سہیل انور سیال ۔ کس خوبی کے باعث وزارت حاصل کی؟
شیئر کریں
سہیل انور پر نوازشات ۔۔۔۔کیا بھایا کہ سب پایا!!!
محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کی بنیاد ہی بدل گئی۔ اب قربانی دینا‘ پارٹی سے وفادار رہنا‘ پارٹی کے لیے دن رات محنت کرنا کوئی بڑی بات نہیں سمجھی جاتی، بلکہ جو خوشامد کرے‘ کرپشن کرے‘ جی حضوری کرے، وہ صف او ل کا حق ٹھہرتا ہے٭ سہیل انور سیال وزیر داخلہ بنے سب سے پہلے ان ہی بابو سرور سیال کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں۔ ان کے گھر پر حملہ کرایا جس کے نتیجہ میں بابو سرور سیال کا بھانجا قتل ہوا۔ لیکن بابو سرور سیال پھر بھی ان کے سامنے نہ جھک سکے اور انہوں نے دو درخواستیں نیب اور رینجرز کے علاوہ حساس اداروں کو دی ہیں ۔
الیاس احمد
پاکستان کی سیاست بھی عجیب و غریب ہے، یہاں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون زیادہ قابل ہے؟ کون زیادہ تعلیم یافتہ ہے؟ کون زیادہ باشعور ہے؟ کس کا ماضی اور کردار صاف ستھرا ہے؟ یہاں صرف خوشامد اور جی حضوری ہی چلتی ہے۔ سندھ کی سیاست میں 2014 ءمیں ایک نئے نام کا اضافہ ہوا، یہ اضافہ لاڑکانہ سے ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے والے سہیل انور سیال کی شکل میں سامنے آیا۔ سہیل انور سیال ضلع لاڑکانہ کی تحصیل ڈوکری سے تعلق رکھتے ہیں ،ان کے دادا کا نام محمد خان سیال تھا۔ وہ سیشن کورٹ لاڑکانہ میں کلرک تھے۔ سہیل انور سیال کے والد کا نام محمد انور سیال تھا۔ وہ محکمہ آبپاشی میں سب انجینئر تھے۔ سہیل انور سیال نے انجینئرنگ کی ڈگری لینے کے بعد ایل ایل بی کی بھی ڈگری حاصل کی۔ سہیل انور سیال کے دادا اور والد نے کبھی الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ 2005 ءمیں سہیل انور سیال یونین کونسل وڈامہر میں ناظم کے الیکشن میں مسلم لیگی کارکن سکندر علی شاہ کے ہاتھوں شکست کھاگئے اور سکندر علی شاہ یو سی وڈا مہر کے ناظم بن گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کی بنیاد ہی تبدیل کردی گئی۔ اب قربانی دینا‘ پارٹی سے وفادار رہنا‘ پارٹی کے لیے دن رات محنت کرنا کوئی بڑی بات نہیں سمجھی جاتی، بلکہ جو خوشامد کرے‘ کرپشن کرے‘ جی حضوری کرے، وہ صف اول میں آجاتا ہے۔ محترمہ بے نظیر کے بعد فریال ٹالپر نے نﺅں دیرو ہاﺅس سنبھالا تو خوشامدیوں کا ایک ٹولہ اُمڈ آیا ،جس میں سہیل انور سیال بھی شامل تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سہیل انور سیال پارٹی کی قیادت کا آنکھ کا تارا بن گئے۔ 2013 ءکے عام الیکشن میں حاجی الطاف حسین انڑ کو پہلے پی پی کا ٹکٹ دیا گیا ،انتخابی نشان الاٹ ہونے کے بعد فریال ٹالپر اور دیگر الطاف حسین انڑ سے ناراض ہوگئے اور سہیل انور سیال کو آزاد امیدوار کھڑا کیا گیا اور اس کی مہم بھی فریال ٹالپر نے چلائی، لیکن سہیل انور سیال ہار گئے اور حاجی الطاف حسین انڑ کامیاب ہوگئے۔ 2014 ءمیں حاجی الطاف حسین انڑ انتقال کرگئے۔ پھر تو پارٹی اور صوبائی مشینری ایک ہوگئیں اور سہیل انور سیال کو کامیاب کرایا گیا۔ انہیں وزیر داخلہ بھی بنایا گیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ لاڑکانہ میں نیب‘ حساس اداروں اور رینجرز نے ایک ٹھیکیدار اسد کھرل کو گرفتار کیا تو سہیل انور سیال کے حکم پر ان کے بھائی طارق سیال نے مسلح افراد کے ساتھ مل کر زبردستی اسد کھرل کو چھڑالیا۔ یوں بڑا سنگین معاملہ ہوگیا اور حکومت سندھ کے نیب‘ رینجرز اور حساس اداروں سے تعلقات بھی کشیدہ ہوگئے اور جب مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بنے تو سہیل انور سیال کو دوبارہ وزارت کی کلیئرنس نہیں دی جارہی تھی۔ تب پی پی کی قیادت نے ضد کرلی بالآخر ان کو وزیر بننے کی کلیئرنس تو ملی، لیکن وزیر داخلہ بنانے کی قطعی مخالفت کی گئی۔ یوں اتنے بڑے سنگین جرم کے باوجود وہ دوبارہ وزارت لینے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ صرف اس وجہ سے کہ وہ خوشامد‘ جی حضوری‘ چاپلوسی‘ نوکری چاکری میں تمام حدود پھلانگ چکے تھے۔ وہ جب وزیر تھے تو ایک مرتبہ فریال ٹالپر گھوٹکی گئیں، وہاں ان کو سابق وزیر اعلیٰ علی محمد مہر کی دعوت پر جانا تھا، جیسے ہی محترمہ فریال ٹالپر ہیلی کاپٹر سے اتریں تو ان کا پرس سہیل انور سیال نے اٹھایا اور پھر ذاتی ملازم کی طرح کبھی فریال ٹالپر کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولتے تو کبھی ان کے جوتے سیدھے کرتے‘ کبھی ان کو پانی پیش کرتے‘ کبھی ان کے لیے کھانے کے لیے طعام پیش کرتے۔ یوں انہوں نے خوشامد کی حد کردی اور اسی عادت کی بنا پر وہ فریال ٹالپر کی گڈ بک میں شامل ہوگئے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، بلکہ حال ہی میں سابق صدر آصف علی زرداری جب بلاول ہاﺅس سے نکلے تو سہیل انور سیال ایک نچلی سطح کے نوکر کی طرح پاﺅں چھو کر آصف زرداری سے ملے، ان کی اس عادت کو آصف زرداری نے بڑے غرورو تکبر میں پسند بھی کیا۔ سہیل انور سیال کی یہ تصاویر سوشل میڈیا اور اخبارات کی زینت بن چکی ہیں۔ وہ ضمنی الیکشن میں جس امیدوار کو اپنے حق میں دستبردار کرانے کے لیے فریال ٹالپر کو ان کے گھر لے گیے وہ مسلم لیگ (ق) سندھ کے جنرل سیکریٹری بابو غلام سرور سیال ہیں، لیکن جیسے ہی وزیر داخلہ بنے سب سے پہلے ان ہی بابو سرور سیال کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں۔ پولیس اور اپنے حامیوں کے ذریعہ ان کے گھر پر حملہ کرایا جس کے نتیجہ میں بابو سرور سیال کا بھانجا قتل ہوا۔ لیکن بابو سرور سیال پھر بھی ان کے سامنے نہ جھک سکے اور انہوں نے دو درخواستیں نیب اور رینجرز کے علاوہ حساس اداروں کو دی ہیں ۔ایک یہ کہ اسد کھرل کے ذریعہ لاڑکانہ میں اربوں روپے کے ٹھیکے لیے اور رقوم ہڑپ کیں اور دوسرا یہ کہ انہوں نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سید سجاد علی شاہ پر دباﺅ ڈالنے کے لیے ان کے بیٹے اویس شاہ کو اغوا کرایا بعد میں اویس شاہ کو خیبر پختونخوا کے ضلع کرک سے بازیاب کرایا مگر انہوں نے اپنے ابتدائی بیان میں یہ ضرور کہا کہ اغوا کے بعد ان کو سکھر کے قریب رکھا گیا۔ اب دونوں درخواستوں پر اعلیٰ سطح کی تحقیقات ہورہی ہے لیکن چونکہ وہ خوشامد‘ چاپلوسی میں حد سے بڑھ گئے ہیں اس لیے فی الحال پارٹی قیادت ان کے دفاع میں آگے آچکی ہے۔