لسانیت کی آگ
شیئر کریں
گزشتہ ہفتے حیدرآباد کے ایک ہوٹل میں رات گئے کسی معمولی سی بات پر ہوٹل ملازمین اور چند گاھکوں کے درمیان تکرار ہوئی جو بڑھتے بڑھتے ہاتھا پائی تک جاپہنچی ۔جس کے نتیجہ میں ایک34 سالہ نوجوان کی ہلاکت کا الم ناک حادثہ رونما ہوگیا۔ چونکہ قاتل اور مقتول دو، الگ الگ زبان بولنے والے اور علحیدہ علحیدہ قوم سے تعلق رکھتے تھے ۔ لہٰذا وہاں موجود بعض شر پسند عناصر کی جانب سے فوری طور پر ذاتی جھگڑے پر ’’لسانی رنگ ‘‘ کا ملمع چڑھا دیا گیا اوریوں دیکھتے ہی دیکھتے دونوں طرف سے قوم پرست ایک دوسرے کو اپنی اپنی زبان میں ’’سبق ‘‘ سکھانے کے لیے خم ٹھونک کر میدان عمل میں اُتر آئے۔ جس کے بعد صوبہ سندھ کے کئی شہروں میں صرف کاروبار ہی بند نہیں کرائے گئے بلکہ جگہ جگہ رکاؤٹیں کھڑی کرکے اہم ترین شاہراؤں کو بھی آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا۔ جبکہ سوشل میڈیا ’’سندھ ہمارا ہے‘‘۔ ’’سارے پختون متحد ہوجاؤ‘‘ اور ’’سندھو دیش اَب ضروری ہے‘‘۔جیسے لسانیت آمیز نعروں سے گونجنے لگا۔
یاد رہے کہ مذکورہ حادثہ میں قتل ہونے والے مقتول بلال کاکا، کا تعلق حیدرآباد کے قریبی علاقے نیو سعید آباد سے تھا۔نویں جماعت میں اُس نے اسکول چھوڑ دیا تھا اور ایک نجی کمپنی میں سکیورٹی سپروائیزر کے طور پر کام کرتاتھا،وہ شادی شدہ تھا۔اس کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ سندھ پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول بلال کاکا کے خلاف12 مقدمات درج تھے ،جن میںغیر قانونی اسلحہ،ارادہ قتل اوردہشت گردی کی سنگین ترین دفعات بھی شامل ہیں اور مقتول کا تعلق سندھی قوم پرست جماعت جئے سندھ قومی محاذ سے تھا۔لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ مقتول کے سیاسی نظریات اور اُس کی سیاسی وابستگی کا قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ مقتول اپنے دوستوں کے ہمراہ ہوٹل میں صرف کھانا کھانے کے لیے گیا تھا جبکہ اُس کا مبینہ قاتل بلال کاکا، کی خدمت پر مامور تھا۔ کھانے کے معیار اور بل کی ادائیگی جیسی چھوٹی سی بات پر شروع ہونے والا جھگڑا ، بالآخر بلال کاکا ،کے قتل پر جاکر منتج ہوا۔
اُصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مقتول کی قوم سے تعلق رکھنے والے افراد صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے سب سے پہلے معاملہ کی اصل تہہ تک پہنچتے اور بعدازاں قاتل کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے قانونی راستہ اختیار کرتے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل کرنے کے لیے بعض عاقبت نااندیش لوگوں نے ذاتی مخاصمت کو ’’لسانی جھگڑے‘‘ کا رنگ دے دیا ۔جس کے نتیجے میں صوبہ سندھ میں لسانی فسادات کی بھیانک آگ بھڑک اُٹھی ۔ نیز صورت حال اِس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ قاتل اور مقتو ل دونوں ہی اپنی اپنی قوم کے نزدیک ہیرو بن چکے ہیں ۔جبکہ اَب کسی کو یہ جاننے میں خاک برابر بھی دلچسپی نہیں ہے کہ آخر ہوٹل میں ہونے والے جھگڑے کا آغاز کرنے میں اصل قصور کس فریق کا تھا؟۔
واضح رہے کہ صوبہ سندھ لسانی فسادات کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے اورصوبہ کی عوام نے لسانیت کے عفریت کے ہاتھوں بڑے دردناک عذاب جھیلے ہیں ۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ سندھ کی تمام سیاسی و لسانی جماعتوں نے غیر متوقع طور پر ابھی تک مذکورہ واقعہ پر اپنا ردعمل دینے میں سخت احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔مثال کے طور پر پختون رہنما اور عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سید اور جئے سندھ قومی محاذ کے چیئرمین صنعان خان قریشی نے حیدرآباد میں ہونے والے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اپنے اپنے لوگوں سے پُرامن رہنے اپیل کی ہے۔ جبکہ لسانیت کی بھڑکتی ہوئی آگ کو بجھانے کے لئے وزیراعلیٰ سندھ، سید مراد علی شاہ نے بھی خوب فعالیت دکھائی ہے ۔علاوہ ازیں قانون نافذ کرنے والے ریاستی ادارے بھی بروقت حرکت میں آئے ہیں ، جس کی بعد حالات رفتہ رفتہ بہتری کی جانب کچھ مائل ہوئے تو ہیں ۔تاہم صوبہ سے تعصب کی مسموم فضا کو مکمل طور پر صاف کرنے کے لیے یہ اقدامات ابھی بھی ناکافی ہیں اور سندھ حکومت کو مزید دیرپا اور بڑے انتظامی فیصلے کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
خاص طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے لسانیت کی حالیہ لہر سے جلدازجلد نمٹنا ایک بڑا چیلنج اِس لیے بھی ہے کہ اگلے ہفتہ سے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے والا ہے ۔اگرچہ بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل طورپر پیپلزپارٹی کے نام رہا تھا ۔لیکن کیا بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی پیپلزپارٹی سابقہ کارکردگی کا مظاہرہ کرسکے گی ؟۔یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔کیونکہ آئندہ بلدیاتی انتخابات کا میدان شہری سندھ یعنی کراچی اور حیدرآباد میں سجنے جارہا ہے اور یہاں پیپلزپارٹی کو ہر یونین کونسل کی ایک ایک نشست پر پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سے سخت مقابلہ درپیش ہوگا۔چونکہ ایم کیوایم پاکستان ،اس وقت پیپلزپارٹی کی سیاسی حلیف ہے ،اس لیے غالب امکان یہ ہی نظر آتا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے کراچی اور حیدرآباد میں پی ٹی آئی کا مقابلہ کریں گی۔
بہرکیف پاکستان پیپلزپارٹی ،کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات میں صرف اُس وقت ہی اچھی کارکردگی دکھاسکے گی جب اُسے ہر قومیت سے کی جانب سے سیاسی حمایت اور ووٹ ملیں گے اور ہر قومیت کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے پیپلزپارٹی کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ صوبہ کی واحد ایسی سیاسی جماعت ہے ، جس میں ہر مکتبہ فکر اور نظریہ کے حامل شخص کو بلا کسی تفریق ِزبان و ملت برابری کی حیثیت حاصل ہوسکتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پیپلزپارٹی نے اپنے ماتھے سے تعصب کے داغ مٹانے کے لیے بھرپور عملی کاوشیںکی بھی ہیں ۔جس کا سب سے بڑا ثبوت سندھ میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں شہری سندھ یعنی نواب شاہ،سکھر اور میرپورخاص سے پیپلزپارٹی کو حاصل ہونے والی فقید المثال اور تاریخ ساز کامیابی ہے ۔اگر سندھ حکومت لسانیت کی حالیہ لہر سے نمٹنے میں کامیاب ہوجاتی ہے توپیپلزپارٹی کو سیاسی طور پر بھرپور فوائد حاصل ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ شہری سندھ میںپیپلزپارٹی پہلی بار ایم کیو ایم کے متبادل کے ایک بڑی سیاسی قوت کے طورپر سامنے آجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔