کیتھولک پادری شیطان کے آلہ کار
شیئر کریں
امریکہ سے
عیسائی مذہب میں اکثریتی کیتھولک عقیدہ رکھنے والوں کے پادری بننے کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ شادی نہیں کر سکتے۔ فرانس میں سامنے آنے والی ایک پورٹ کے مطابق ملک کے کیتھولک چرچ کے پادریوں نے 1985 سے اب تک تقریبا دو لاکھ 16 ہزار بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے۔ زیادتی کا شکار ہونے والوں میں زیادہ تر لڑکے ہیں۔ اس تحقیق کے سربراہ کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کرنے والے پادریوں کی تعداد 20900سے 3200تک ہے۔ بچوں سے جنسی تعلق کے ا سکینڈل کی تحقیقات کرنے والے آزاد کمیشن کے سربراہ کا کہنا ہے کہ فرانس کے کیتھولک چرچ میںیہ اعداد و شمار صرف وہ ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں، اور ایسے معاملات میں زیادہ تر کیسز رپورٹ نہیں ہوتے ۔بہت کم کیسز ایسے ہوتے ہیں جو رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کیتھولک چرچ انتظامیہ نے 2000تک بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات پر آنکھیں بند رکھیں۔ متاثرین کے ساتھ بے حسی کا مظاہرہ بھی کیا اور اب بھی چرچوں میں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کا سلسلہ جاری ہے ۔رپورٹ میں نظام کی خرابیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سسٹم متاثرین کو انصاف اور تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے جبکہ ملزمان کو قانون کے شکنجے میں بھی نہیں لایا گیا۔
فرانس میں کیتھولک بشپوں نے چرچوں پر تواتر کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پر پردہ ڈالنے کے الزامات کے بعد عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے ان واقعات کی تحقیقات کے لیے 2018 میں انکوائری کمیشن قائم کیا تھا ۔آزاد کمیشن نے اپنی تحقیقات میں یہ تسلیم کیا ہے کہ فرانس میں کیتھولک چرچوں میں اگرچہ بچوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر جنسی زیادتی ہوئی ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ چرچ میں بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ 22 قانونی پیشہ ور افراد ڈاکٹروں مورخین سماجی ماہرین اور مذہبی اسکالرز پر مشتمل کمیشن کا کام 1950کی دہائی کے پادریوں کی طرف سے بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے الزامات کی تحقیقات کرنا تھا۔ اس کی تشکیل پوپ فرانسس کے اس بیان کے بعد سامنے آئی تھی جب پوپ فرانسس نے تاریخی اقدام کی منظوری دی جس کے مطابق جو کیتھولک چرچ میں جنسی استحصال کرنے والوں کو جانتے ہیں وہ اپنے اعلیٰ افسران کو ان کے بارے میں اطلاع دے سکتے ہیں۔ جب انہوں نے اس پر کام کرنا شروع کیا تو انہوں نے متاثرین کو بیانات کے لیے بلایا اور ایک ٹیلی فون ہارٹ لائن قائم کی جس پر ہزاروں پیغامات موصول ہوئے اور مہینوں اس پر کام کیا گیا ۔ واضح رہے کہ کیتھولک فرقے کے مسیحیوں کے رہنما پوپ فرانسس نے پادریوں اور دوسرے مذہبی رہنماؤں کے ہاتھوں بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی جو جو مکروہ برائی پیدا ہوئی اس پر معافی کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی سے کلیسا سے منسلک مردوں کے ہاتھوں اخلاقی نقصان ہوا اور اس سلسلے میں چرچ سے منسلک افراد پر پابندیاں لگائی جائیں گی۔
پوپ نے گزشتہ برس مذہبی رہنماؤں کے ہاتھوں ریپ کا شکار ہونے والے افراد کی مدد کی غرض سے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی لیکن کیتھولک حلقوں نے ان پر الزام لگایا تھا کہ بچوں کا ریپ کرنے والے پادریوں کے ہاتھوں ہونے والے اخلاقی اور ذہنی نقصان کو تسلیم کر کے پوپ اس معاملے میں خواہ مخواہ خود کو گھسیٹ رہے ہیں۔ کیتھولک مسیحوں کے روحانی پیشوا نے کلیسا روم میں نابالغ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات کے حوالے سے چند اہم اصلاحات کا اعلان کیا تھا۔ماضی قریب میں متحدہ ممالک میں کلسیا سے منسلک پادریوں پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی مبینہ واقعات سامنے آنے کے بعد عالمی رائے عامہ میں اٹھنے والے سوالات کے نتیجے میں پوپ فرانس نے نئی اصلاحات متعارف کروائی ہیں ۔نئی اصلاحات کے ذریعے متاثرہ افراد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عام کیتھولک افراد کے ساتھ ویٹی کن سے منسلک عہدے داروں کی جانب سے ذمہ داری احتساب اور شفافیت کے حوالے سے تعاون کو یقینی بنانا بھی شامل ہے۔ پولینڈ مشرقی یورپ کا اکثرتی طور پر کیتھولک مسیح آبادی والا ملک ہے اور وہاں کیتھولک چرچ بہت زیادہ سیاسی اثر ورسوخ کا حامل ہے۔ اس ملک میں کچھ عرصہ پہلے تک کلیسیا اداروں میں بچوں سے کی جانے والی جنسی زیادتیوں کے واقعات کے بارے میں کچھ بھی کہنا شجر ممنوعہ سمجھا جاتا تھا۔ وہاں اب ایسی بہت سے شکایتیں رپورٹ ہو رہی ہیں ۔ایڈم ڈاک نے ایک آن لائن بریفنگ میں بتایا کہ جولائی 2018 سے لے کر گزشتہ برس کے آخر تک پولینڈ میں کیتھولک چرچ کو کم عمر بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کی تین ہزار 368 شکایات موصول ہوئی انہوں نے کہا ان واقعات میں سے کچھ کا ارتکاب عشروں پہلے کیا گیا تھا۔ لیکن متاثرین نے ان کی باقاعدہ شکایات اب کی ہیں ۔ جنسی استحصال کے حالیہ واقعات میں گزشتہ برس سے لے کراب تک ویٹی کن کی طرف سے چار پولش کیتھولک چرچ کے چار بیشپس پراس وجہ سے پابندیاں لگائی جا چکی ہیں کہ وہ کلیسا ہی اہلکاروں کے بچوں سے جنسی زیادتیوں کی پردہ پوشی کے مرتکب ہوئے تھے۔ اسی نوعیت کے الزامات کے باعث دو پولش کیتھولک بشپس استعفیٰ بھی دے چکے ہیں۔ایسے ہی الزامات کی وجہ سے ویٹیکن کی طرف سے ارچ برش پر گلو ڈس پر بھی پابندی لگائی جا چکی ہے جبکہ اج برش پر بلوزر کو بھی استعفیٰ دینا پڑ گیا جبکہ یورپ کے دیگر ممالک میں بھی اس طرح کے شکایتیں سامنے آئی ہیں۔ رواں برس فروری میں روم میں کلیسا سے منسلک پادریوں کے ہاتھوں بچوں کی جنسی استحصال کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے منعقد ہونے والے اجلاس میں پوپ فرانس نے کلیسیائی شخصیات کی طرف سے ایسے جرائم کو بہت شدید نوعیت کے جرائم قرار دیا تھا۔انہوں نے ان جرائم کے مرتکب پولیسیائی شخصیات کو خون خوار بھیڑیوں سے تعبیر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایسا کرنے والے شیطان کے آلہ ٔ کار ہیں۔
پاپائے روم سے کی جانب سے جنسی زیادتیوں کی تفتیش خفیہ نہ رکھے جانے کا فیصلہ کلیسیائی روم کے طرف سے ایسے واقعات کچھ پانے کی کوششوں اور طاقت کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ایک اہم اقدام سمجھا جا رہا ہے۔ یورپ میں سول سوسائٹی کے اراکین کا کہنا ہے کہ چرچوں میں اس طرح کے برائی کی روک تھام کے لیے چیزیں واضح اور شفاف ہونا چاہیے، جب اس طرح کی برائیاں میڈیا میں رپورٹ ہوں گی اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہوگی تو اس سے ان برائیوں کو روکنے میں مدد ملے گی۔ اس طرح کے کمیشن سے ایسے واقعات کی روک تھام میں مدد ملے گی۔ اس انکوائری کمیشن نے آزادانہ حیثیت میں کام کیا اور شفاف انکوائری کے بعد اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ رپورٹ میں تاحال کیتھولک چرچ کے نمائندوں کی جانب سے رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ اگرچہ کیتھولک چرچ کو پادریوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات پر دنیا بھر میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن کیتھولک چرچ نے دنیا بھر میں بستیوں میں کتنی رقم ادا کی ہے، اس کا تعین کبھی نہیں کیا جا سکا۔ تا ہم تنظیم بشپ ا کاؤٹیبلٹی کے مطابق چرچ نے ریاست ہائے متحدہ میں بڑی تصفیوں اور ایوارڈ میں 3بلین سے زیادہ کی ادائیگی کی ہے۔ کچھ گروپوں کا خیال ہے کہ یہ تعداد تقریبا نصف صدی سے پادریوں کے ساتھ بد سلوکی کو چھپانے کے لیے امریکی چرچ کی اصل لاگت سے تقریبا ایک بلین ڈالر کم کرتی ہے۔ کیتھولک چرچ کو ان متاثرین کے مقدمات کا سامنا ہے جن کے ساتھ دنیا بھر کے پادریوں نے زیادتی کی تھی۔ چرچ کے خلاف دعوے بڑھتے ہیں کیونکہ زیادہ سے زیادہ متاثرین آخر کار آگے بڑھتے ہیں اور رپورٹ کرتے ہیں کہ کیا ہوا قانونی نظام چرچ کی طرف سے لابنگ کے باوجود امداد فراہم کر کے اور سختی سے قوانین کو نافذ کر کے ان متاثرین کی مدد کے لیے ایک موقف اختیار کر رہے ہیں ۔کئی دیار دائرہ اختیار نے یہاں تک کہ کیتھولک چرچ کو جواب دہ ٹھہرانے کے لیے بڑی عمر کے متاثرین کو اپنے ساتھ بد سلوکی کی اطلاع دینے اور مقدمہ دائر کرنے کی اجازت دینے کے لیے حدود کے قانون کو معطل یا بڑھا دیا ہے۔ ایک غیر منافع بخش گروپ جو کیتھولک چرچ کے اندر بدسلوکی کے الزامات کا سراغ لگاتا ہے نے انکشاف کیا ہے کہ 1980 کی دہائی تک مذہبی جنسی استحصال کے الزامات پر تقریبا چار بلین ڈالر کے مقدمے ادا کیے گئے ہیں جس کا مشن رومن کیتھولک چرچ میں بدسلوکی کے بحران کو دستاویزی بنانا ہے۔ ان کی ویب سائٹ کے مطابق 1950 کی دہائی سے پادریوں کے ایک رکن کے ذریعے زیادتی کے شکار ہونے والے حملہ آوروں کے 8600سے زیادہ واقعات پر مشتمل ادائیگیاں بھی ہیں۔واضح رہے کہ جو اشخاص اور بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے ہیں ان میں سے ایک بڑی تعداد خودکشی کرنے پہ مجبور ہوئی اور ایک بڑی تعداد وہ ہے جو نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو چکی ہے۔ تصور کریں اس طرح کے واقعات اگر کسی ترقی پذیر ممالک میں ہوتے یا کسی مسلم ملک میں ہوتے توانسانی حقوق کی خلاف ورزی کے نام پر اس کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہے۔ کیتھولک چرچ میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ دہشت گردی نہیں تو اورکیا ہے۔ پوپ فرانس نے ان پادریوں کو شیطان کاآلۂ کار قرار دیا ہے ۔