیشن فار ایکنومک سٹدیز اینڈپیس‘‘
OESPنے بہ عنوان( ٹریک۱۱؍۱۔۵ بی ہائنڈ باڈرز)مذاکرات شروع کیے ۔ تین دن جاری رہنے والی اس بات چیت کا مشرکا پالیسی اعلانیہ جاری کیا گیا۔ جسے پاکستان افغانستان کے حکومتی ذمہ داروں نے پسند کیا۔دونوں ملکوں کے ملٹری آپریشن ڈاریکٹرز نے اس پالیسی اعلانیہ کو خوش آمدید کہا۔ دونوں طرف سے مل جل کر اس خطے میں باہمی مفادات کے لیے امن و امان قائم کرنے کی کوششوں کاعزم کیا۔دونوں تنظیموں ،سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی سڈیڈیز پاکستان CRRSاورآرگینیزیشن فار ایکنومک سٹدیز اینڈپیس افغانستانOESPکے مشترکہ کمیشن، جنہوں نے پہلی بارکی اس بات چیت کوپایا تکمیل تک پہنچایا، نے پاکستان افغانستان میں باہمی احترام کے حکومتی فیصلہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔
مشترکہ کمیشن نے دونوں ملکوں کے درمیان باہمی مفادات،تجارتی سہولتیں،سیکورٹی،امن وامان، مہاجرین، میڈیا کوآپریشن،مال کی ترسیل اور لوگوں کی کراس دی باڈر مومنٹ جیسے معاملات کو تفصیل سے بحث کی۔کمیشن نے دونوں ملکوں کی حکومتوں کو زور دے کر کہا کہ ان فیصلوں کو’’افغان پاکستان ٹرنزٹ ٹریڈ کوآرڈینٹنیگ اتھارٹی‘‘ (APTTCA) کو سرکاری طور پر اطلاع کریں تاکہ وہ تاخیر میں پڑے ہوئے معاملات کو فوراً حل کریں۔مشترکہ کمیشن کے شرکاء نے اس بات کو بھی نوٹ کیا کہ پاکستان ڈیڑھ سال سے افغانستان سے باہمی بات چیت کے لیے درخواست کرتا رہا مگر افغانستان نے پاکستان سے بات چیت کرنے کے لیے دھیان نہیں دیا۔ مشترکا کمیشن نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کھولنے کے لیے مذاکرات فوراً شروع کرنے کی درخواست کی۔ مسائل طے کرنے میں افغانستان کی طرف سے پاکستان کو ایکسپورٹ پر حال ہی میں لگائے گئے ریگولرٹی ٹیکس کی بھی شامل ہے۔ مشترکہ کمیشن نے پاکستان کی طرف سے افغان طالب علموںکو اسکالر شپ دینے پر بھی فوری کاروائی کا کہا۔ صاحبو! ہمیںدونوں مسلمان پڑوسی ملکوں میں باہمی اتحاد و اتفاق کو قائم رکھنے کی ضرورت پر زور دینا چاہیے جو دونوں کی ضرورت ہے۔ دشمن نے ہمیں تقسیم کر دیا ہے۔ ہمیں آپس میں لڑا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اے کاش کہ پاکستان افغان اور خاص کر دنیا کے مسلمان، شاعر اسلام کی اس پیغام :۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
پر عمل کرتے ہوئے یک جان ہو جائیں۔ ایک دوسرے کا احترام کریں۔دشمنوں کی سازشوں کو مل جل کر ناکام بنائیں۔ اللہ مسلمانوں کو اتحادو اتفاق کی نعمت سے نوازے آمین۔