جماعت اسلامی کا واٹر بورڈ ہیڈ آفس پر دھرنا‘ شاہراہ فیصل بلاک کردی
شیئر کریں
شہر میں میں سخت گرمی میں پانی کے بڑھتے ہوئے بحران ، پانی کی فراہمی میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی عدم دلچسپی ، واٹر بورڈ کی نا اہلی و ناقص کارکردگی ، پانی کی غیر منصفانہ تقسیم اور ٹینکرز سے مہنگے داموں فروخت کے خلاف جماعت اسلامی کے تحت جمعہ کوواٹر بورڈ ہیڈ آفس شاہراہ فیصل پر احتجاجی دھرنا دیاگیا ۔ شرکاء نے شدید احتجاج اور پُر جوش نعرے لگاتے ہوئے شاہراہ فیصل بلاک کر دی ۔ دھرنے میں شہر بھر سے خواتین ، بچوں اور بزرگوں سمیت عوام کی بڑی تعداد شرکت کی ۔ دھر نے میں تمام اضلاع سے قافلے امراء اضلاع اور دیگر ذمہ داران کی قیادت میں شاہراہ فیصل پہنچے۔ پانی کی قلت سے غیر معمولی متاثرہ علاقوں اور جن علاقوں میں کئی کئی مہینوں سے پانی نہیں آیاہے وہاں کے مکینوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی اور شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ۔ دھرنا رات گئے تک جاری رہا ۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے دھرنے سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ K-4منصوبہ فی الفور مکمل کیا جائے اور کراچی کے عوام کو کہانی نہیں پانی چاہیئے ۔ جو حکومت عوام کو پانی نہیں دے سکے اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ شہر کے اندر واٹر بورڈ اور ٹینکرز مافیا کی ملی بھگت ختم کی جائے ۔ عوام کو مہنگے داموں پانی کی فروخت سے نجات دلائی جائے ۔ ہم حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ کراچی ٹرانسفارمیشن کمیٹی اور اس کا پلان کہاں ہے ؟اس کمیٹی میں پی ٹی آئی ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم شامل تھیں اب نواز لیگ کی وفاقی حکومت ہے ۔ عوام کو بتایا جائے کہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے کتنے فیصد حصے پر عمل کیا گیا ۔ جماعت اسلامی وفاقی و صوبائی حکومتوں سے اہل کراچی کا حق لے کر رہے گی ۔ 29مئی کو مزار قائد سے ایک تاریخی ’’حقوق کراچی کارواں ‘‘نکالا جائے گا ۔کراچی کے لیے پانی کاآخری منصوبہ K-3۔2005میں نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ نے مکمل کیا ۔ جس نے کراچی کو مزید 100ملین گیلن یومیہ پانی ملا ، جب سے اب تک 17برس میں تمام جماعتوں اور کراچی کے عوام سے مینڈیٹ لینے والوں نے ایک قطرہ پانی کا بھی اضافہ نہیں کیا ، K-4منصوبہ التواء کا شکار ہے ، یہ کراچی کے عوام کے ساتھ کیسا مذاق ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے 650ملین گیلن یومیہ منصوبے کا اعلان کیا اور اسلام آباد جا کر اسے 260 ملین گیلن یومیہ کردیا ۔ کراچی کا المیہ یہ ہے کہ کراچی ملک کو سالانہ 2700ارب روپے صرف انکم ٹیکس دیتا ہے ، پاکستان کی 54فیصد ایکسپورٹ کراچی سے ہوتی ہے ، 67فیصد ریونیو یہاں سے ملتا ہے ، صوبہ سندھ کے 96فیصد بجٹ کا انحصار کراچی پر ہے لیکن صوبائی اور وفاقی حکومت اور ان میں شامل جماعتیں کراچی کو کچھ نہیں دیتیں ۔ کراچی سے مینڈیٹ لینے والی جماعتوں نے کراچی کی آبادی آدھی کر دی ، یہ ہمارے وسائل اور نمائندگی پر ڈاکاہے ، ٹرانسپورٹ کا نظام عملاً ہے ہی نہیں ، ہماری خواتین اور بچے چنگ چی رکشوں میں دھکے کھا تے ہیں ، شہر کچرے کا ڈھیر ہے ، انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے کراچی میں پانی کا کوئی نیا منصوبہ نہیں بنایا گیا بلکہ جو منصوبہ K-4بنایا گیا تھا وہ بھی تاحال نا مکمل ہے ۔ کراچی کے لیے تقریباً 1620ملین گیلن پانی کی یومیہ کی ضرورت ہے اور جو نظام شہر میں موجود ہے وہ 1550ملین گیلن پانی سے زیادہ نہیں ۔ وزیر اعلیٰ خود کہتے ہیں کہ 174ملین گیلن پانی رسائو کے باعث ضائع ہو جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ 30سے40فیصد پانی ضائع ہورہا ہے اور پانی کی لائنوں سے لیکج حقیقت میں وہ ہے جو حکومت ، واٹر بورڈ کے عملے کی ملی بھگت سے چوری کرلیا جاتا ہے اور شہریوں کو نہیں ملتا ۔