میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
یہود کی بری خصلتیں اور عادات

یہود کی بری خصلتیں اور عادات

جرات ڈیسک
جمعه, ۲۰ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

مولانا سلیم اللہ خان

َلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ أُوْتُواْ نَصِیْباً مِّنَ الْکِتَابِ ……ان آیات میں یہود کی عمومی خصلتیں بیان کی جارہی ہیں، یہ عادات اچانک پیدا نہیں ہوئیں، بلکہ اس کے پیچھے نسلی تعصب، مذہبی انتہا پسندی، بے جا گھمنڈ، جاہ و مال کی محبت، مال و متاع کی لا متناہی حرص، انبیا و رسل کی تکذیب وگستاخی کی پوری ایک تاریخ ہے، جس سے گزر کر انسانیت کا یہ ناسور یہودیت کی شکل میں ظہور پذیر ہوا ہے۔
انہیں (أُوْتُواْ نَصِیْباً مِّنَ الْکِتَابِ) کا خطاب دیا گیا ہے، یعنی ان کے پاس حقیقی تورات محفوظ نہیں ہے، بلکہ حقیقی تعلیمات کا کچھ حصہ ان کے پاس محفوظ ہے۔(یَشْتَرُونَ الضَّلاَلَۃَ) یہود بہ حیثیت قوم حق کے مقابلے میں ہمیشہ باطل کے رفیق بنے رہتے ہیں، ان کی فکر، ان کا علم، ان کا قومی مزاج ہمیشہ کفر کے پلڑے کو جھکانے میں مدد گار رہتا ہے، بلکہ حق کو مغلوب کرنے کے لیے انہوں نے اپنی مذہبی روایات کا بھی پاس نہیں رکھا، اپنے مذہبی اصولوں کی روشنی میں کفرو ارتداد بھی اختیار کر لیا، صرف اس لیے کہ دین حق کے لیے راستہ بند کیا جاسکے۔
(وَیُرِیْدُونَ أَن تَضِلُّواْ السَّبِیْل) یہ قوم ہدایت کی توفیق سے بھی محروم ہو چکی ہے، انہیں اپنے احوال و انجام کے متعلق ذرہ بھی فکر نہیں رہی، بلکہ انہیں ہر دم یہی فکر ستائے جا رہی ہے کہ اہل ایمان کو کس طرح راہ راست سے ہٹایا جائے۔(وَاللّہُ أَعْلَمُ بِأَعْدَاءِکُمْ) یہ من حیث القوم اہلِ ایمان کی دشمن ہے اور ان کی دشمنی کے آگے اللہ تعالیٰ کی نصرت و ولایت کے ذریعے بندباندھا جا سکتا ہے۔(إِّنَّ الَّذِیْنَ ہَادُواْ) آیت کریمہ میں منجنس کے لیے ہے، تبعیض کے لیے نہیں ہے، یعنی یہودی قوم اس لیے جری ہے کہ یہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے اللہ کی کتاب تورات میں بھی ردوبدل کر ڈالتی ہے، یہ تحریف اور ردوبدل لفظی نوعیت کی بھی ہوتی ہے اور معنوی نوعیت کی بھی، مثلاً بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد پر کوئی بشارت مذکور ہوتی ہے تو اس میں لفظوں کے ذریعے کوئی ہیر پھیر کر کے دوسرا معنی پیدا کر دیتے ہیں، تاکہ یہ بشارت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر صادق نہ آئے یا بعض اوقات اس بشارت کے الفاظ میں ردوبدل نہیں کرتے، مگر باصرار اس کا مفہوم کسی دیگر فرد کے لیے ثابت کرتے ہیں، یہ سب جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔
مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اظہار الحق اور ازالۃ الأوہام میں ان مباحث کو تفصیل سے ذکر فرمایا ہے، اصحابِ ذوق وہاں رجوع کریں۔
(وَیَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَیْْنَا):انبیاء علیہم السلام کی گستاخی ان کی گھٹی میں پڑی ہے، اپنی عادت بد کی وجہ سے خاتم الانبیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی سے باز نہ آئے، مجلسِ نبوی میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہر قول پر زبان سے کہتے سمعناہم نے مان لیا، پھرآہستہ سے کہہ دیتے وعصیناہم تو نہیں مانتے، کبھی کہتے آپ فرمایئے، ہمیں آپ کی ہر بات بسروچشم قبول ہے، پھر آہستگی کے ساتھ یہ بھی کہہ دیتے (وَاسْمَعْ غَیْْرَ مُسْمَعٍ)آپ کی بات پر کان نہ دھرے جائیں، یعنی آپ کی گفت گو کسی اہمیت کی حامل نہ ہو اور (رَاعِنَا) (جس کی تفصیل سورہ بقرہ میں گزر چکی ہے) ذومعنی جملوں کے ذریعے آپ کو مخاطب کر کے قصداً بے توقیری کا ماحول پیدا کرتے اور ہیر پھیر کے ذریعے مقام نبوت میں رخنہ پیدا کر کے اس میں طعنہ زنی کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے، تا کہ مومنوں کے دل سے اس کی عظمت کا دبدبہ ختم ہو جائے، آج تک یہودی اس مشن میں مصروف ہیں، تحقیق کے نام پر تشکیک کے کانٹے بو کر امت کے جوانوں میں غیرت و حمیت کا جذبہ سرد کیا جا رہا ہے۔
(وَلَکِن لَّعَنَہُمُ اللّہُ)یہودی قوم کفر عنادی کی بناپر لعنت الٰہی کی سزاوار بن چکی ہے، لعنت رحمت ِخداوندی سے دوری کو کہتے ہیں، یہ اس دوری کا نتیجہ ہے کہ ان میں احساس ہدایت اور طلب ہدایت کی کوئی رمق باقی نہیں رہی، یہودیت میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو رحمت ِ خداوندی پا کر ایمان کی دولت سے مالا مال ہو جاتے ہیں۔ان کی سخت مزاجی اور قساوت قلبی کا یہ عالم ہے کہ انہیں اگر اس عذاب سے بھی ڈرایا جائے جو انہی کی قوم کے کچھ افراد پر نازل ہوا تھا، جس کے یہ خود شاہد ہیں، اس کے باوجود ان کے دل و دماغ میں ارتعاش کی کوئی ایسی لہر پیدا نہیں ہوتی جو انہیں ہدایت کے ساحل سے لگا سکے۔آیتِ کریمہ میں دو عذابوں کی طرف اشارہ ہے۔
چہرے کو سپاٹ بنا دینا، نقش سے محروم کر کے الٹے پاؤں چلا دینا، جس طرح انسان آگے کی طرف فطری طور پر چلتا ہے اسی طرح اس چال کو غیر فطری بنادینا۔
دوسرا عذاب اصحاب سبت والا، جس کا تفصیلی قصہ سورۃ بقرہ میں گزر چکا ہے، جنہوں نے ہفتہ کے دن باطل حیلے سے مچھلیوں کا شکار کر کے عذاب الٰہی کو دعوت دی، پھر نتیجے میں بندروخنزیر بنا دیے گئے۔
شرک تمام آسمانی مذاہب میں حرام رہا ہے، ہر نبی اپنی امت کو شرک سے ڈراتا اور اس سے بچنے کی تاکید کرتا رہا، یہود کی مقدس کتاب خروج میں اللہ تعالیٰ کا فرمان مذکور ہے کہ:
میرے حضور تو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔
تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا۔
تو ان کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ ہی ان کی عبادت کرنا۔(خروج:20/3،4)
ان واضح احکام کے باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں اور حضرت ہارون علیہ السلام کی موجودگی میں یہود کے ایک گروہ نے بچھڑے کو معبود بنا لیا، یہود من حیث القوم کبھی توحید کے معاملے میں سنجیدہ نہیں رہے، تاریخ کے کئی مواقع پر انہوں نے اعلانیہ اور اجتماعی بت پرستی کا ارتکاب کیا، یہودی سلطنت کے دسیوں بادشاہوں میں سے صرف چھے بادشاہ توحید پر قائم رہے، ان کے علاوہ سارے بت پرست واقع ہوئے، ان کے نزدیک مغفرت کے لیے محض یعقوب کی نسل ہونا کافی ہے، کفروشرک کا ارتکاب مغفرت کے لیے مانع نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اس باطل نظریے کی تردید کے لیے فرمایا:(إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاء ُ) مشرک کے لیے مغفرت کی کوئی صورت نہیں، کفرو شرک کے علاوہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دے گا۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں