وزیرخارجہ خواجہ آصف امریکی صدرکی دھمکیوں کاخودجواب دیں
شیئر کریں
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز قومی سلامتی پر اپنی پہلی پالیسی جاری کرتے ہوئے حسب معمول ایک دفعہ پھر پاکستان کو نشانہ بنایا۔ پاکستان کے وقت کے مطابق رات گئے کیے گئے ان کے خطاب سے ایسا لگ ہا تھا جیسے وہ امریکا کی سلامتی پر نہیںبلکہ پاکستان پر اپنے الزامات دہرا رہے ہیں اور ان کی پالیسی کا محور و مرکز پاکستان ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ان دھمکیوں کاجواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے؛ اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان نے گراں قدر قربانیاں دی ہیں۔ ترجمان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نئی سیکورٹی پالیسی میں پاکستان کے حوالے سے جاری کردہ بیان کو پاکستان نے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر کا بیان زمینی حقائق کے برعکس ہے۔اسلام آباد میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جنوبی ایشیا سے متعلق جاری کردہ نئی سیکیورٹی پالیسی پر باضابطہ ردعمل دیتے ہوئے، ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ ”پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے؛ اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان نے گراں قدر قربانیاں دی ہیں”۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ”پاکستان خود ہمسایہ ممالک کی جانب سے ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے واضح کیا’ پڑوسی ملک پراکسی کے ذریعے پاکستان مخالف عناصر کو دہشت گردی کے لیے مالی معاونت فراہم کر رہا ہے۔ افراد، تنظیمیں اور انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان مخالف پراکسیز میں شامل ہیںجب کہ کچھ قوتیں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ترجمان نے کہا کہ ”جنوبی ایشیا کا امن بھارت کے عزائم کے باعث خطرے میں ہے، جب کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں معصوم شہریوں پر مظالم اور سیزفائر لائن پر خلاف ورزیوں کا سلسلہ بڑھا دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘‘پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لیے’کمانڈ اینڈ کنٹرول’ انتہائی موثر اور مقررہ عالمی معیار کے مطابق ہے۔ترجمان نییہ بھی واضح کیاکہ ”افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کے باوجود افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے؛ اور موثر سرحدی نظام اور افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے پاکستان کی کوشش کو سبوتاڑ کیا جا رہا ہے لیکن ان تمام معاملات کے باوجود پاکستان پہلے سے زیادہ مستحکم، پرامن اور محفوظ ملک ہے”۔
پاکستان پر ٹرمپ کے الزامات نئے نہیں اور امریکی انتظامیہ کے دیگر عہدیدار ایک عرصے سے پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی اور دہشت گردی میں تعاون کے الزامات لگاتے رہے ہیں لیکن گزشتہ روز پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ کے لہجے میں ایسی فرعونیت تھی جیسے وہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے کسی غلام کے بارے میں بات کررہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دانست میں حکم صادر کیا کہ اسلام آباد دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے، پاکستان میں موجود محفوظ پناہ گاہوں سے دہشت گرد دنیا بھر میں پھیل رہے ہیں۔ ٹرمپ نے بڑے تکبر سے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف پاکستان کو ہر سال بڑی رقم دیتے ہیں،پاکستان کو دھمکیاں دینے ساتھ ہی انھوں کے ساتھ ہی از راہ تکلف یہ بھی کہا کہ اسلام آباد کے ساتھ دیر پا پارٹنر شپ کے خواہش مند ہیں۔
اس صورت حال میں پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان اورمطالبات پر دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیا جانے والا بیان بہت ہی کمزور معلوم ہوتاہے ، پاکستان کو اس حوالے سے زیادہ سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ واضح کردینا چاہئے تھا کہ پاکستان نے امریکا کی بہت خدمت کرلی اب امریکا پاکستان سے کسی طرح کامطالبہ کرنے کے بجائے اپنے وعدے پورے کرے اوراپنے نئے اتحادی بھارت سے مطالبات کاآغاز کرے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اب پاکستان کو امریکا کی کاسہ لیسی کوخیر باد کہہ کر وقت امریکا سے دیرپانہ قلیل المدت پارٹنر شپ کو خیر باد کہہ دینا چاہئے،جہاں تک امریکا کے ساتھ تعاون کامعاملہ ہے تو یہ بات واضح ہے کہ امریکا کے ساتھ تعاون کے دوران پاکستان جو گرانقدر جانی اور مالی قربانیاں دیں امریکا نے اس پر پاکستان کاشکر گزار ہونے کے بجائے ان قربانیوں کے عوض پاکستان کوصرف دھمکیاں ہی دی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق امریکا نے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے پاکستان کو اب تک 50ارب ڈالر دیے ہیں لیکن پاکستان کو اس جنگ میں ہزاروں قیمتی جانوں کے علاوہ 300 ارب سے زیادہ کانقصان اٹھانا پڑا ہے۔ امریکی حکمرانوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ گزشتہ 16سال سیافغانستان پر ناٹو ممالک کی فوج کا قبضہ ہے لیکن اس قبضے کے باوجود وہاں امریکی اورناٹو فوج کو کیا کامیابی ہوئی ہے جب کہ امریکا اوراس کے حواری جدید ترین عسکری آلات اور ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ افغانستان میں ناکامی چھپانے کے لیے الزام پاکستان پر عاید کرنا امریکا نے وطیرہ بنالیا ہے اور اس کاسبب یہ ہے کہ امریکا کی جانب سے ڈومور کے ہر مطالبے پر ہمارے حکمران سر جھکا کر جو حکم آقا کا کہہ کر گھٹنے ٹیک دیتے ہیں ، پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ واضح کرچکے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کا کوئی منظم نیٹ ورک یا پناہ گاہ موجود نہیں ہے اور یہ بھی کوئی راز نہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے بیشتر واقعات افغانستان کی سمت سے ہوتے ہیں۔ امریکا کے زیر تسلط اس ملک سے دہشت گرد اور خود کش حملہ آور بڑی آسانی سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اورپاکستان میں کارروائیاں کرکے واپس افغانستان میں اپنے محفوظ اڈوں پر واپس چلے جاتے ہیں ، خود امریکی فوجی افسران اورافغان حکومت بارہا یہ تسلیم کرچکی ہے کہ افغانستان کے نصف سے زیادہ علاقے پر اب بھی طالبان اور انتہا پسندوں کاقبضہ ہے جہاں افغان یا امریکی فوجی داخل ہونے کی جرات نہیں کرتے جبکہ طالبان اور انتہا پسند اپنے ان محفوظ اڈوں سے نکل کر افغانستان میں کارروائیاں کرتے رہتے ہیں ، جس کا اندازہ گزشتہ دنوں افغانستان میں انٹیلی جنس کے تربیتی ادارے پر طالبان کے حملے سے لگایاجاسکتا ہے ،اس حملے سے ثابت ہوتاہے کہ امریکا خود افغانستان میں ہونے والی کارروائیوں کو روکنے میں ناکام ہے اور اپنی اس ناکامی کااعتراف کرنے کے بجائے پاکستان کو دھمکی دی گئی ہے کہ کابل پر حملہ کرنے والے اسلام آباد کا رخ کرسکتے ہیں۔ پاکستان پردباؤ ڈالا جاتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ کیا جائیجبکہ یہ ثابت ہوچکاہے کہ حقانی نیٹ ورک کا مرکز بھی پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان ہی میں ہے۔ امریکی صدر کو افغانستان میں تعینات اپنے فوجی کمانڈروں سے سوال کرنا چاہئے کہ امریکی فوج اور افغانستان میں امریکا کی کٹھ پتلی کابل انتظامیہ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ گزشتہ روز پاکستان کے مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ نے کھل کریہ کہہ دیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ امریکا ہے، وہ کشمیر کے مسئلے میں بھارت سے مل گیا ہے، اوراب واشنگٹن نئی دہلی کی زبان بول رہا ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر آج جو بات کررہے ہیں وہ نجانے کب سے حکمرانوں کو سمجھانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ امریکا پاکستان کا دوست نہیں، وہ آقا بن بیٹھا ہے۔ٹرمپ نے اپنی پالیسی تقریر میں بھی کھل کر بھارت کی حمایت کی ہے اور بقول ناصر جنجوعہ، امریکا نئی دہلی کی زبان بول رہا ہے۔ لیکن کیا یہ بھارتی خارجہ پالیسی کی کامیابی اور پاکستان کی ناکامی نہیں ہے؟ ناصر جنجوعہ کا یہ موقف بھی درست ہے کہ امریکا چین سے مقابلے کے لیے خطے میں عدم توازن پیدا کررہاہے مگر افغانستان میں شکست کھا گیا ہے، وہاں طالبان مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔ منگل ہی کو کابل میں خفیہ ایجنسی این ڈی ایس (نیشنل ڈیفنس سروس) کے تربیتی مرکز پر حملہ ہوا جس میں 3حملہ آور مارے گئے، حسب معمول داعش نے ذمے داری قبول کرلی۔ اگر امریکا کے زیر قبضہ اور زیر نگیں علاقے میں داعش افغانستان میں سرگرم ہے تو کیا اس کی ذمے داری بھی پاکستان پر ہے ؟ سوال یہ ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی افواج دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے سے کیوں گریز اںہے، کیا اس لیے کہ پھر اس ملک میں اس کی ضرورت نہیں رہے گی اورامریکی حکومت افغانستان پر ہر صورت اپنا قبضہ جمائے رکھنا چاہتاہے تاکہ وہ وہاں بیٹھ کر چین اور دوسری طاقتوں پر نظر رکھ سکے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کاجواب دینے کے لیے دفتر خارجہ کے ترجمان کے بجائے خود وزیر خارجہ کو اس کازیادہ سخت الفاظ میں جواب دینا چاہئے اور امریکا پر یہ واضح کردینا چاہئے کہ نو آبادیاتی دور ختم ہوچکاہے اب اگر امریکا خود دنیا کی سپر طاقت کی حیثیت سے اپنے اختیارات منوانا چاہتا ہے تو اسے الزام تراشی اور دھمکیوں سے باہر آکر زمینی حقائق کے مطابق بات کرنا ہوگی اور اگر وہ پاکستان سے کسی طرح کے تعاون کاطلب گار ہے تو اسے اس تعاون کی پوری قیمت پیشگی ادا کرناہوگی، بھارت کو اپنا جانشین بنانے کاجھانسہ دے کر پاکستان کو دھمکانے والی پالیسیاں اب اس کوکوئی فائدہ نہیں پہنچاسکیں گی۔