میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکا کو ساڑھے 3ہزار سے زیادہ اشیا ڈیوٹی ادا کیے بغیر برآمد کرنا ممکن ہے

امریکا کو ساڑھے 3ہزار سے زیادہ اشیا ڈیوٹی ادا کیے بغیر برآمد کرنا ممکن ہے

ویب ڈیسک
پیر, ۲۲ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

امریکا برآمدکی جانے والی اشیا میں جیولری،پاکستان میں تیار کردہ مختلف اقسام کی اشیا،گارمنٹس، مختلف اقسام کے قالین، زرعی اشیا ،معدنیات اور ماربل شامل ہیں
امریکی صارف پاکستانی اشیا کی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں ،گزشتہ سال کم وبیش 20 فیصد امریکی صارفین نے پاکستان کی تیار کردہ یا پاکستان میں پیدا ہونے والی اشیا کی خریداری کو ترجیح دی
شہلا حیات
پاکستان میں امریکا کے تجارتی اتاشی جیمز فلوکر نے گزشتہ روزایوان صنعت وتجارت خیبر پختونخوا کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ پاکستان امریکا کو ساڑھے 3ہزار سے زیادہ اشیا ڈیوٹی ادا کیے بغیر برآمد کرسکتاہے۔جیمز فلوکر نے خیبر پختونخوا کے تاجروں اورصنعت کاروں کو امریکی مارکیٹ میں پاکستانی اشیا کی طلب پیدا کرنے اور ان کو اسی طرح کی اشیا تیار اور برآمد کرنے والے دیگر ممالک کے مقابلے نسبتاً کم قیمت اور زیادہ قابل قبول بنانے کے طریقے بھی بتائے۔جیمز فلوکر کا خیبر پختونخوا کا یہ دورہ پاکستانی صنعت کاروں اور تاجروں کو امریکا میں بڑھتے ہوئے تجارتی مواقع سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دینے اور اس حوالے سے ان کی مدد کرنے کی امریکی کوششوں کاحصہ تھا۔
جیمز فلوکر نے خیبر پختونخوا کے تاجروں اور صنعت کاروں کو یاد دلایا کہ 2012ءمیں پاکستان اور امریکا کے درمیان دوطرفہ تجارت کاحجم 5 ارب ڈالر کے مساوی تھا اور پاکستان سے دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ اشیا امریکا برآمد کی جاتی تھیں۔یعنی پاکستان امریکا کو اشیا برآمد کرنے والےسب سے بڑے ممالک کی فہرست میں شامل تھا۔جیمز فلوکر نے ایوان صنعت وتجارت خیبر پختونخوا کے ارکان کو بتایا کہ امریکا کا شمار دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور تجارتی سرزمین کے طورپر ہوتاہے، امریکی تجارت اور معیشت دنیا کے دیگر کسی بھی ملک کے مقابلے میں زیادہ بڑی اور کھلی ہوئی ہے یعنی دنیا کے ہر ملک کو امریکی منڈیوں تک رسائی حاصل ہے۔جس کاثبوت یہ ہے کہ امریکا پاکستانی تاجروں اور صنعت کاروں کو کم وبیش ساڑھے 3 ہزار اشیا بغیر ڈیوٹی برآمد کرنے کی اجازت دیتاہے، ان اشیا میں جیولری،پاکستان میں تیار کردہ مختلف اقسام کی اشیا، مختلف اقسام کے قالین، زرعی اشیا ،معدنیات اور ماربل شامل ہیں۔ انہوںنے بتایا کہ امریکا یہ بات اچھی طرح سمجھتااور محسوس کرتاہے کہ مستقبل کے پاک امریکا تعلقات کا بڑی حد تک انحصار تجارت وسرمایہ کاری اور نجی شعبے کی ترقی پر ہوگا۔
جیمز فلوکر نے بتایا کہ امریکا کی کمرشل سروس دراصل امریکی حکومت کا تجارت کے فروغ کا دفتر ہے جو امریکی برآمدکنندگان کو پورے امریکا اور دنیا کے کم وبیش 70 ممالک میں موجود اپنے 100 سے زیادہ دفاتر کے نیٹ ورک کے ذریعے امریکی برآمدکنندگان اوربین الاقوامی خریداروں کے درمیان رابطے کی خدمات انجام دیتاہے، انہوں نے بتایا کہ کراچی ،اسلام آباد اور لاہور میں بھی امریکا کے تجارتی دفاتر قائم ہیں جہاں سے پاکستان برآمد اوردرآمد کنندگان کی مناسب رہنمائی کی جاتی ہے۔یہ دفاتر پاکستانی خریداروں کو امریکی اشیا کے بارے میں معلومات بہم پہنچانے ،تجارتی پارٹنرز سے رابطے کرانے ،سپلائیرز سے ملاقاتیں کرانے اورتجارتی شراکت داری کے قیام کیلئے متعلقہ سرمایہ کاروں ،تاجروں اور صنعت کاروں کی دوبدو ملاقاتیں کرانے،تجارتی شو میں شرکت میں مدد دینے، جہاں پاکستانی تاجروں، صنعت کاروںا ورسرمایہ کاروں کی ہزاروں امریکی کمپنیوں کے ساتھ ملاقاتیں اور رابطے ہوجاتے ہیں، کے سلسلے میں سروسز فراہم کرتا ہے۔ جون2013 ءمیں امریکی حکومت نے پاکستانی تاجروں کے ایک وفد کو نیویارک سٹی میں ایک بین الاقوامی فرنچائز نمائش میں شرکت کرنے کاموقع فراہم کیاتھا جس کے مفید نتائج برآمد ہوئے تھے اور اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان کئی اہم تجارتی معاہدے طے پائے تھے ۔
ایوان صنعت وتجارت خیبر پختونخوا کے صدر نے اس موقع پر امریکی تجارتی اتاشی کاشکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ اس سے پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارت کو فروغ دینے میں مدد ملے گی اور خیبر پختونخوا میں تجارتی و صنعتی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔جس سے صوبے میں روزگار کے نئے مواقع پیداہوں گے جو صوبے میں خوشحالی کا ذریعے ثابت ہوں گے۔
جہاں تک پاک امریکا تجارت کاتعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دینے اورزیادہ سے زیادہ اشیا امریکا برآمد کرنے کے وسیع مواقع موجود ہیں امریکی صارف پاکستانی اشیا کی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں جس کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ گزشتہ سال کم وبیش 20 فیصد امریکی صارفین نے پاکستان کی تیار کردہ یا پاکستان میں پیدا ہونے والی اشیا کی خریداری کو ترجیح دی۔اس کے علاوہ پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری کرنے والے ممالک میں بھی امریکا اب تک سرفہرست رہاہے۔
پاکستانی تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروںکو امریکا کے لیے برآمدات بڑھانے میں مدد دینے کے حوالے سے جیمز فلوکر کا یہ دورہ یا کوششیں امریکا کی جانب سے پاکستان کی معاشی ترقی میں مدد دینے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے جبکہ امریکا پاکستان کو گومل زام ڈیم اور ستپارہ ڈیموں سے سیراب ہونے والی 2 لاکھ ایکڑ سے زیادہ اراضی پر زراعت کو وسعت دینے اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو آپس میں ملانے اوران کے رابطوں اور تجاری نقل وحمل میں آسانی فراہم کرنے کے لیے ایک ہزار کیلومیٹر طویل سڑکوں کی تعمیرکے علاوہ پنجاب میں ڈیری فارمز کو جدید بنانے اورچھوٹے اوردرمیانے درجے کے تاجروں کی مدد کے لیے ایکویٹی فنڈز کے اجرا میں بھی مدد دے رہاہے۔
جیمز فلوکر نے خیبر پختونخوا کے تاجروں اور صنعت کاروں کو یقین دلایا ہے کہ اسلام آباد ،لاہور اور کراچی میں موجود امریکی حکومت کے تجارتی دفاتر ان کو ڈیوٹی ادا کیے بغیر امریکا برآمد کی جانے والی اشیا کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنے اور ان اشیا کی برآمد میں مدد دینے کو ہمہ وقت تیار ہے اور اس حوالے سے ان دفاتر سے آن لائن رابطہ بھی کیاجاسکتاہے۔
امریکا کی جانب سے پاکستانی تاجروں کو زیادہ سے زیادہ اشیا امریکا برآمد کرنے کی ترغیب دینے کے حوالے سے امریکی تجارتی اتاشی کی ان کوششوں کا بنیادی مقصد پاکستان میں امریکی اشیا کی کھپت کے امکانات تلاش کرنا اور پاکستان کو امریکی اشیا کی برآمدات میں اضافہ کرنا ہے کیونکہ گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان میں عوامی سطح پر امریکا کی تیار کردہ اشیا کی کھپت میں بتدریج کمی آئی ہے جس کی بڑی وجہ دیگر ممالک کے مقابلے میں امریکا کی تیار کردہ اشیا کی قیمت زیادہ ہونا اور پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسیوں میں عدم ٹھہراﺅ بھی ہے ۔کم وبیش یہی صورت حال صنعتی شعبے میں رہی ہے کیونکہ امریکی مشینری اوردیگر صنعتی اشیا دیگر ممالک جن میں جاپان، کوریا اور چین شامل ہیں زیادہ مہنگی ہیں اور ان کی بعد از فروخت سروس بھی بروقت دستیاب نہیں ہوتی ۔اب جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں روزگار کے مواقع میں اضافہ کرنے کے لیے برآمدات میں اضافہ کرنے کی پالیسی پر گامزن نظر آتے ہیں امریکی تجارتی دفاتر بھی زیادہ فعال نظر آرہے ہیں اور وہ پاکستانی تاجروں اور صنعت کاروں کے مدد گار کے طورپر سامنے آکر پاکستان میں امریکی اشیا کی کھپت میں اضافے کی حکمت عملی پر عمل پیرا نظر آرہے ہیں۔تاہم وجہ جو بھی ہو پاکستانی برآمدکنندگان کو امریکی منڈیوں میں پیداہونے والی گنجائش سے فائدہ اٹھانے اور زیادہ سے زیادہ روایتی اور غیر روایتی اشیا امریکا برآمد کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں