میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دنیاکی زندگی موت پرموقوف ہے!

دنیاکی زندگی موت پرموقوف ہے!

ویب ڈیسک
هفته, ۲۱ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
آج میں نے فکرآخرت،ذکرموت پرقلم اٹھانے کی جسارت کی ہے کہ ہم سب اس اٹل حقیقت سے کچھ نصیحت حاصل کریں۔شائدو بایدکوئی اہل دل اس سے نصیحت حاصل کرے اور آخرت کے لئے کوئی سامان ایمان،ایقان،قرآن،نبی آخرالزمان کافرمان بن جائے ۔ اللہ اوراس کارسولۖراضی ہوجائے،اللہ کے فضل سے خاتمہ بالخیرہوجائے،سچی بات پریقین کرے،قبروحشرمیں نجات ہو جائے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ زندگی اورموت کی کشمکش ابتدا سے چلی آرہی ہے۔زندگی نے دعوی کیاکہ اس دنیامیں ہمیشہ رہوں گی لیکن موت نے اس کو باطل کرکے دکھایا۔
زندگی میں انسان نے مکان بنایا کارخانے بنائے۔ دکان بنائی۔ملیں لگائیں،باغات لگائے،کوٹھیاں ائیرکنڈیشنڈ تیارکیں،محل بنائے، ایٹمی حملوں سے بچنے کیلئے پناہ گاہیں بنائیں ، آرائش وزیبائش کے سامان تیارکئے۔بناوٹ سجاوٹ سج دھج دکھایا۔قلعے تیارکیے اورحفاظتی جنگلے لگائے مگرجب موت نے ڈیراڈالا،اجاڑکے رکھ دیا،خودکورب اعلی کہنے والاجب ڈوبنے لگاتوپکاراٹھاکہ میں سچے رب پرایمان لاتا ہوں لیکن دیرہوگئی۔رہنے والے مکین چلے گئے۔گاہک آئے،دکاندارروانہ ہوچکاتھا۔بیوی تھی مگربیوہ تھی ۔بچے تھے مگربے سہارا ۔ ہنستے ہوئے گھرغمزدہ ہوگئے۔خوشی غمی میں تبدیل ہوگئی۔آبادی بربادی میں تبدیل ہوگئی۔خانہ سرسبز و شاداب خراب ہوگیا۔اللہ اللہ کتناہولناک منظر ہے۔نومولودچیخ رہاہے مگر دودھ پلانے والی شفیق ماں دنیا سے چل بسی۔
حضرت ابن منبہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ملک الموت ایک بہت بڑے جابرظالم کی روح قبض کرکے جارہے تھے۔فرشتوں نے ان سے پوچھاکہ تم نے ہمیشہ جانیں قبض کیں، کبھی کسی پررحم بھی آیا؟انہوں نے کہاکہ مجھے سب سے زیادہ ترس اس عورت پرآیاجوجنگل میں بالکل تنہاتھی۔جونہی اس کابچہ پیداہوامجھے اس عورت کی جان قبض کرنے کاحکم ہوا۔ مجھے اس بچہ کی تنہائی پربڑاترس آیاکہ جنگل میں جہاں کوئی دوسرانہیں ہے اس بچے کاکیابنے گا؟فرشتوں نے کہا یہ ظالم جس کی روح تم لے جا رہے ہو،وہی بچہ ہے۔ملک الموت حیران ہوگئے۔کہنے لگے: مولا توپاک ہے بڑامہربان ہے۔جوچاہتاہے کرتاہے۔اس کے برعکس دودھ بہہ رہاہے مگرپینے والاقبرکے اندرچلاگیا۔ہاں ہاں بادشاہوں کے محلات مضبوط تھے۔قلعے موجودہیں مگراب وہ کھنڈرہیں۔ خالی ہیں،یادگارہیں،آثار قدیمہ ہیں تاکہ دیکھنے والے عبرت پکڑیں۔ تخت ہے تخت نشین نظرنہیں آتا۔آرام کرسیاں موجود ہیں مگر کرسی نشین مفقود۔گاؤتکیے رہ گئے مگرٹیک لگاکرآرام کرنے والے چلے گئے۔اس جہان فانی میں بڑے بڑے لوگ آئے:بدکار آئے،باوقارآئے،انبیا،اولیا،صلحا،اتقیا، امرا، عقلا ،فصحا، بلغا آئے، طاقتور بہادر پہلوان آئے،نوجوان آئے، شہنشاہ وبادشاہ آئے، وزراآئے،حسین آئے،نازنین مہ جبین آئے،سپہ سالار آئے، شہسوار آئے، سردار آئے،مالدارآئے،نیکوکارآئے،بدکارآئے،پدمہاکروڑہا لکھوکھاہزارہاآئے،تندرست آئیلاچارآئے مگرسب چنددنوں کے مہمان تھے۔ کیسے ہی ذی شان تھے۔بہادرتھے،پہلوان تھے مگر ,موت نے کسی کونہیں چھوڑا۔مغرورکاغرورتوڑا۔دولت میں قارون، تکبرمیں فرعون اور موجودہ دورکے فراعین قصرسفیدکے مکین،ظلم میں ہلاکواورشہ زوری میں رستم،خوبصورتی میں یوسف،صبرمیں ایوب،درازی عمرمیں نوح،جلالی میں موسیٰ ،فصاحت میں سبحان، صداقت میں صدیق،عدالت میں عمر،سخاوت میں عثمان، شجاعت میں علی،شہادت میں حمزہ
عدل وانصاف میں نوشیرواں،حکمت میں لقمان،جودمیں حاتم ، موسیقی میں تان سین،عشق میں مجنوں،شاعری میں انوری،سعدی، حافظ، جامی، فردوسی اوراقبال، خاموشی میں زکریا ، گریہ میں یعقوب، رضاجوئی میں ابراہیم، ادب میں اسماعیل،حیامیں مریم، امتحان میں کامیاب ہاجرہ،ایمان میں بنیان مرصوص آسیہ،وفامیں خدیجہ،علم میں صدیقہ،صبرمیں سمیہ، سخاوت میں زبیدہ،عفت میں فاطمہ،حدیث میں رفاعیہ، حکومت میں سلیمان،ذہانت میں فیضی، فلسفہ میں غزالی،تفسیرمیں محمودآلوسی،حدیث میں بخاری ،دعوت میں نوح، خونریزی میں چنگیز خاں، بش، ٹونی بلیئر،نیتن یاہو،مودی،فقہ میں امام ابوحنیفہ،خوش الحانی میں داد،سیاحت میں ابن بطوطہ،فتح میں سکندراعظم،شہادت و صبرمیں امام حسین،سیاست میں مولاناعبید اللہ سندھی،وعظ اورمیدانِ خطابت میں حضرت سیدعطا اللہ شاہ بخاری……..مگریہ سب قبرکے مہمان بن گئے۔
بی بی عائشہ صدیقہ نے فرمایا:
لوکانت الدنیا تدوم لواحد
لکان رسول اللہ فیھا مخلدا
اگردنیاایک شخص کیلئے قائم ہوتی تورسول اللہ ۖوہاں ہمیشہ کے لیے مقیم ہوتے۔فارسی میں کسی نے کیا عجیب کہا:
اگرکس درجہاں پایندہ بودے
ابوالقاسم محمد زندہ بودے
حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں ملک الموت آدمی کی صورت بن کرحاضر ہوئے۔ایک وزیرحضرت کے پاس بیٹھاتھا۔ ملک الموت نے کئی باروزیرکودیکھا۔جب ملک الموت چلے گئے،وزیرنے پوچھا،حضرت یہ کون تھا؟فرمایا!حضرت عزرائیل۔ وزیرنے کہا،اس کے بارباردیکھنے سے خوف پیداہوگیاہے۔ابھی ہواکوحکم دیں کہ مجھے اپنے وطن بوماس جزیرہ میں پہنچادے۔ حضرت سلیمان نے حکم دیا، آن کی آن میں خداکی شان وزیرباتدبیروطن پہنچا۔ابھی گھرکی دہلیزپر قدم رکھاتھاکہ ملک الموت نے جان قبض کرلی۔ دوسری ملاقات میں سلیمان کے دریافت فرمانے پرملک الموت نے جواب دیا:میں حیران تھاکہ مجھے حکم ہواکہ اس وزیرکی جان جزیرہ بوماس میں قبض کرنی ہے اور یہ یہاں آپ کے پاس تھامگرحکم پوراہوگیا۔
ہارون الرشید کاشہزادہ،مگرنہ دولت کادلدادہ نہ شاہی محلات میں رہنے پرآمادہ،نہایت سادہ،مسکینی فقیری اختیار کی۔بیابانوں ویرانوں میں پھرتارہا۔بادشاہ نے کئی بار قاصد بھیجے ۔ بیٹا گھرآ،نعمتیں ہیں،لطف ہے،خزانے ہیں،دولت ہے،عیش ہے،آرام ہے، محل ہے، نوکر ہیں،باندیاںہیں،تیرے ہراشارے پرہرچیزمیسرہوسکتی ہے۔بیٹے نے کہا:والد محترم یہ سب بے کارہے،آخرفناہے، دنیابے وفا ہے۔ آخرت کے مقابلے میں ہیچ ہے۔دنیاقارون کاورثہ ہے اوردین محمدمصطفیۖکا ورثہ ہے۔میری نگاہ قرآن کی اس آیت پر ہے:
فرمائیے، سامان دنیابہت تھوڑاہے۔آخرت اچھی ہے اورباقی ہے۔
ایک دن شہزادے کی موت کاوقت قریب آیا۔صحرامیں کسمپرسی میں،مسکینی میں جان جانِ آفرین کے سپردکرنے سے پہلے زمین پریہ اشعار تحریرکرکے ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا۔ اشعارنوشتہ برزمین یہ تھے۔
یا صاحبی لا تغرر بتنعمی
فالعمر ینفدو والنعیم یزول
اذا حملت الی القبرل جنازہ
فاعلم بانک بعدھا محمول
اے دوست دولت پرمغرور نہ ہو۔ یہ مال بھی ختم ہو گا اورعمربھی۔جب قبرستان کی طرف جنازہ اٹھاکرلے جائیں گے تویقین کرنا کہ اس کے بعدتیری باری بھی آئے گی۔ہارون الرشید کو اطلاع ملی کہ تیرافرزندارجمند فلاں جنگل میں فقیری لباس، ینٹ سرہانے،نہ پلنگ نہ غالیچے وہ نازنین نازک بدن،زیب چمن،بے وطن بے گوروکفن،مسکینی انداز میں دنیاسے بے نیازابدی نیندسورہاہے۔بادشاہ نے جب یہ سناتومحبت وشفقت پدری نے جوش مارا،چیخیں نکل گئیں،بے اختیارروپڑا،فوراعزیزبیٹے کے سرہانے پہنچا۔پیشانی چوم کرکہا!مبارک ہوبیٹاتونے فقیری کوامیری پرترجیح دی،آج تورسول اللہۖکی گودمیں چلاگیا۔زندگی سادہ موت اعلی مگر تیری جدائی کاداغ ہمیشہ سینے میں رہے گا۔
ہارون الرشیدمتاثرہوئے بغیرنہ رہ سکا۔یقین ہوگیاکہ دنیافانی ہے۔آخرت باقی ہے۔اس کے بعدعلماکی صحبت ومحبت اختیارکی۔
ہارون الرشید کی بھی یہ مشہوربات ہے کہ نصیحت کے سننے پربہت رویاکرتے تھے۔ایک مرتبہ حج کوجا رہے تھے توسعدوں مجنوں راستہ میں سامنے آگئے۔چند اشعارپڑھے جس کا مطلب یہ تھا:مان لیاکہ تم ساری دنیاکے بادشاہ بن گئے ہولیکن کیاآخرموت نہ آئے گی؟دنیاکواپنے دشمنوں پرچھوڑدو۔جودنیاآج تمہیں خوب ہنسارہی ہے،یہ کل کوتمہیں خوب رلائے گی۔یہ اشعارسن کر ہارون الرشید نے ایک چیخ ماری اوربے ہوش ہوکرگرگئے۔اتنے طویل عرصہ تک بے ہوش رہے کہ تین نمازیں قضاہوگئیں۔حضرت حسن بصری جواہرات کی تجارت کیاکرتے تھے۔پھرتے پھراتے روم پہنچے،کیادیکھاکہ وزرا کی بیگمات،لونڈیاں اور فوج سب کہیں جارہے ہیں۔پوچھاکیاآج جشن ہے یابے وطن ہوکرجارہے ہو؟وزیرنے کہا:ہمارے ساتھ چلو۔ایک جنگل میں پہنچے۔ وہاں خیمہ ایستادہ ہے۔نہایت شاندار خیمہ، پہلے لشکرمسلح نے طواف کیااورروتے رہے۔پھرحکما، فلاسفروں نے پھرلونڈیوں نے پھرشاہی بیگمات نے،پھروزیروں نے۔آخرمیں بادشاہ نے طواف کیا،اندر گیا،بصدرنج وملال،یاس وحسرت،پریشان روتاہواسر جھکائے باہرنکلا ، کچھ آہستہ آہستہ بادشاہ کہتارہا۔حسن بصری نے ماجراپوچھاکہ کیاہے؟وزیرنے کہا،بادشاہ کانوجوان بچہ فوت ہو گیاہے۔ہرسال پورالشکریونہی معہ بادشاہ اس کی قبرپرآتے ہیں اور یہ تاثردیتے ہیں کہ بے نیازکے قبضہ میں یہ فرزندہے؟اے عزیز بچہ!اگرمیرے اختیار میں ذرہ برابرزندہ کرنے کاامکان ہوتاتوہم سعی بلیغ کرتے،سب مال ملک اوردولت نثار کردیتے کہ تیری ایک بارملاقات ہوجاتی مگرہم ہارگئے۔ہماری طاقت ہیچ ہے،توایسی ذات کے قبضہ میں ہے جوبے نیازہے۔حضرت حسن بصری پراتنااثرہواکہ سب کاروبار چھوڑ کر بصرہ واپس آئے اورتمام جواہرات فی سبیل اللہ غربامیں تقسیم کردئیے۔دنیاترک کردی اورگوشہ نشین ہوگئے۔سترسال اللہ کی عبادت اورمخلوق خداکی خدمت میں گزارے۔ ولی کامل بن کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔
قدیم بادشاہوں میں رواج تھاکہ ایک مشیر،ان کوہرصبح وشام موت یاددلایاکرتاتھا۔جب شاہجہاں کی تاج پوشی ہورہی تھی۔،راگ رنگ، ناچ گانے،راجے مہاراجے،خوبصورت لونڈیاں،سپاہ لشکرسب موجودتھے۔ خزانے لٹائے جا رہے تھے۔اہل اللہ دعاکررہے تھے۔ فقرا،گدا مداح سرائی میں مصروف تھے۔شعراقصیدے لکھ رہے تھے۔انتظام واہتمام دربارعام صبح وشام جاری تھا۔مرصع مزین شاندارچمکدارہیروں اورموتیوں والاتاج سرپرتھا۔آفرین مبارکبادی کے پیغامات اطلاعات،لگا تارمل رہے تھے۔خوشی و مسرت و شادمانی میں ہرشخص باغ وبہارتھا۔اچانک ایک فقیرنے بلندآوازسے کہا۔بادشاہ سلامت!اتنی خوشی کااظہارکروجتنی خوشی رہ سکے۔کل یہ تاج اتاراجائے گا۔یہ شاہی ختم ہوجائے گی ۔یہ عیش وعشرت سب کافورہوجائے گی،جوعزت دے سکتاہے ۔ذلت بھی دے سکتاہے۔شاہی دینے والاتباہی بھی کرسکتاہے۔تاج دینے والااتاربھی سکتاہے۔ہزاروں میں رونق افروزہونے والاکل تنگ وتاریک قبرمیں جائے گا۔
شاہجہان کاچہرہ یکایک فق ہوگیا۔گردن جھک گئی،آنکھیں پرنم ہوگئیں،دماغ چکراگیا،وجودکانپنے لگا۔فوراًتخت سے اترکرمٹی پر سررکھا۔عاجزی وانکسار ی سے روتے ہوئے عرض کیا:اے مالک زمین وآسمان،اے حقیقی شاہجہان، اے رب دوجہان،اے رحیم و رحمان ،اے وارث کون ومکان،میں کمترین انسان شاہجہان ناپاک پانی کاقطرہ،لاش محض، محتاج فقیرناتواں،بندہ حقیرہوں۔اے اللہ!ذلت سے بچانا،حکومت تیری ہے میں تیرامحکوم ہوں،میں عاجزتوقوی،میں انسان توعالی شان،میں فقیرتومدبر،میں فانی توباقی، مجھے ناز نہیں نیازہے،توہی شرافت دے،قوم کی خدمت دے،بادشاہ کی اس مسکینی،ناتوانی،بے چینی،بیقراری اوراضطراری کو دیکھ کرپورے دربارمیں سناٹاچھاگیا۔تمام خوشیاں،عیش و عشرت فکرآخرت میں تبدیل ہوگئیں۔ہرطرف خاموشی چھا گئی،تمام پروگرام موقوف،اذہان ماؤف۔
ہم موت کوبھول جائیں مگرموت نے ہمیں نہیں بھلایا،آئے گی،ضرورآئے گی۔یہ شکایت ہی غلط ہے کہ موت اچانک آتی ہے۔پہلے مطلع نہیں کرتی۔ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے بچے،جوان،بوڑھے اورنوجوان مرتے دیکھتے ہیں۔ہرشخص جانتاہے کہ مرنے کا وقت مقرر ہے۔جدیدتحقیق کے مطابق زمین1.9بلین سے زیادہ مسلمانوں کاگھرہے اوراسلام دنیاکاسب سے تیزی سے پھیلنے والامذہب بھی ہے۔ دنیامیں کل57مسلم اکثریتی ممالک(جن میں مغربی کنارے،غزہ کی پٹی،مایوٹ اورمغربی صحاراکے علاقے شامل ہیں)۔اوراب نائیجیریاکے شامل ہونے کے بعدان کی تعداد51ہوگئی ہے جہاں مسلم حکمران ہیں۔دنیاکے62فیصد مسلمان ایشیاپیسیفک کے خطے(ترکی سے انڈونیشیا تک)میں رہتے ہیں لیکن کیاہم نے سوچاہے کہ ہماری اس وقت کیاحیثیت ہے؟سوچنے کامقام ہے آج امریکاپچاس ریاستوں کوملاکرسپرپاوربناہواہے جبکہ ہمارے پاس57مسلم ممالک ہیں، ہم "سپرپاور”کیوں نہیں؟جبکہ مادی قوت کی بھی ہمارے پاس کمی نہیں۔
ثوبان رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول اکرمۖنے فرمایا”قریب ہے کہ دیگرقومیں تم پرایسے ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پرٹوٹ پڑتے ہیں”۔توپوچھاگیاکہ کیا ہم تعدادمیں کم ہوں گے ۔آپۖنے فرمایا”نہیں،بلکہ تم تعدادمیں کثرت میں ہوگے لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی مانندہوگے،اللہ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہاراخوف نکال دے گا اورتمہارے دل میں”وہن”ڈال دے گا،توایک صحابی نے پوچھا!وہن کیاچیزہے؟توآپۖنے فرمایا”یہ دنیاکی محبت اورموت کاڈرہے”۔
آج کئی افرادکہہ رہے ہیں کہ حماس نے آخراسرائیل پریہ حملہ کیوں کیاجبکہ انہیں پتہ ہے کہ اسرائیل کی پشت پرامریکااور پورے یورپ جیسی جابرقوتیں موجود ہیں اوران کے مقابلے میں مسلمان اپنی نااتفاقی کی بنا پران کامقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔لیکن وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پچھلے دس سالوں سے غزہ کے مکین شدیدترین محاصرے میں ہیں اور اسرائیل جب چاہتاان پرزندگی کے دروازے بندکرکے ان پرظلم وستم توڑرہاہے۔انہوں نے روزروزمرنے سے یہ بہترسمجھاکہ اپنی جانوں کی قربانیاں دیکردنیاکوایک مرتبہ پھر یہ باورکرایاجائے کہ ہمیں اللہ کی راستے میں موت اتنی ہی عزیزہے جتنی تمہیں اس فانی زندگی میں اپنی زندگی۔ اگراللہ تعالی تمہاری مددکرے توتم پرکوئی غالب نہیں آسکتا،اگروہ تمہیں چھوڑدے تواس کے بعدکون ہے جوتمہاری مددکرے، ایمان والوں کواللہ تعالی ہی پربھروسہ رکھناچاہئے۔ (آل عمران :160))
انسان کیسااحمق بے وقوف ہے،کیوں نہ ہو۔مگراسے موت کایقین ہے۔موت کاسیاہ بادل ہروقت سرپرمنڈلارہاہے۔جہاں موجود ہو، جس جگہ ہو،ایک دن موت کے پنجہ میں گرفتارہوگا۔کون ہے جودعویٰ کرے کہ یہ چیزمیری ہے،مگرایک موت ہے جودعویٰ کر سکتی ہے کہ یہ میری امانت ہے۔آنے کاایک راستہ ہے مگرجانے کے ہزارراستے ہیں۔یاد رکھیں ! دنیاکی زندگی موت پرموقوف ہے۔
۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں