میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شیریں مزاری کی رہائی، گرفتاری واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کا حکم

شیریں مزاری کی رہائی، گرفتاری واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کا حکم

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۲ مئی ۲۰۲۲

شیئر کریں

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کو رہا کرنے اور گرفتاری واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کرانے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، ایڈووکیٹ جنرل اور ڈی سی اسلام آباد بھی موجود تھے۔ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی طرف سے سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری، فرخ حبیب، قاسم سوری اور زلفی بخاری بھی عدالت عالیہ پہنچے جبکہ کمرہ عدالت پی ٹی آئی رہنماوں اور کارکنوں سے بھر گیا۔ کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شیریں مزاری آپ کے ساتھ جو ہوا وہ افسوسناک ہے، جب آپ حکومت میں تھیں تو اس سے زیادہ برے واقعات ہوئے، اسلام آباد سے جبری گمشدگیاں ہوئیں، کسی حکومت نے جبری گمشدگیوں پرایکشن نہیں لیا، جب آئین کااحترام نہیں ہوتا تو ایسے واقعات رونما ہوں گے۔ ہرحکومت کاآئینی خلاف ورزیوں پرافسوسناک رویہ ہوتا تھا۔ رکن اسمبلی آج بھی جیل میں ہیں، افسوس ہے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں بھی ارکان اسمبلی کو گرفتار کیا جاتا رہا، جب تک انکوائری نہیں ہوتی شیریں مزاری کو رہا کیا جائے اور آئی جی اسلام آباد شیریں مزاری کو گھر تک پہنچائیں۔شیریں مزاری نے کہا کہ پولیس والوں نے مجھے گاڑی سے گھسیٹا، پولیس کے ساتھ سادہ کپڑوں میں بھی لوگ تھے، میں 70 سالہ ہوں اور بیمار ہوں، پولیس تشدد کی پوری ذمہ دار ہے۔ مجھے یہ لاہور لیکر جا رہے تھے، پوری قوم چوروں کیخلاف نکلی ہوئی ہے کس کس کو گرفتار کروگے، مجھے گرفتاری کے دوران کوئی وارنٹ نہیں دکھایا گیا، گرفتاری کے دوران مجھ پر تشدد کیا گیا، میرے ناخن توڑ دیے، شہبازشریف اور رانا ثنا اللہ نے مجھے گرفتارکرایا۔ میرا فون ابھی تک واپس نہیں کیا گیا۔ میں بالکل ٹھیک ہوں، آج جبری گمشدگی کو خود محسوس کیا، میں نے پولیس کو بیٹی کو کال کرنے کا کہا اس کی بھی اجازت نہ ملی۔انہوں نے کہا کہ اس بار کالی ویگو نہیں تھی لیکن سفید ٹیوٹا تھی، موٹروے پر چڑھے تو میں نے پوچھا کہاں لے کر جا رہے ہیں، انہوں نے کہا شائد آپکے گاؤں راجن پور لے جائیں یا لاہور لے جائیں، انہوں نے کہا کہ آپ پر کرپشن کا کیس ہے، میں نے انہیں کہا مجھے کاپی تو بھیجتے، ایک گھنٹہ ہم چکری میں رکے رہے، ایک گھنٹے بعد ایک شخص آیا اور کہا گیا یہ ڈاکٹر ہے، انہوں نے کہا یہ معائنہ کرینگے آپ سفر کر سکتی ہیں یا نہیں، میں نے کہا یہ مجھے ہاتھ نہیں لگا سکتا تو وہ واپس چلا گیا، مجھے راستے میں بتایا گیا کہ آپکو واپس لے جا رہے ہیں، میں چاہتی ہوں اس واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کریں۔ اس سے قبل تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی بیٹی ایمان مزاری کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت ہوئی تھی۔عدالت عالیہ نے شیریں مزاری کو رات ساڑھے گیارہ بجے تک پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے علاوہ آئی جی، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور سیکریٹری داخلہ کو بھی طلب کیا تھا۔یاد رہے کہ شیریں مزاری کو ہفتے کی سہ پہر اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ کے باہر سے گرفتار کیا گیا تھا۔عدالت نے کہا کہ ایمان مزاری کے مطابق ان کی والدہ اب بھی رکن قومی اسمبلی ہیں، کسی بھی ایم این اے کو اسپیکر قومی اسمبلی کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکتا، بظاہر شیریں مزاری کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں