حکمرانوں میں احساس کا فقدان
شیئر کریں
وزیراعظم شہباز شریف دعویٰ کرتے ہیں کہ ملکی معیشت گرداب سے نکل آئی ہے اور معاشی ترقی کی جانب گامزن ہے بظاہر ان کا یہ دعویٰ بے بنیاد نہیں ہے،فچ اور موڈیز جیسے عالمی اداروں کا بھی خیال یہی ہے کہ پاکستان معاشی گرداب سے نکل رہاہے،لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملک کے معاشی استحکام کی کوئی جھلک ملک کے کسی بھی شعبے میں نہیں دکھائی دیتی اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے ان دعووں کے باوجود کے مہنگائی کا گراف کم نہیں ہورہاہے۔ ملک کا غریب طبقہ دو وقت کی روٹی کیلئے ترس رہاہے اور ملک کے طول وعرض سے غربت اور فاقہ کشی کے سبب خودکشی کی خبریں معمول بن چکی ہیں۔جس سے ظاہرہوتاہے کہ ملک بدترین سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے۔ معاشی بہتری کے تمام تر دعووں اور بیانات کے باوجود عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ ان دعووں کا عملی ثبوت ملک میں بالکل بھی نظر نہیں آرہا۔ زمینی حقیقت یہ ہے جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ اس وقت ملک میں بدامنی کادور دورہ ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے اورہمارے وہ نڈراورجری نوجوان ہمیں جن کی سرحدوں پر ضرورت ہے اس ملک کے عوام کو دہشت گردوں کانشانہ بننے سے بچانے کیلئے اپنی قیمتی جانیں قربان کررہے ہیں، لیکن ایسا معلوم ہوتاہے کہ ارباب اختیار اس سنگین مسئلے کو بھی دیگر مسائل کی طرح کام چلاؤ یا ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت نمٹانے کی کوشش کررہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ سوائے دفاعی اور جوابی کارروائیوں کے اس کے مکمل خاتمے کے ٹھوس اقدامات اور حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ ملک میں کیا ہورہا ہے اور ملک وقوم کے ساتھ یہ سب کرنے کا مقصدا وراس کاانجام کیا ہے۔ حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جارہاتھا کہ کچے کے علاقے کو ڈاکوؤں کے چنگل سے آزاد کراکر ڈاکوؤں کا خاتمہ کردیاجائے گا لیکن ان دعووں کے برعکس اطلاعات کے مطابق کچے میں ڈاکو ابھی تک کھلے عام ”مصروف عمل“ ہیں اس صورت حال میں حکمرانوں سے کیا امید اور کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے دیگر ارکان ہر تقریب میں یہ دعویٰ کرنا نہیں بھولتے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچا ہو یا نہیں موجودہ حکومت کے اقدامات کے سبب پوری قوم دیوالیہ ہوگئی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف سے جو قرضہ ملا اس کو بھگتے گا تو عام پاکستانی، لیکن اس عام پاکستانی کواس قرضے سے کیا فائدہ ہوا۔ فائدہ تودرکنار عام آدمی پر مہنگائی کے پہاڑ کے وزن میں اضافہ ہوا۔اب آئی ایم ایف سے مزید 7 ارب کا قرضہ ملنے کے امکان پرابھی سے خوشیاں منائی جارہی ہیں اور ایسا نظر آرہا ہے کہ جیسے حکومت نے بہت بڑا معرکہ سرکرکے قوم پر احسان عظیم کر دیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف سیاسی انتشار ہے اور یہ انتشار وبے یقینی کی کیفیت ہی معاشی عدم استحکام اور بے یقینی کا باعث ہے،بانی پی ٹی آئی یا اس جماعت کے دیگر رہنما اور کارکن ہوں ان پر مقدمات تو لاتعداد بنائے گئے گرفتاریاں بھی ہوئیں اور روپوشیوں کا سلسلہ بھی چلا لیکن ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود نہ ان میں سے کسی پر کوئی جرم ثابت کیا جاسکا نہ ان کو مقدمات کے اس غیر ضروری چکر سے نجات مل سکی۔ سزا کی بات اس لئے نہیں کرتے کہ جب جرم ہی ثابت نہیں ہوا تو عدالتوں پریہ الزام کیونکر لگایا جاسکتا ہے کہ وہ 9مئی یا کسی اور مقدمے میں مخصوص جماعت کو ناجائز ریلیف دے رہی ہیں۔
ملک کو اس وقت جس صورت حال کا سامنا ہے اس کے پیش نظر بعض تجزیہ کاروں کا یہ کہنا درست معلوم ہونے لگاہے کہ اس وقت پاکستان میں ایک ایسی حکومت ہے جس کا عام آدمی کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حکمران اور ان کے وزرا جس طرح عام آدمی کے مسائل سے صرف نظر کرتے ہیں تو ان سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ارباب حکومت نجی محفلوں میں برملا یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہمارے پاس اختیار نہیں ہے اختیار کسی اورکے پاس ہے۔ بعض تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ کچھ چیزیں آپ کو بھگتنا پڑتی ہیں، اسی کو شاید مکافات عمل کہتے ہیں، ماضی کا ریکارڈ تو یہی ہے کہ تاجر اپنے مطالبات منوا لیتے ہیں یہ پیچھے نہیں ہٹا کرتے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما کا کہنا تھا کہ امیر لوگ ٹیکس ہی نہیں دیتے، حکومت بلیک میلنگ میں نہیں آئے گی، انھیں ٹیکس نیٹ میں آنا پڑے گا۔ انھوں نے حکومتی اللوں تللوں کا دفاع یہ کہہ کر کرنے کی کوشش کی کہ ہمیں بھی ٹیکس دینا پڑتا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ ایک غریب اور بے وسیلہ ملک میں ان اللے تللوں کی کیاگنجائش ہے،وزیراعظم اور وزیرخزانہ بار بار یہ کہتے ہیں کہ سب کو قربانی دینی پڑے گی لیکن اپنی مراعات کی قربانی دینے کوکوئی تیار نہیں۔جس دن ملک میں مہنگی بجلی اور حکومتی ٹیکسوں کی جبری وصولی کے خلاف تاجروں نے ہڑتال کی اسی روز لاہور کے علاقے شاہدرہ میں غربت کے ستائے ایک شخص نے اپنی بیوی اور5 بچوں کو زہر دے دیا،اگرچہ پولیس کے فوری رسپانس نے 7 قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچا لیں مگر اشرافیہ نے اس چیز کا قطعی خیال نہیں کیا کہ زہر کھا کر جان دینے والوں کے گھر کم از کم ایک ماہ کا ہی راشن پہنچادیا جائے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق متاثرہ فیملی کے سربراہ نے پولیس کو فون کرکے بتایاتھا کہ میرے گھر میں اناج کا دانہ نہیں میں اپنے بچوں کو بھوک سے بلک بلک کر مرتا نہیں دیکھ سکتا، اس لیے سب زہر کھا رہے ہیں تاکہ زندگی سے نجات پا سکیں۔ہمارے اوپر تو مالک مکان کا 7 ماہ کا کرایہ بھی چڑھ چکا ہے بھوکے مر رہے ہیں۔ پولیس نے ان کو بروقت اسپتال پہنچا کر ان ساتوں افراد کو مرنے سے تو بچا لیا ورنہ ملک میں بھوک و افلاس، غربت اور بجلی کے مہنگے بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث جو خودکشیاں ہو رہی ہیں ان میں بیک وقت 7 افراد کی ہلاکت کا ریکارڈ ضرور بن جاتا مگر صوبائی یا وفاقی حکومت پراس کا کوئی اثر نہیں پڑا یہاں تک کہ ان کو ایک دن کا کھانا بھی مہیا نہیں کیاگیا، یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ آئی پی پیز میں 28 فیصد شیئرز خود شریف فیملی کے ہیں۔ جبکہ کہ ملک میں 55 فی صد لوگ بجلی اور گیس کے بھاری بلوں کی وجہ ہی سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف ہمیشہ مہنگائی کا ذمہ دار پی ٹی آئی کی حکومت کو قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عوام کو یہ نہیں بتاتے کہ پی ٹی آئی کے دور میں بجلی کے فی یونٹ کی قیمت کتنی وصول کی جارہی تھیں اور گھریلو صارفین سے گیس کا بل کس حساب سے وصول کیا جارہاتھا،وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے ہم نواؤں کو پی ٹی آئی کی حکومت کی خامیاں بیان کرتے ہوئے عوام کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ پونے چار سالہ پی ٹی آئی کی وفاقی اور پنجاب و کے پی کی حکومتوں میں غربت کس سطح پر تھی کیا اس وقت لوگ جانوروں جیسی زندگی گزار رہے تھے یا غریب اور بے گھر لوگ راتوں کو آرام دہ بستروں پر سوتے اور صبح اٹھ کر پیٹ بھر کر ناشتہ کرنے کے بعد تلاش معاش میں نکلا کرتے تھے۔شہباز شریف اور ان کے ہم نواؤں کو یہ بتانا چاہئے کہ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے ملک میں غربت ختم کی تھی یا بڑھائی تھی۔ موجودہ حکومت کے دور میں جو تباہی ہوئی، اس کی نذیر اس ملک کی 77 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی،موجودہ دور میں ملک میں غربت کیوں بڑھی اس دور میں غریبوں کے لیے کیا کیا گیا۔پی ٹی آئی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ختم ہوئے سوا 2سال سے زیادہ ہوگئے مگر وزیراعظم اور ان کے ہمنوا بڑی ڈھٹائی کے ساتھ تمام خرابیوں کی ذمے داری اب بھی سابق حکمرانوں پر ہی ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔اور یہ نہیں بتاتے کہ سوا 2سال میں ملک کے غریبوں کی بہتری کے لیے کون سے اقدامات کیے گئے؟سوا دو سال کم نہیں ہوتے اگر پاکستان کے حکمرانوں میں بھی کوئی دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال جیسا عوام سے مخلص، ہمدرد اور سادگی سے حکمرانی کرنے والا ہوتا تو ملک میں غربت ختم نہیں تو کم ہی کی جاسکتی تھی۔ وزیر اعلیٰ کیجریوال نے تو 100 دن میں اپنے وعدوں پر عمل کرکے دکھا دیا تھا اور عوام کو سہولتیں دی تھیں جس کے نتیجے میں ان کی پارٹی کو عوام نے دہلی کے بعد بھارتی پنجاب کی حکمرانی کے لیے بڑی تعداد میں ووٹ دیے تھے۔موجودہ حکومت صرف اس پر خوش ہے کہ عالمی ادارے موڈیز نے سوا 2سال بعد پاکستان کی ریٹنگ بہتر کردی ہے اور حکومت کی معاشی پالیسیاں درست ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ ملک کی معیشت میں اگر بہتری آئی ہے تو ملک کے غریبوں کی حالت میں تو کوئی بہتری نظر نہیں آئی بلکہ مزید بدتر ہوئی ہے۔ حکومت خود ملک میں مہنگائی بڑھا رہی ہے۔ ملک بھر میں بجلی مہنگی ہونے پر احتجاج ہو رہا ہے مگر بے حس حکومت باز نہیں آ رہی اور مسلسل بجلی مزید مہنگی کر رہی ہے اور وزرا عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں کہ آئے دن مہنگی ہونے والی بجلی آیندہ مہینوں میں سستی ہو سکتی ہے۔وزیر اعظم نے بجلی کے سلسلے میں جس خوشخبری کا اعلان کیا تھا وہ 3 ہفتے میں بھی نہیں ملی بلکہ اگست میں ملک بھر میں بجلی مہنگی کی گئی جسے فیول ایڈجسٹمنٹ کا نام دیا جاتا ہے جس کے تحت اگست میں سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں بجلی 1.89 روپے فی یونٹ مہنگی اور ماہانہ ایڈجسٹمنٹ میں بجلی صرف 31 پیسے سستی کی گئی ہے۔سوا 2 سال کی موجودہ حکومت کی بے حسی کی انتہا ہے کہ حکومت سادگی اختیار کر رہی ہے نہ اپنے اخراجات کم کر رہی ہے اور بعض سرکاری ادارے ختم یا ضم کرنے کے دعوے ہی سننے میں آ رہے ہیں جس سے بے روزگاری بڑھے گی اور ایسا پیپلز پارٹی نہیں ہونے دے گی۔ دونوں حکمران پارٹیوں میں اگر عوام کا احساس ہوتا تو صدر اور وزیر اعظم ہاؤسز کے اخراجات نہ بڑھتے بلکہ سادگی اختیار کرکے کم کیے جاسکتے تھے مگر اصل بات احساس کی ہے موجودہ حکمرانوں میں جس کافقدان نظر آرہا ہے،یہی وجہ ہے کہ حکومتی بے حسی کم ہونے میں ہی نہیں آ رہی صرف دعوے ہو رہے ہیں۔