قر آن کریم کے اوصاف فضائل اور خوبیاں
شیئر کریں
مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
………………..
قرآن مجید اللہ کی لاریب کتاب ہے،اس کا ایک ایک لفظ انسان کے دل پر اثر کرتا ہے، زبان میں طاقت نہیں کہ اس کی تعریف بیان کر سکے اور قلم سکت نہیں رکھتا کہ اس کی صفات کو صفحہ قرطاس پر بکھیر سکے، ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ اس وقت آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر جتنی کتابیں یا کلام آسمانی یا انسانی موجود ہیں ان میں سب سے ارفع و اعلیٰ، بہتر و برتر، معتمد اور صادق، غیر مبدل اور غیر متغیر قرآن مجید اور صرف قرآن مجید ہے،قرآن مجید چونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے لہٰذا قرآن مجید خود ہی اگر اپنے متعلق کچھ بیان کر دے اور اپنے بارے میں خود ہی کوئی تعریفی الفاظ استعمال کر دے تو انہیں حرفِ آخر سمجھا جائے گا کیونکہ کلامِ خداوندی کی تعریف انسان کے بس سے باہر ہے، ہاں یہ ممکن نہیں تھا کہ خداوند کریم خود اپنے کلام کی تعریف نہ بیان فرما ئیں لہٰذا اس کیلئے ہمیں ارشادِ خداوندی ہی کا سہارا لینا پڑیگا، یا دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کی تعریف صرف قرآن مجید ہی سے ممکن ہے اور یا پھر اللہ کے رسول ﷺ کا کلام روشن بیان اس سلسلے میں ہمارے لئے بہترین راہ نما ثابت ہو سکتا ہے۔
ارشاد ربانی ہے‘‘(قرآن مجید کی مثل کوئی کتاب بھی نہیں) اور اگر ہے اور تم اس دعوے میں سچے ہو تو اس کی مثل ایک آیت ہی لا کر دکھا دو’’(سورہ ئالطور: 34)ساری دنیا کے انسان اور جن باہم مل کر اگر یہ کوشش کریں کہ اس قرآن کی کوئی مثل کوئی کتاب لائیں تو وہ اس مقصد میں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں گے’’(سورہء الاسراء:88)اگر تمہیں قرآن مجید کے کلامِ الٰہی ہونے میں شک ہو تو تم اور تمہارے معبودانِ باطلہ اس جیسی ایک سورۃ ہی بنا کر لے آؤ اگر تم سچے ہو (لیکن تم ایسا ہرگز نہیں کر سکو گے) (البقر ۃ:23)مندرجہ بالا آیات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دنیا میں کوئی کتاب قرآن مجید جیسی موجود نہیں یہ بے نظیر اور بے مثال ہے۔کسی نے خود کہا ہے کہ ‘‘کلام الملوک ملوک الکلام’’ یعنی بادشاہوں کا کلام، کلاموں کا بادشاہ ہے۔ اور اگر اس لحاظ سے بھی قرآن مجید کا جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہے کہ جب خداوند کریم کا کوئی ثانی موجود نہیں ہے:‘‘خدا کی برابری کرنے والا کوئی بھی نہیں’’ (اخلاص: 4) تو خدا وند کریم کے کلام کا مقابلہ بھی کوئی نہیں کر سکتا،آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، جو شخص تلاوتِ قرآن میں ایسا مشغول ہو جائے کہ اس کو میری یاد اور مجھ سے کچھ مانگنے کا بھی وقت نہ ملے تو میں ایسے شخص کو تمام سوال کرنے والوں سے بڑھ کر عطا کروں گا،حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تلاوت قرآن نماز میں بغیر نماز کی تلاوت سے بہتر ہے اور بغیر نماز کے تلاوت کرنا تسبیح و تکبیر سے بہتر ہے اور تسبیح صدقہ سے بہتر ہے اور صدقہ نفلی روزہ سے بہتر ہے اور روزہ دوزخ کی ڈھال ہے (بیہقی)حضور ﷺ نے فرمایا کہ دل زنگ آلود ہو جاتے ہیں جیسے کہ لوہا پانی لگ جانے سے زنگ آلود ہو جاتا ہے، پوچھا گیا یا رسول اللہﷺ دلوں کا زنگ کس طرح دور ہو گا؟ فرمایا موت کے ذِکر اور تلاوتِ قرآن سے (بیہقی)جو شخص قرآن سیکھے اور اس کے بعد اوروں کو سکھائے وہ سب سے بہتر ہے(بخاری)حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ حافظ قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر پڑھ، جیسا تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا اور جنت کے درجات میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام تک چڑھتا چلا جا۔ پس جس مقام پر تو پڑھنا ختم کر گا وہ تیرا آخری مقام ہو گا (ترمذی، ابو داؤد اور نسائی)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے تو اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک ایسا تاج پہنایا جائے گا کہ جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ ہو گی،جب کہ سورج آسمان کے بجائے تمہا ر ے گھروں میں موجود ہو اور پھر یہ بھی اندازہ کرو کہ جس شخص کے والدین کی یہ عزت ہے وہ خود کس قدر قابل عزت ہو گا (ابو داؤ د)
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: قرآن کا ماہر، لکھنے والے بزرگ نیکو کار کے ہمراہ ہو گا اور جو قرآن پڑھنے میں تکلیف اُٹھاتا ہے اور اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اس کے لئے دوگنا اجر ہے، (بخاری اور مسلم)حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ‘‘اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے سنگترے کی سی ہے جس کی خوشبو بھی اچھی ہے اور ذائقہ و مزہ بھی اچھا ہے، اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اس کھجور کی سی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہے اور مزہ میٹھا ہے،(بخاری،مسلم)مذکورہ بالا احادیث کے علاوہ بھی بہت سی ایسی احادیث موجود ہیں جو فضائل قرآن کے ضمن میں آتی ہیں۔قرآن مجید کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ ہر زمانہ اور ہر دور کے لوگوں کے لئے قدیم ہونے کے باوجود نیا ہے یعنی ہر پڑھنے والا خواہ وہ کسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہو یہی محسوس کرتا ہے کہ اس کی ہر بات گویا اسی کے لئے کہی گئی ہے،قرآن مجید کا ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود بھی اس میں اب تک کوئی ترمیم و تبدیلی نہیں ہو سکی کیونکہ خداوند کریم نے خود اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے‘‘بے شک ہم نے اس ذکر (کتاب) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔’’یہی وہ کتاب ہے جس کی تعلیم نے عرب کے بدوؤں کو فلاسفئی جہاں، استادِ زماں اور حکماء دوراں بنایا،یہی وہ کتاب ہے جس میں ماضی اور مستقبل، زندگی اور موت، قبر اور قیامت، حشر اور نشر، ہر قسم کی خبریں موجود ہیں، یہی وہ کتاب ہے جس میں سیاسی اور تعبدی (روحانی، عبادات سے متعلق)، معاشرتی و اقتصادی، شاہی اور گدائی، انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اصول پائے جاتے ہیں۔ یہی وہ کتاب ہے جس کے قوانین کا نفاذ ستم کدہ دنیا کو آماجگاہ امن اور نار کو گلزار بنا سکتی ہے اور ہمارا یہ بیان کسی ثبوت اور دلیل کا محتاج نہیں کیونکہ تاریخ شاہد ہے، صحابہؓ کا زمانہ اس بات کی واضح دلیل ہے۔ افسوس! کہ صحابہ تو اس کتاب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر بامِ عروج کے آخری منازل تک جا پہنچے اور دین و دنیا کی نعمتوں سے مالا مال ہو کر خیر الامم اور خیرالبریہ کہلائے۔ اپنے اور بیگانے ان کے زیر سایہ رہنا خوش قسمتی اور غنیمت تصور کرتے تھے لیکن ہم قرآن سے دور ہٹ کر غیروں کے تابع ہو گئے اپنے اور بیگانے ہم سے متنفر ہو گئے اور ہماری ہمسائیگی سے بھاگنے لگے،حضرت عمربن الخطابؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن مجید) کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سرفراز فرمائے گا اور اسی کی وجہ سے دوسروں کو ذلیل کردے گا (مسلم) سرفراز اللہ کے حکم سے وہی ہوں گے جو قرآن کے احکام کی پیروی کریں گے۔ ابتدائی چند صدیوں میں مسلمان جب ہرجگہ قرآن کے حامل اورعامل تھے’ اس پر عمل کی برکت سے وہ دین ودنیا کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوئے۔ لیکن مسلمانوں نے جب سے قرآن کے احکام وقوانین پر عمل کرنے کو اپنی زندگی سے خارج کردیا تب سے ہی ان پر ذلت ورسوائی کا عذاب مسلط ہے۔ کاش مسلمان دوبارہ قرآن کریم سے اپنا رشتہ جوڑیں تاکہ ان کی عظمت رفتہ بحال ہوسکے۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا بیشک وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ(یاد) نہ ہو، وہ ویران گھر کی طرح ہے۔یعنی جیسے ویران گھر خیروبرکت اوررہنے والوں سے خالی ہوتا ہے، ایسے ہی اس شخص کا دل خیر وبرکت اور روحانیت سے خالی ہوتا ہے جسے قرآن مجید کا کوئی بھی حصہ یاد نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرمسلمان کو قرآن مجید کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور زبانی یا دکرنا اور رکھنا چاہیے تاکہ وہ اس وعید سے محفوظ رہے۔حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک شخص رسول کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور بیان کیا کہ میرے حلق میں تکلیف ہے۔ آپ ﷺ نے اس کو بھی یہی فرمایا: قرآن پڑھا کرو! (روح المعانی عن البیہقی فی الشعب 132/6)حضورﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص قرآن پاک کا ایک حرف پڑھے اس کو دس نیکیوں کے برابر نیکی ملتی ہے۔ خیال رہے کہ الم ایک حرف نہیں بلکہ الف، لام، میم تین حروف ہیں۔ لہٰذا فقط اتنا پڑھنے سے تیس نیکیاں ملیں گے۔ خیا ل رہے کہ الم متشابہات میں سے ہے جس کے معنی ہم تو کیا جبریل بھی نہیں جانتے۔ مگر اس کے پڑھنے پر ثواب ہے۔ معلوم ہوا کہ تلاوت قرآن کا ثواب اس کے سمجھنے پر موقوف نہیں بغیر سمجھے بھی ثواب ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم قرآن پڑھو اس لئے کہ قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے سفارشی بن کر آئے گا(مسلم)ایک دوسری حدیث میں ہے کہ قرآن کی سفارش کو قبول کیا جائے گا۔ قرآن کو پڑھنے کے بعد اس کو اپنی عملی زندگی میں لانے والوں کے لئے بھی طرفداری کرے گا اور نجات دلائے گا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘قیامت کے دن قرآن اور قرآن والے جو اس پر عمل کرتے تھے، ان کو لایا جائے گا۔توسورۃ بقرہ اور آل عمران پیش پیش ہوں گی اور اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے جھگڑا کریں گی (مسلم) بہرحال ابھی پانی سر سے نہیں گزرا، اگر اب بھی ہم خدا کے نیک بندے بن جائیں، اپنی زندگیاں قرآن کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ڈھال لیں تو اسلام کے دشمنوں کو ہماری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھنے کی جرأت نہ ہو گی،اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بخشے، آمین