میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کرم ،مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کی ضرورت

کرم ،مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کی ضرورت

جرات ڈیسک
هفته, ۲۲ فروری ۲۰۲۵

شیئر کریں

 

ضلع کرم کی لوئر تحصیل میں ایک بار پھر نامعلوم شرپسندوں نے اشیائے خورونوش اور دیگر سامان لے جانے والی 100 سے زائد گاڑیوں پر مشتمل قافلے پر اچانک فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں کم از کم ایک سیکیورٹی اہلکار کے جاں بحق جب کہ پولیس اہلکار اور کمسن بچی سمیت 7 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں فائرنگ کے بعد نامعلوم افراد کو گاڑیوں سے سامان لوٹ کر لے جاتے ہوئے اور سامان سے لدے ایک ٹرک سے آگ کے شعلے اٹھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے،خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے قافلے پر فائرنگ کے بعد لوٹ مار کرنے میں ملوث ملزم کاظم ولد گل بادشاہ کے سر کی قیمت 100 ملین پاکستانی روپے اور دیگر ملزمان کے سر کی قیمت 80 ملین پاکستانی روپے مقرر کی گئی ہے۔
ضلع کرم پر امدادی قافلے پر فائرنگ اور کرم کے غریب عوام کی ضرورت کی اشیا کو لوٹنے کے اس واقعہ کو کسی گروہ کا انفرادی فعل کہہ یا سمجھ کر نظرانداز نہیں کیاجانا چاہئے کیونکہ یہ واقعہ واضح طورپر دہشت گردی اور تخریب کاری کا واقعہ ہے اور اس میں ملوث افراد کے ساتھ دہشت گردی اور تخریب کاری سے متعلق قوانین کے مطابق ہی کارروائی کی جانی چاہئے، فوج کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال یعنی 2024میں دہشت گردی اور تخریبی کارروائیوں کے نتیجے میں گزشتہ ایک دہائی کے مقابلے میں سب سے زیادہ شہری اور فوجی شہادتیں ہوئیں۔

اس خونریزی میں زیادہ تر کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر مذہبی عسکریت پسندوں کا ہاتھ ہے، بلوچستان میں علیحدگی پسند گروپوں نے بھی کئی بڑے حملے کیے ہیں،اگرچہ پاک فوج کے جوان بڑی بے جگری کے ساتھ ان دہشت گردوں اور امن دشمنوں کے ساتھ برسرپیکار ہیں لیکن معلوم یہ ہوتاہے کہ ان کو بڑھاوا دینے والے دہشت گردی اور تخریب کاری کی وارداتوں کیلئے ان کو اس قدرزیادہ معاوضے کالالچ دیتے ہیں کہ وہ لوگ اپنی جان کی بازی لگانے کو تیار ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے پاک فوج کی پیہم کوششوں کے باوجود بلوچستان اور خیبر پختون خوا ہ بالخصوص قبائلی اضلاع کے لوگ امن کے لیے ترس رہے ہیں۔ ان قبائلی اضلاع میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بدامنی کے واقعات ہو رہے ہیں اسی لئے ان علاقوں کے لوگوں کا اولین مطالبہ امن کی بحالی ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور دیگر انتہا پسند عناصر نہ صرف خیبر پختونخوا کے عوام بلکہ ملک کی سلامتی اور ہم آہنگی کے ڈھانچے کے لیے بھی ایک فوری اور سنگین خطرہ ہیں۔پشاور جسے پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا، جو کبھی ترقی اور خوبصورتی کی علامت تھا، یہ شہر ثقافتی اور کاروباری سرگرمیوں کا مرکز تھا لیکن آج وہاں سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی ہے۔

ایسے افسوس ناک واقعات کا تسلسل سے رونما ہونا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے، کیونکہ کسی بھی حکومت کا اصل فریضہ اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے ،غریب عوام کو صرف باتوں اور اعلانات کی نہیں بلکہ عملاً آئین و قانون نافذ ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ خیبر پختونخوا کا صوبہ، جو پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے محاذ پر کھڑا ہے، طویل عرصے سے دہشت گردی کے ناسور کا شکار رہا ہے، جس کی بڑی وجہ اس کی افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہونا ہے جو کئی دہائیوں سے بدامنی کا شکار ہے۔پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اور کارروائیوں کے پس پردہ بھارت کے ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔

اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان کی سیکورٹی صورتِ حال نے مختلف بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کو پنپنے کا موقع دیا ہے، جس سے ان کی موجودگی، وسائل اور افغان سرحد سے باہر کارروائی کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کی افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے درمیان نقل و حرکت میں آسانی ہے، کیونکہ طالبان حکومت کے پاس ان علاقوں کا مؤثر کنٹرول نہیں ہے۔یہ دراصل عسکریت پسندوں کی نئی حکمت عملی کا تسلسل ہے۔ ان حملوں کے باعث صوبے میں عوامی زندگی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی عمل بھی شدید متاثر ہورہاہے۔

بلوچستان میں عسکریت پسند اپنے حملوں میں تیزی لا کر ریاستی عملداری کو چیلنج کر رہے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ بلوچستان کی مسلح تنظیموں کو ٹی ٹی پی کی معاونت بھی حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض پشتون اکثریتی علاقوں میں بھی بلوچ عسکریت پسندوں نے کئی بڑے حملے کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حالات وواقعات سے پتہ چلتاہے کہ بلوچستان کے پشتون علاقوں میں پاکستانی طالبان کا عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے۔

ایک وجہ ٹی ٹی پی کی دراندازی بھی ہے جو نوجوانوں کو چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی کارروائیوں کے لیے پاکستان بھیجتی ہے۔ اسی طرح وہ جرائم پیشہ فغان شہری ہیں جو پہلے افغانستان میں مسلح سرگرمیوں میں ملوث تھے اور اب ‘‘ٹی ٹی پی’’ اور دیگر دہشت گرد گروپس کے ساتھ مل کر پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافے کی ایک اہم وجہ افغانستان سے انخلا کے دوران امریکا کی جانب سے چھوڑا گیا وہ جدید اسلحہ ہے جو دہشت گرد گروپوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان میں بھی صورتحال خاصی خراب ہے، تمام تر حفاظتی انتظامات کے حکومتی دعوؤں کے باوجود عسکریت پسندوں کے حملے نہ صرف جاری ہیں بلکہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ان میں تیزی دیکھی گئی ہے۔ ان میں سے اکثر حملوں میں سیکیورٹی اہلکاروں اور حکومتی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

بلوچستان میں ‘‘دہشت گرد گروپس’’ سی پیک کے لیے اہم خطرہ ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے کئی دھڑے اس وقت براہ راست بلوچستان کی بدامنی میں ملوث ہیں۔ اس صورت حال میں یہ سوال ذہن میں آنا فطری امرہے کہ کرم میں قیام امن کے لیے جو جرگہ ہوا اور اس کے نتیجے میں جو معاہدہ ہوا، اس پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو رہا؟ شرپسند عناصر کہاں سے آ رہے ہیں؟ شرپسندوں کو پناہ کہاں ملتی ہے؟

وہ کون لوگ ہیں جو اس معاملے میں سہولت کاری کر رہے ہیں اور انہیں سرکاری اداروں کا کوئی خوف نہیں ہے؟ کیا یہ تشویش کی بات نہیں ہے کہ شرپسندوں نے ٹرکوں پر فائرنگ ہی نہیں کی بلکہ ان پر لدا ہوا مال بھی اتارا اور اسے اپنے ساتھ لے گئے اور آخر میں ٹرکوں کو آگ بھی لگا دی؟ یہ تو لاقانونیت کی انتہا ہے۔قانون پسند اور امن پسند طبقوں کے لیے ایسے ماحول میں رہنا انتہائی المناک حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت اور وفاقی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے تمام دستیاب وسائل، عزم، اور پختہ ارادے کو بروئے کار لاتے ہوئے اس علاقے سے دہشت گردوں، شرپسندوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرے۔ اس مقصد کے لیے سیاسی اختلافات کو پس پست ڈال کر کام کرنا ہوگا۔

قانون کی عملداری، ریاست و حکومت کی رٹ کے نفاذ اور اس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومت کو مشترکہ حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہوگا۔

پاکستانی فوج بہرحال یکسو ہے اور وہ دہشت گردی کے جن کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کے لیے پر عزم ہے۔ بدقسمتی سے اپنے دفاعی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان کئی اندرونی اور بیرونی طاقتوں کا ٹارگٹ اور آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ چین سے پاکستان کی قربت کسی کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ سی پیک کا منصوبہ اور اس میں پاکستان کی بھرپور شرکت پورے امریکی ہی نہیں بلکہ پورے مغربی بلاک کے لیے ناپسندیدہ عمل ہے۔

سی پیک راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے یہ ممالک پس پردہ پاکستان کے لیے سیکورٹی کے خطرات پیدا کررہے ہیں، جب کہ پاکستان جانتا ہے کہ سی پیک ایک گیم چینجر منصوبہ ہے اور اس کی کامیابی ہمارے روشن مستقبل کی یقینی ضمانت تصور کی جاتی ہے۔ ہماری مسلح افواج کو ایک کٹھن اور دشوار مرحلے سے گزرنا پڑرہا ہے، تاہم یہ بات باعث اطمینان ہے کہ پاک فوج کا مورال بلند ہے اور اسے محب وطن پاکستانی عوام کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہے۔دہشت گردی کے خطرے سے حقیقی طور پر نمٹنے کے لیے صرف فوجی طاقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر انحصار کافی نہیں ہے۔

فوج کو اپنا سی ٹی آپریشن جاری رکھنا چاہیے جب تک کہ تمام متاثرہ علاقوں کو عسکریت پسندی سے پاک نہیں کر دیا جاتا اس وقت پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں ہوسکتا۔ ریاست کے پاس جغرافیائی علاقے کا اچھا اندازہ ہے جس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ گزشتہ سال کے پی میں 444 دہشت گردانہ حملے ہوئے تھے۔سیکورٹی فورسز کو ان اضلاع میں فتح کی ضرورت ہے جہاں عسکریت پسندوں نے اپنے قدم جمائے ہوئے ہیں، اور پاکستانی سرزمین سے ان مذموم عناصر کو بے اثر یا بے دخل کرنے کی ضرورت ہے۔

دہشت گردوں کی بیخ کنی میں مصروف اہلکاروں کا نقصان خاص طور پر افسوسناک ہے، جان ومال کے زیاں کو ممکنہ حد تک کم کرنے کیلئے سول اور فوجی اہلکاروں کو بہتر آلات اور تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے جو جنگ کی گرمی میں جان بچانے میں مددگار ثابت ہوں،اس کے ساتھہ ہی خونریزی کو روکنے کیلئے، پاکستان کو اپنی سی ٹی پالیسی پر پوری طرح عمل کرتے ہوئے،افغان طالبان پر سفارتی دبا برقرار رکھنا ہو گا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان کی سرزمین پاکستان مخالف عناصر استعمال نہ کریں۔ متحرک کارروائیوں اور اضافی اقدامات کے ساتھ دہشت گردی کو شکست دی جا سکتی ہے۔ دہشت گردوں اور تخریب کاروں کی بیخ کنی اور اس طرح کے واقعات سے بچنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ان بنیادی وجوہات کو حل کیا جائے جو انتہا پسندی کو جنم دیتی ہیں، جیسے غربت، تعلیمی مواقعے کی کمی، بے روزگاری اور سماجی تنہائی۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا حکومت کو ایسی پالیسیوں پر توجہ دینی چاہیے،

کیونکہ اچھی حکمرانی کا بنیادی اصول یہی ہے کہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں کی تکمیل میں مستقل مزاجی اختیار کی جائے اور دوسروں کے معاملات میں مداخلت یا حدود سے تجاوز کرنے کی خواہش سے بچا جائے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ پاک فوج اور عوام شانہ بشانہ دکھائی دیں اور عام آدمی کو کسی بھی لمحہ اپنے ساتھ زیادتی ہونے کا احساس نہیں ہونے دینا چاہئے۔ صوبائی حکومتیں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات کر رہی ہیں، ان میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔ ریاستی سطح پر صوبوں میں سیکورٹی پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

ہمارے ماہرین تعلیم شاید یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم مختلف علوم کے پانچ پانچ سوال رٹ لینے کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کم نوجوان ایسے ہیں جنھیں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور وہ مختلف جامعات سے تعلیم حاصل کرکے عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔

لہٰذا ضروری تصورہے کہ ان نوجوانوں کی ڈِکشن کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر ہی ایسی ہوجائے کہ وہ اپنے ملک، قوم اور نظریے کے ساتھ اس قدر مخلص اور جڑے ہوئے ہوں کہ ملک کی بنیادیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائیں۔یہ وقت پوری قوم، سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ اور خاص طور پر افواج پاکستان کے لیے امتحان کا وقت ہے۔ تمام ادارے اور سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ کو باہم مل کر اس ملک کو امن اور عدم تشدد کا معاشرہ دینا نے کی کوشش کرنی چاہئے۔

دہشت گرد عناصر جن واقعات و حالات کو اپنے ناپاک ایجنڈے کے لیے بطورِ ایندھن استعمال کرتے ہیں ان پالیسیوں میں واضح اور مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ ان اسباب و محرکات کا بھی قلع قمع کیا جاسکے۔ جب تک پاکستانی ایجنسیاں عوام کے حقیقی مسائل، مشکلات اور شکایات کی طرف توجہ نہیں دیں گی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دو رُخی پالیسی نہیں چھوڑیں گی، اُس وقت تک امن کی حقیقی بحالی محض خواب ہی رہے گی۔

معاشرے سے اِنتہا پسندی کے خاتمے کے لیے عملی اِقدامات ضروری ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ اِنتہا پسندانہ اَفکار و نظریات کے خلاف مدلل مواد ہر طبقہ زندگی کو اُس کی ضروریات کے مطابق فراہم کردیا جائے تاکہ معاشرے سے اس تنگ نظری و اِنتہا پسندی کا بھی خاتمہ ہوسکے جہاں سے اِس دہشت گردی کو فکری و نظریاتی غذا حاصل ہوتی ہے۔ جب تک یکسو ہو کر تمام سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مرتکب افراد، ان کے معاونین اور فکری گماشتوں کا قلع قمع نہیں کیا جاتا، امن ہمارا خواب ہی رہے گا اور اس کی عملی تعبیر کبھی ممکن نہیں ہو سکے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں