میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستانیوں کو کیوں مختلف ممالک سے ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے؟

پاکستانیوں کو کیوں مختلف ممالک سے ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے؟

جرات ڈیسک
پیر, ۲۱ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

٭گزشتہ ڈیڑھ سال میں ایران، ترکی، یونان،ا سپین اور عمان سمیت متعدد ممالک سے ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا، ایف آئی اے کو 15 ہزار سے زیادہ شکایات بھی موصول
٭ڈی پورٹ ہونے والوں کی اکثریت غیر قانونی راستوں یا جعلی دستاویزات پر سفر کر کے متعلقہ ممالک میں پہنچتی ہے جن کی مدد بھاری رقم لے کر انسانی اسمگلرز اور ان کے ایجنٹ کرتے ہیں
٭ڈی پورٹ ہونے والے افراد کی تعداد میں جب اضافہ ہوتا ہے تو قانونی طریقے سے بیرون ملک روزگار، کاروبار اور سیر و سیاحت کے لیے جانے والے افراد کے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران ایک لاکھ 10 ہزار سے زیادہ مسافر فضائی، بحری اور زمینی راستوں سے پاکستان آئے ہیں جن میں ایک لاکھ سے زیادہ وہ پاکستانی شامل ہیں جنہیں دنیا کے مختلف ممالک سے ڈی پورٹ کر کے وطن واپس بھیجا گیا ہے۔ایف آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران 25 فضائی، بحری اور بری راستوں سے سوا دو کروڑ سے زیادہ افراد پاکستان آئے یا پاکستان سے بیرونِ ملک گئے۔ ایک کروڑ دس لاکھ سے زیادہ افراد پاکستان آئے جب کہ ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ بیرون ملک گئے۔ان اعداد و شمار کے مطابق ایران، ترکی، یونان، سپین اور عمان سمیت متعدد ممالک سے پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا۔وزارت داخلہ کے حکام کہتے ہیں کہ ترکی، یونان اور ایران سمیت مختلف ممالک کی جانب سے کم و بیش ہر مہینے ہی احتجاج کیا جاتا ہے اور پاکستانی حکومت کو غیرقانونی طور پر ان ملکوں میں آنے والے پاکستانیوں سے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے اور یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس سلسلے کو روکا جائے۔ایف آئی اے حکام کے مطابق ڈی پورٹ ہونے والوں کی اکثریت غیر قانونی راستوں یا جعلی دستاویزات پر سفر کر کے متعلقہ ممالک میں پہنچتی ہے جن کی مدد انسانی اسمگلرز اور ان کے ایجنٹ کرتے ہیں۔غیرقانونی طور پر بیرون ملک جانے والے یہ پاکستانی اگر قانون کی گرفت میں آ جائیں تو ان کی شہریت کا تعین کیا جاتا ہے جس کے بعد انہیں پاکستان واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ حکام کے مطابق ایف آئی اے کو ڈی پورٹ ہونے والوں کے بارے میں پہلے سے آگاہ کر دیا جاتا ہے اور انہیں تحویل میں لے کر قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ ایف آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق‘صرف بیرون ملک سے ڈی پورٹ ہونے والوں کی تعداد ہی ایک لاکھ سے زیادہ نہیں بلکہ ان میں ہزاروں کی تعداد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو جعلی دستاویزات پر سفر کر رہے تھے یا پہلے سے بلیک لسٹ میں شامل تھے جنہیں بیرون ملک جانے سے روک کر ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ایسے کیسز کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہے۔ ایف آئی اے کو اس عرصے کے دوران 15 ہزار سے زیادہ شکایات بھی موصول ہوئیں جن پر کارروائی کرتے ہوئے ساڑھے سات ہزار سے زیادہ معاملات کی تفتیش کی گئی اور 10 ہزار سے زیادہ مقدمات درج کیے گئے جبکہ 12 ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔ اس عرصے کے دوران چار ہزار سے زائد افراد کے خلاف چالان جمع کرائے گئے اور تین ہزار کو مختلف عدالتوں سے قید اور جرمانوں کی سزائیں بھی ہوئیں۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق،‘ڈی پورٹ ہونے والے افراد کی تعداد میں جب اضافہ ہوتا ہے تو قانونی طریقے سے بیرون ملک روزگار، کاروبار اور سیر و سیاحت کے لیے جانے والے افراد کے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ اس سے نہ صرف ملک کا تشخص مجروح ہوتا ہے بلکہ پاکستانیوں کے لیے ان ممالک کی جانب سے مختلف سہولیات جیسا کہ ویزہ آن ارآئیول یا ای ویزہ کے حصول میں بھی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔حکام کے مطابق،‘ڈی پورٹ ہونے والے افراد کو کوئی بڑی سزا نہیں ہوتی بلکہ عدالتیں انہیں فوری طور پر ضمانت پر رہا کر دیتی ہیں۔ تاہم ان کو گرفتار کر کے ان سے انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کے لیے تحقیقات میں مدد حاصل ہوتی ہے۔پاکستان میں امن و امان کی خراب صورتحال، غربت اور بیروزگاری کے باعث نوجوانوں کی بیرون ملک جانے کی خواہش روز بروز شدت اختیار کرتی جارہی ہے جس میں حالیہ مہینوں میں بے انتہا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کے خواہشمند پاکستانیوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اسی طرح گزشتہ چند سالوں کے دوران لاکھوں پاکستانیوں کو مختلف ممالک سے پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا جن میں اکثریت کا تعلق گجرات، جہلم، بہاولپور، منڈی بہاؤ الدین اور دیگر شہروں سے تھا۔ ان علاقوں کے لوگ یہ دیکھ کر کہ محلے کے کسی خاندان کے نوجوان کے بیرون ملک جانے سے اُس خاندان کے معاشی حالات بہتر ہوگئے ہیں تو وہ بھی اسی لالچ میں اپنے نوجوان بیٹوں کو بیرون ملک جانے کی ترغیب دیتے ہیں لیکن خاندان کی معاشی بہتری اور آنکھوں میں روشن مستقبل کے سہانے خواب سجائے بیرون ملک جانے والے اکثر نوجوان انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایسے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو اُنہیں بہتر مستقبل کا خواب دکھاکر غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک لے جانے کا جھانسہ دیتے ہیں جس کے عوض وہ ان سے بھاری رقوم بٹورتے ہیں۔پاکستان میں ایران سے ملحق سرحد انسانی اسمگلنگ کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے جہاں اسمگلرز انتہائی سرگرم ہیں۔ یہ اسمگلریورپ جانے کے خواہشمند نوجوانوں کو بذریعہ سڑک پہلے پاکستان سے ایران اور ترکی لے جاتے ہیں پھر اُنہیں کنٹینرز اور کشتیوں میں بھرکر یورپی ملک یونان لے جایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ پاکستانیوں کو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے یورپی ملک اسپین بھی لے جایا جاتا ہے۔ اسی طرح غیر قانونی طور پر خلیجی ممالک جانے کے خواہشمند نوجوانوں کو بلوچستان کے سرحدی علاقے مندبلو کے راستے کشتی کے ذریعے مسقط پہنچایا جاتا ہے جہاں سے یہ نوجوان مختلف خلیجی ریاستوں میں غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہیں۔ آسٹریلیا میں پناہ لینے کے قوانین میں نرمی کے باعث گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستانی نوجوان بڑی تعداد میں آسٹریلیا کا رخ کررہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ یہ نوجوان تفریحی ویزے پر پہلے تھائی لینڈ کا رخ کرتے ہیں جہاں سے وہ ملائیشیا یا انڈونیشیا نکل جاتے ہیں اور بعد ازاں اُنہیں انسانی اسمگلنگ میں ملوث جرائم پیشہ ایجنٹ چھوٹی کشتیوں کے ذریعے آسٹریلیا اسمگل کر دیتے ہیں۔ چھوٹی کشتیوں کے ذریعے آسٹریلیا اسمگل کرنے کا سفر انتہائی اذیت ناک ہوتا ہے، اس دوران بیشتر نوجوان یا تو سمندر کی خونی لہروں کا شکار ہوجاتے ہیں یا پھر آسٹریلیا کے ساحل پر گرفتار کرلئے جاتے ہیں اور بہت کم نوجوان اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNDC کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی اسمگلنگ نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے
لیا ہے اور یہ وبا کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ پاکستان میں اس گھناؤنے دھندے سے ایک ہزار سے زائد کریمنل نیٹ ورک منسلک ہیں جن کا یہ غیر قانونی کاروبار ایک ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ جرائم پیشہ انسانی اسمگلرز سرعام سادہ لوح اور معصوم نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسا کر ان سے بھاری رقوم بٹوررہے ہیں لیکن حکومت ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے جبکہ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے متعلقہ ادارے بھی کرپشن کی وجہ سے ان جرائم پیشہ افراد پر ہاتھ ڈالنے سے قاصر ہیں۔ انسانی اسمگلنگ سے جہاں ایک طرف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے، وہاں دوسری طرف غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے اکثر پاکستانی نوجوان اپنی قیمتی جان گنوا رہے ہیں۔
پاسپورٹ، پروانہ راہداری یا جوازالسفر قومی حکومت کی جانب سے جاری کی جانیوالی ایک دستاویز ہے جو بین الاقوامی سفر کیلئے اپنے حامل کی شناخت اور قومیت کی تصدیق کرتی ہے۔ عصر حاضر میں پاسپورٹ کے بغیر بین الاقوامی سفر کرنا ممکن نہیں اور جس ملک کے پاسپورٹ پر جتنے زیادہ ممالک میں بغیر ویزہ سفر یا ویزہ آن ارائیول کی سہولت میسر ہے، اسے اتنا ہی قیمتی یا طاقتور خیال کیا جاتا ہے۔ ہینلے پاسپورٹ انڈیکس کی حالیہ درجہ بندی میں پاکستانی پاسپورٹ بدستور کمزور ترین پاسپورٹ ہے۔ کسی بھی ملک کی پاسپورٹ جیسی اہم دستاویز دراصل اس ملک کی معاشی، اقتصادی اورسماجی ترقی و نمو کے پیش نظر طاقت حاصل کرتی ہے اور المیہ یہ ہے کہ پاکستان عرصہ دراز سے اپنے حالات کو مثالی تو درکنار دنیا کیلئے قابلِ قبول تک نہیں بنا سکا۔ ہم آج تک اس المناک حقیقت پر کوئی پالیسی نہ بنا سکے کہ آخر پاکستانی نوجوان غیر قانونی طریقوں سے مغربی ممالک تک پہنچنے کی سعی میں بسا اوقات زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مانا کہ حالات آن واحد میں حل نہ ہونگے لیکن اس ضمن میں باقاعدہ حکمت عملی طے کر کے عملی اقدامات تو شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں