قوانین بالائے طاق،وزارت قانون نے 86 لاکھ روپے وکلا ء پر لٹادیے
شیئر کریں
دنیا بھر میں اس بات پر طویل عرصے تک بحث جاری رہی کہ کولمبیا کے معروف منشیات فروش پبلو اسکوبر کوجسے مغربی ممالک میں منشیات کا شہنشاہ تصور کیاجاتاتھا اس کے سنگین جرائم پرسزا کیوں نہیں دی جاسکی بعد ازاں تحقیق سے ثابت ہوا کہ اس نے اپنی دولت کے بل پر اس ملک کے نظام انصاف کو اپنا غلام بنا رکھاتھا۔
اگرچہ پاکستان میں ابھی صورت حال اتنی زیادہ خراب نہیں ہوئی ہے لیکن اس بات کاانکشاف ہواہے کہ ہماری وزارت قانون چند وکلا کے گٹھ جوڑ کے ذریعے سرکاری خزانے کی رقم حکومت کے لیے وکلا کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی خاطر بے دردی سے لٹارہی ہے۔
وزارت قانون کے 2015-16 کے حسابات کی جانچ پڑتال سے یہ ظاہرہوا کہ وزارت قانون ، انصاف اور حقوق انسانی نے متذکرہ سال کے دوران مقدمات کی پیروی کے لیے مختلف وکلا کی خدمات حاصل کیں اور اس کے لیے انھیں سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے فیس کے طورپر ادا کردیے ، جبکہ وکلا کی خدمات حاصل کرنے کے لیے اصول اورقانون کے تحت کوئی اشتہار شائع نہیں کرایاگیا،وکلا کی قابلیت کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیااور ملک کے عوام ہی کو نہیں بلکہ قابل وکلا کوبھی اس عمل سے دور بلکہ بے خبر رکھا گیا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ وزارت قانون نے مروجہ قوانین اور طریقۂ کار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی اشتہار کے بغیر متذکرہ سال کے دوران سرکاری مقدمات کی پیروی کے لیے 576 وکلاء کی خدمات حاصل کیں انھیں اپنے پینل میں شامل کیاانھیں مختلف مقدمات کی پیروی کی ذمہ داریاں سونپیں اور اس کے عوض انھیں مجموعی طورپر 86 لاکھ 30 ہزار روپے ادا کردیے۔
وزارت قانون وانصاف جیسا کہ نام ہی سے ظاہرہے حکومت کے قانونی معاملات کی ذمہ دار ہے۔ اس وزارت کے ارباب اختیار مختلف معاملات میں وفاقی حکومت کو قانونی مشورے دیتے ہیں اور مختلف قوانین کی پیچیدگیوں سے آگاہ کرتے ہیں ، وفاقی حکومت کوئی بھی قانون نافذ کرنے سے قبل اس کامسودہ وزارت قانون کو بھیجتی ہے اور وزار ت قانون کے ماہرین اس کااچھی طرح تجزیہ کرکے اس کے قابل عمل ہونے ، قابل قبول ہونے اور اس کی وجہ سے پیداہونے والی ممکنہ پیچیدگیوں اور اختلافات کے بارے میں وفاقی حکومت کومدلل رائے دیتے ہیں ۔
حکومت کی جانب سے تیار کردہ مختلف بلز ،قانونی مسودوں ، بین الاقوامی معاہدوں کی جانچ پڑتال اور ان میں موجود قانونی موشگافیوں کاجائزہ لے کر انھیں زیادہ بہتر اور غلطیوں اور سقم سے پاک کرنے اورموجودہ قوانین پر عملدرآمد کے بارے مشورے دینا بھی وزارت قانون وانصاف کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
آڈیٹر جنرل کی جانب سے پارلیمنٹ میں حال ہی پیش کی جانے والی رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ وزارت قانون نے وکلا کی خدمات حاصل کرنے کے لیے نہ تو ان کی تعلیمی قابلیت اور تجربے کو مد نظر رکھا اور نہ ہی ملک کے دیگر وکلا کو اس اہم کام کی انجام دہی کے لیے مقابلے میں شرکت کرنے اورقسمت آزمائی کاموقع دیا ۔آڈیٹر جنرل پاکستان نے اپنی رپورٹ میں سرکاری مقدمات کی پیروی کے لیے اس طرح وکلا کی خدمات حاصل کرنے اور انھیں بھاری ادائیگیاں کرنے کے عمل کو وزارت قانون کا صوابدیدی طریقہ قرار دیاہے ،اور اسے اقربا پروری ،دوست نوازی یاکرپشن قراردیاہے۔
آڈیٹر جنرل پاکستان نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی پی پی آر اے کے قوانین میں واضح طورپر لکھاہواہے کہ وکلا کی خدمات حاصل کرنے کے لیے کھلے مقابلے کااہتمام کرناہوگااور اشیا کی خریداری ،تعمیرومرمت کے ٹھیکوں اور دیگر شعبوں کے لیے خدمات کے حصول کے مروجہ طریقہ کارکے کھلے مقابلے میں کامیاب ہونے والے وکلا ہی کو سرکاری مقدمات کی پیروی کے لیے منتخب کیاجاسکتاہے اور سرکاری مقدمات کی پیروی کے لیے ایک خاص مقررہ حد کے مطابق ہی انھیں فیس ادا کی جاسکے گی ، ذاتی پسند وناپسند،دوستی یا قرابت داری کی بنیاد پر وکلا کے تقرر کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے جبکہ وزارت قانون نے سرکاری مقدمات کی پیروی کے لیے وکلا کی تقرری کے لیے یہ تمام اصول وضوابط اور قوانین بالائے طاق رکھ کر مبینہ طورپر من پسند وکلا کو سرکاری فنڈز سے نوازنے کاسلسلہ پورے سال جاری رکھا۔
آڈیٹر جنرل پاکستان نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ 3 جنوری2017 کو پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر(پی اے او) کو ان بے قاعدگیوں سے آگاہ کیاگیاتھا لیکن اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان کے دفتر میں اس رپورٹ کو حتمی شکل دئے جانے تک محکمہ جاتی اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سی ) کااجلاس ہی طلب نہیں کیاجاسکاتھا۔
آڈیٹر جنرل پاکستان نے اپنی رپورٹ میں لکھاہے کہ وزارت قانون کو وکلا کی خدمات تکنیکی طورپر ان کی صلاحیتوں ،تجربے اس سے قبل اہم مقدمات کی پیروی کے تجربات اور ان کے نتائج کو مدنظر رکھ ہی حاصل کی جاسکتی ہیں ۔اس کے لیے وزار ت قانون کو باقاعدہ اشتہار کے ذریعے مطلوبہ صلاحیت اور تجربے کی تشہیر کے ذریعے دلچسپی رکھنے والے وکلا سے درخواستیں طلب کرنی چاہئیں ا ورپھر موصولہ درخواستوں کی مروجہ قوانین کے مطابق جانچ پڑتال کے بعد شفاف طریقے سے واقعی قابل اوراہل وکلا کاانتخاب کرنا چاہئے تاکہ حکومت کوعدالتوں میں سبکی کاسامنا نہ کرنا پڑا اور سرکاری فنڈز سے ادا کی جانے والی فیس کاصحیح نعم البدل مل سکے۔ بصورت دیگر آڈٹ کے اعتراضات سامنے آتے رہیں گے۔
ماہرین قانون نے بھی وزارت قانون اور انصاف کی جانب سے سرکاری مقدمات کی پیروی کے لیے من پسند وکلا کے تقرر کے اس طریقہ کار پر تشویش اور حیرت کااظہار کرتے ہوئے اسے کھلی کرپشن قرار دیاہے اورحکومت سے مطالبہ کیاہے کہ اس پورے معاملے کی انکوائری کرائی جائے اور اس کے ذمہ دار افسران سے باز پرس کی جائے اس طرح بے قاعدہ ادا کی گئی رقم ان کے اکاؤنٹ اور واجبات سے منہا کی جائے اور کرپشن کے الزام میں انھیں عہدوں سے برطرف کیاجائے کیونکہ کرپشن خواہ کسی بھی شکل میں کی جائے کرپشن ہے ۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے بھی حال ہی میں وفاقی اور صوبائی وزار ت قانون کی جانب سے سرکاری مقدمات کی پیروی کے لیے وکلا کی خدمات حاصل کرنے کے طریقہ کار اور ان کو بھاری ادائیگیوں کاسخت نوٹس لیاتھا،سپریم کورٹ نے کہاتھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کسی جواز کے بغیر پرائیوٹ وکلا کی خدمات حاصل کرکے سرکاری خزانے سے ان کو بھاری ادائیگیاں کررہی ہیں جس کاکوئی جواز نہیں ہے اور یہ سلسلہ اب بند ہوناچاہئے۔سپریم کورٹ نے کہاتھا کہ سرکاری خزانہ اس طرح لٹائے جانے کے لیے نہیں ہوتااور حکومت کافرض ہے کہ ریاست اور عوام کے اثاثوں کی حفاظت کرے اور ان کوضائع ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کرے۔عدالت نے یہ بھی کہاتھا کہ آڈیٹر جنرل پاکستان، اٹارنی جنرل پاکستان اور صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز پر بھاری ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں اور ان کافرض ہے کہ وہ قانونی معاملات میں حکومت کومشورے دیں اس کام کے لیے باہر سے وکلا کے تقرر کاکوئی جواز نہیں ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وزارت قانون اپنے اس غیر قانونی عمل کاکیاجواز پیش کرتی ہے اور سرکاری خزانے سے من پسند وکلا کو بلاجواز ادا کی جانے والی رقوم کی واپسی کا کیاانتظام کیاجاتاہے ،یا اس کے لیے بھی کسی سیاسی پارٹی کو احتجاج کاپرچم بلند کرکے میدان میں آنا پڑے گا۔