اپنے رشتہ داروں کو پرکشش عہدوں سے ہٹائیں!
شیئر کریں
شہباز شریف نے جب سے حکومت سنبھالی ہے، تب سے وہ غیرضروری اخراجات کنٹرول کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف بھی اس حوالے سے اپنی تجاویز پیش کر چکا ہے۔ شہباز شریف کی ہدایت پر گزشتہ روز وزارت خزانہ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے، جس کے مطابق سرکاری اخراجات کنٹرول کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے نئی گاڑیوں و دیگر سازو سامان کی خریداری کے علاوہ سرکاری خرچے پر بیرون ملک علاج اور غیر ضروری دوروں پر پابندی عائد کردی ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق یہ پابندی حکومت کی کفایت شعاری کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے لگائی گئی ہے تاہم اس پابندی کا اطلاق ایمبولینسز، فائرفائٹنگ گاڑیوں، اسکول بسوں، سالڈ ویسٹ گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی خریداری پر نہیں ہو گا، اسپتالوں، لیبارٹریز، زراعت، کان کنی اور تعلیمی اداروں میں استعمال ہونے والا ساز و سامان بھی اس پابندی سے مستثنیٰ ہو گا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق نئی اسامیوں کے اجرا اور عارضی پوسٹوں پر بھی پابندی ہو گی، 3سال سے خالی آسامیاں ختم کر دی جائیں گی، تاہم پی ایس ڈی پی کے تحت جاری منصوبوں کے لیے سامان کی خریداری اور عارضی اسامیوں پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہو گا۔وفاقی وزارت خزانہ کے نوٹیفکیشن میں جو کچھ بتایا گیا ہے، اسے درست سمت میں اٹھایا گیا ایک اچھا قدم قرار دیاجاسکتا ہے لیکن صرف ان فیصلوں سے بہت زیادہ بچت ممکن نہیں ہے اس طرح کے فیصلوں کے ذریعے صرف عوام کو یہ تسلی دی جاسکتی ہے کہ حکومت اخراجات میں کٹوتی کی سنجیدگی سے کوشش کررہی ہے جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے ابھی اس حوالے سے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی حکومت جب مختلف قسم کی پابندیاں عائد کرتی ہے تو اس میں بہت سے چونکہ چنانچہ اور اگرمگر کی گنجائش چھوڑ دی جاتی ہے اور پاکستان میں سرکاری خزانے کا بے جا استعمال ان اگرمگر اور چونکہ چنانچہ کی وجہ سے جاری رہتا ہے۔اصل سوال یہ ہے کہ وزارت خزانہ کے نوٹیفکیشن میں جن جن شعبوں کو استثنیٰ دیا گیا ہے، کیا ان کی ڈیمانڈز اور ضرورت حقائق پر مبنی ہے۔ اس کی پڑتال کیسے کی جائے گی اور اگر کسی چیز کی درآمد کی اجازت ملتی ہے اور وہ بیرون ملک سے درآمد کر لی جاتی ہے لیکن عام طورپر ہوتایہ ہے کہ حکومت میں موجود شیطانی ذہن رکھنے والے اس طرح کے استثنیٰ کی آڑ میں ضرورت سے کہیں زیادہ چیزیں درآمد کرلیتے ہیں اور پھر سرکاری خزانے کو نقصان سے بچانے کے بہانے اس زاید درآمد کی گئی اشیا کو فروخت کردیا جاتاہے اس طرح درآمدات پر لگائی گئی پابندیوں کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں، پھر جو چیز درآمد کی جائے گی اس کے بارے اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس میں کوئی ہیرپھیر نہیں کیا جائے گا۔جہاں تک حکومت کے اخراجات میں کمی کا معاملہ ہے تو اس ضمن میں یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کو جہاں غیرضروری اخراجات کم کرنے ہیں، وہاں ایسے محکموں کا بھی جائزہ لینا ہے، جو قانونی وجود تو رکھتے ہیں لیکن وہ غیرفعال ہیں یا ان کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر بڑے شہروں کے میونسپل اداروں کے اسٹرکچرل اور انتظامی نیٹ ورک کی فعالیت کو چیک کرنا اور یہ دیکھنا کہ بلدیاتی اداروں کے ملازمین کام بھی کر رہے ہیں یا صرف لرسی توڑنے کی تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بہت سی اتھارٹیز قائم کر کے بلدیات کے مختلف کام ان کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ جیسے سالڈ ویسٹ، گلیوں اور شاہراہوں کی صفائی کا کام، پارکنگز کا نظام، باغات اور شجرکاری وغیرہ کا کام وغیرہ کارپوریشن سے الگ کر کے اتھارٹیز کے سپرد کر دیا گیا ہے لیکن بلدیات میں موجود ان کاموں کیلئے قائم شعبے بدستور موجود ہیں اور ان کے ملازمین باقاعدگی کے ساتھ تنخواہوں کے ساتھ وہ مراعات بھی لے رہے ہیں جن کی کٹوتی کیلئے پورے ملک کے عوام یک زبان ہیں۔کئی ایسی صوبائی اور وفاقی وزارتیں ہیں جو محض بیوروکریٹس کو کھپانے کے لیے بنائی گئی ہیں، ایسی وزارتوں میں سیاسی بھرتیاں کی گئی ہیں اور ان بھرتیوں کاسلسلہ بلاتعطل جاری ہے۔ سیاسی حکومتیں مختلف ایم این ایز یا ایم پی ایز کے لوگوں کو کھپانے کے لیے ایک وزارت کو کئی وزارتوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر پنجاب میں ایلیمنٹری ہیلتھ کے لیے ایک وزیر ہے جب کہ بڑے اسپتالوں کی نگرانی اور دیگر کاموں کے لیے ایک الگ وزارت صحت ہے۔یہی کچھ وزارت تعلیم میں ہو رہا ہے۔ پنجاب میں محکمہ ٹرانسپورٹ موجود ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سرکاری شعبے میں ٹرانسپورٹس موجود ہی نہیں ہیں۔ اب محکمہ ٹرانسپورٹ کے افسران اور ملازمین کیا کام کرتے ہیں، کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ اسی طرح دارالحکومت اسلام آباد میں بلدیاتی ادارے بھی موجود ہیں لیکن وہاں زمین کی خرید وفروخت اور رہائشی اسکیمیں سی ڈی اے کے پاس ہیں۔ سی ڈی اے کسی وزارت ہاؤسنگ کے تحت کام نہیں کرتی بلکہ وزارت داخلہ کے زیرانتظام ہے۔اسی طرح محکمہ زراعت اور خوراک ایک ہی وزارت ہوا کرتی تھی۔ اب یہ بھی الگ الگ ہے۔ ظاہر ہے جتنے محکمے ہوں گے، اتنے ہی زیادہ افسروں کی بھی ضرورت ہو گی اور ماتحتوں کی بھی۔ محکمہ آثار قدیمہ کو ہی لے لیں۔ محکمہ آثار قدیمہ کی کارکردگی کا اندازہ لگانا ہو تو تاریخی مقامات کا دورہ کر کے لگا یا جاسکتا ہے۔ایک وزارت کا نام وزارت بہبود آبادی بھی ہے۔ اب اس وزارت کا کام سوائے بروشرز اور کتابچے چھاپنے کے اور کچھ نہیں ہے۔ اس کے لیے بھی ایک وزیر رکھا جاتا ہے، سرکاری افسر رکھے جاتے ہیں اور ان افسروں کے ماتحت سرکاری ملازم رکھ لیے جاتے ہیں۔ اسی طرح صوبائی سطح پر ایک محکمہ لائیو اسٹاک ہے۔ یہ محکمہ بھی زیادہ تر کتابچے چھپوانے کا کام کرتا ہے۔ محکمہ جنگلات کی کارکردگی کا ثبوت ہمارے جنگلات کا کم ہوتا ہوا رقبہ ہے۔اب ضلعی سطح پر گیمز وارڈنز بھی تعینات ہیں۔ جنگلی حیات کے تحفظ کا بھی محکمہ ہے لیکن جنگلی حیات کا کتنا تحفظ ہو رہا ہے، یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وزارت سیاحت بھی ہے حالانکہ پاکستان میں جتنی سیاحت ہوتی ہے، اس کے لیے کسی محکمے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ملازمین کی فہرست دیکھیں تو یہ تعداد سیکڑوں ہزاروں میں ہے۔ اسمبلیوں میں پروٹوکول افسروں کی بھرمار ہے۔اس کے علاوہ دوسرا بے شمار عملہ ہے، ان سب کو تنخواہیں سرکاری خزانے سے ملتی ہیں۔ یہ سب محترم اسپیکر صاحبان کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ ایوان صدر، ایوان وزیراعظم، گورنر ہاؤسز، وزرائے اعلیٰ کی رہائش گاہوں، اسٹیٹ گیسٹ ہاؤسز اور سینیٹ کے افسروں اور ملازمین کی تعداد کا شمار کریں تو یہاں بھی تعداد ہزاروں میں ہو گی۔یہ لوگ کیا کام کرتے ہیں، عام آدمی کو اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ ان کے حوالے سے قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں کبھی بحث بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی اخراجات کا تخمینہ اسمبلیوں میں زیربحث آتا ہے۔ یہ تو صرف ٹپ آف دی آئس برگ ہے۔ سرکاری اللوں تللوں کا تو شمار ہی کوئی نہیں۔ اب بھی وفاقی حکومت اور وزارت خزانہ نے جو پابندیاں عائد کی ہیں، اس سے قبل بھی کئی حکومتیں اس قسم کے اعلانات اور نوٹیفکیشنز جاری کرتی رہی ہیں لیکن اخراجات ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔جب تک عوام کے منتخب نمائندے، اپنی نمائندگی کا حق ادا کرنے پر تیار نہیں ہوں گے، اس وقت تک غیرضروری اخراجات میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ جب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے
دعویدار ارکانِ اسمبلی اپنے استحقاق، اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے سوا کوئی اورکام کرنے پر تیار نہ ہوتے ہوں تو بیوروکریسی، اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان اور فوجی افسران اپنی مراعات اور تنخواہیں کم کرنے پر کیسے تیار ہوں گے۔ایسی ایک نہیں، ہزاروں بلکہ لاکھوں مثالیں پاکستان میں موجود ہیں۔ بیوروکریٹس، نظام انصاف اور دیگر ریاستی اور آئینی اداروں کے لاتعداد افسران کے خاندان امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ، جرمنی، اسپین اور فرانس میں رہ رہے ہیں لیکن وہ پاکستان میں حکمرانی کا مزہ لے رہے ہیں۔ جب تک اس سلسلے کو بند نہیں کیا جائے گا، پاکستان میں سیاست اور معیشت دونوں ٹھیک نہیں ہو سکتیں۔معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورتحال کسی بھی طرح اطمینان بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔کم ترین فی کس آمدنی اورکمرتوڑ مہنگائی میں شہریوں کو سستی بجلی، گیس،خوراک اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی ممکن نہیں ہوپارہی۔کسی بھی سیاسی پارٹی کے حالات سدھارنے کے دعوے جس حد تک ممکن دکھائی دیتے ہیں اقتصادی ماہرین کی آرا کی روشنی میں مراعات یافتہ طبقے کوبجلی،گیس اور پیٹرول کی مفت فراہمی ختم کرنے کا عنصر تاحال ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔اس ضمن میں یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ان اخراجات پر کٹ لگاکر اور ملک سے بدعنوانی ختم کرکے غیر ملکی قرضوں سے پاک پائیدار معاشی اصلاحات کی منزل پائی جاسکتی ہے۔
بحیثیت ریاست ہمیں اس وقت معیشت سمجھنے کی انتہائی ضرورت ہے۔ایسا وقت آچکا ہے کہ پوری دنیا ایک نئے سسٹم میں داخل ہو رہی ہے۔مصنوعی ذہانت نے دنیا میں دھوم مچادی ہے اور اس نئے سسٹم میں ایسی ہی ریاست کامیاب ہو گی جس کے پاس بھرپور ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر ہوگا۔یہ بات خوش آئند ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے ہماری برآمدات میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔بس ایک ہی ایسا دریچہ کھلا ہے جہاں کبھی اچھی خبر سننے کو مل جاتی ہے۔اسی شعبے میں ہمارے نوجوان ترقی کرکے، اس شعبے کو اپناذریعہ معاش بنا کر ملک کو اربوں ڈالر کما کر دے سکتے ہیں۔آزادی کے 77سال بعد ہم آج ایک نئے موڑ پر کھڑے ہیں۔اب یہ ملک اس طرح سے نہیں چل سکتا۔لگ بھگ100 ارب ڈالر کی آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے، آئی ٹی سروسز اور ترسیلات کی مد میں۔اگلے 10سال میں ایسا ہونا ممکن ہے مگر اس سمت میں ایک جامع سیاسی اور معاشی حکمت عملی بنانی ہوگی۔گزشتہ77 سال میں ہم نے نا انصافیوں کی تمام حدیں پار کرلی ہیں، وہ نا انصافیاں چاہے عورتوں کے حقوق کے لیے ہوں، اس ملک کی عوام کے بنیادی حقوق کے لیے ہوں، انھیں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہوں، ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے کے لیے ہوں یا پھر صوبوں کے ساتھ ہوں اور خاص طورپر بلوچستان کے ساتھ۔ان ہی ناانصافیوں کی بنیاد پر ہم 1971 میں بہت بڑے سانحے سے گزر چکے ہیں۔اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے تمام راستے انصاف، آئین و قانون کی بالادستی، ایک مضبوط بیانیے اور غیر مسخ شدہ تاریخ سے نکلتے ہیں کیونکہ ریاست کو چلانے کیلئے ذاتی پسند وناپسند کو بالائے طاق رکھنا پڑتاہے۔اپنی بیٹی بھتیجی،سمدھی اور قریبی عزیزوں کو نوازنے کی پالیسی ترک کئے بغیر کسی بھی شعبے کے اخراجات میں کٹوتی سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔