میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مولانا مودودی کی نثر نگاری کے اسلوب

مولانا مودودی کی نثر نگاری کے اسلوب

ویب ڈیسک
پیر, ۲۲ مئی ۲۰۲۳

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

ممتاز عالم دین، مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحریکات کے ارتقا میں گہرا اثر ڈالا اور بیسویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔ بنیادی طور پر وہ ایک ادیب تھے اور ان کا ایک منفرد اسلوب تھا جو مختلف تصنیفات میں بہ تقاضائے ضرورت مختلف انداز میں اجاگر ہوتا رہا۔
اردو زبان وادب کے ادیب ،محقق اور نامور استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد جاوید اصغر مولانا مودودی کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ علمی نثر ، نثر کی خالص شکل ہے ۔ علمی نثر میں قاری کو روشنی اور بصیرت ملتی ہے۔بیسویں صدی میں علمی اور ادبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اردو زبان کے ایک بہت ہی بڑے نثر نگار کے طور پر سیدابو الاعلی مودودیابھر کر سامنے آتے ہیں جن کی تصانیف پر آفاقیت ، وسعت ، جامعیت ،استدلالیت اور اثر آفرینی کے اعتبار سے ادب عالیہ کا اطلاق ہوتا ہے۔سید مودودی نے اردو نثر کو اردوئے مبین کا تحفہ دیا۔برگ گل کی طرح نرم اور خون دل کی طرح گرم اسلوب کی رفعت میں ایک بڑی شخصیت کی گونج ہوتی ہے ۔
ہمارے دوست، دانشور محترم منیر ابن رزمی کہتے ہیں کہ مولانا مودودی کے اسلوب کی گہری چھاپ ان کی تمام تحریروں میں نظر آتی ہے بالخصوص اپنی اہم تصنیفات الجہاد فی الاسلام، تفہیم القرآن، دینیات، خطبات، سیرت سرورِ عالمۖ، سود اور مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمش وغیرہ میں انہوں نے اپنے منفرد اسلوب کی ضیا پاشی کی ہے۔سید مودودی کا یہ بڑا شاندار کارنامہ ہے کہ جدید دور میں اسلام اور ملت اسلامیہ کی بے لوث اور بے بہا خدمت کے ساتھ عربی و اسلامی علومی کے ابلاغ کی جو خدمت کی ہے وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ سید مودودی کی تصانیف میں قرآن پاک کی تفسیر تفہیم القرآن، الجہاد فی السلام، تجدید احیائے دین، تعلیمات، تفہیمات، مسئلہ قومیت، مسئلہ جبر و قدر اہم ہیں۔ آپ کی بہت سی تصانیف کا مولانا مسعود علی نے عربی میں بہت عمدہ ترجمہ کیا۔
سید مودودی 1903ء بمطابق 1321ھ میںریاست حیدرآباد دکن کے شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آبا و اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیا گیا۔ انہوں نے اٹھارہ برس کی عمر میں صحافی زندگی کا آغاز کیااور جمعیت علمائے ہندکے روزنامہ "الجمعیت” کے مدیر رہے۔ 1920 میں جب ملعون گستاخ رسولۖ راج پال نے حضورۖ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ‘رنگیلا رسول’ کتاب لکھی تو تحریک خلافت کے ممتاز رہنماء مولانا محمد علی جوہر نے جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کاش کوئی مسلمان اسلام میں جہاد کی ضرورت اور اہمیت بیان کرے چنانچہ مولانا مودودی نے الجہاد فی السلام لکھی۔ علامہ اقبال نے اس کتاب کو بہترین قرار دیا اور انہوں نے اسے پڑھ کر فرمایا کہ آج تک اس سے اچھی کتاب تصنیف نہیں ہوئی۔مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور ڈاکٹر محمد اقبال دونوں مفکر تھے اور اپنی اپنی فکر رکھتے تھے لیکن ان کا مشترک نظریہ تھا اوروہ تھا ”دو قومی نظریہ” جو نظریہ پاکستان کی بنیادی اساس ہے، یعنی دونوں مفکرین ہندوستان کے مسلمانوں کی بقا اس بات میں سمجھتے تھے کہ وہ ایک الگ خطہ ارضی پر اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندی گزار سکیں۔
جناب رزمی کہتے ہیں کہ مولانا مودودی کی تحریریں ان کی شخصیت کی آئینہ دار ہیں۔ مولانا بنیادی طور پہ ایک سنجیدہ علمی و تحریکی اور انقلاب آفریں رہنما تھے، اس لیے ان کی تمام تحریروں میں ایک ہمہ جہت شخصیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔ ایک قائد ہونے کی حیثیت سے انہیں عوام سے بے پایاں ہمدردی اور بے لوث محبت تھی اور اس لیے انہوں نے ملک و ملت کے سر پر منڈلاتے ہوئے طوفانی حوادث اور فکری و نظریاتی یلغاروں سے نبرد آزمائی کی ہے، اس لیے ان کی تحریروں میں خلوص، دردمندی اور شفقت و رحمت پائی جاتی ہے۔ دوسری قابل توجہ بات یہ کہ ان کی فکر کا ماخذ قرآن و حدیث کی آفاقی و انسانی تعلیمات ہیں اور انہوں نے اپنی تمام علمی و ادبی کاوشوں میں اس مخزن علم کا ساتھ کہیں نہیں چھوڑا ہے، اس لیے ان کی تحریریں حکمت و دانش اور تدبر و فکر کی داعی بھی ہیں۔
چونکہ سید مودودی کی شخصیت مختلف حیثیتوں کی حامل اور مرتب شخصیت تھی، اس لیے ہر تحریر ان کے مزاج و میلانات کا آئینہ نظر آتی ہے۔ ایک صاحب طرز ادیب کی کامیابی کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ تحریر کی ابتدا ہی سے قاری کے ذہن و دل کو اپنی گرفت میں لے لے۔ مولانا مودودی کے طرز نگارش کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اپنی تحریر کی ابتدا ہی میں قاری کو ندرت استدلال اور لذتِ تاثیر سے اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں اور جس طرف چاہتے ہیں، لے جاتے ہیں۔ ابوالاعلیٰ مودودی کو ان کی دینی خدمات کی پیش نظر پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ کی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر تفہیم القرآن کے نام سے مشہور ہے اور جدید دور کی نمائندگی کرنے والی اس دور کی بہترین تفسیروں میں شمار ہوتی ہے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں