ایک اور عالم جبر کا شکار ہو گیا
شیئر کریں
جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے فیس بک پیج پر دلاور سعیدی کی موت کی خبر جاری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بنگلہ دیشی حکام نے دلاور سعیدی کو علاج سے محروم رکھ کرانھیں ’شہید‘ کیا۔ مرحوم کی نماز جنازہ ضلع فیروزپور میں ادا کی گئی جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ ڈھاکہ پولیس نے دلاور حسین سعیدی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے علامہ دلاور حسین سعیدی کی دوران قید وفات پر افسوس اور دلی صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام، جماعت اسلامی کے ذمہ دار و کارکن اور ان کے اہل خانہ سے پاکستانی قوم کی طرف سے تعزیت کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی قربانی و آزمائش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین میں خصوصی مقام ومرتبہ سے نوازے، اپنے محبوب ترین بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کوبڑی سیاسی قوت بنانے کا سہرا دلاور سعیدی کے خطابات اور تبلیغ کو دیا جاتا ہے۔علامہ دلاور سعیدی 71کی جنگ کے موقع پرجامع علوم اسلامیہ کراچی میں زیرتعلیم تھے۔ پاکستان کی حمایت کرنے پر 1970ء کی دہائی میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد رہی، لیکن 1990کی دہائی تک یہ ملک کی تیسری بڑی قوت اور سب سے بڑی مذہبی جماعت بن گئی۔علامہ دلاور حسین سعیدی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مرکزی رہنما اور تین دفعہ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔انہیں جون 2010 میں گرفتار کیا گیا تھا۔جماعت اسلامی کے رہنما کو جنگی جرائم کے متنازع ٹریبونل نے 2013 میں قتل، ریپ اور ہندوؤں کو ہراساں کرنے کے الزامات میں سزائے موت سْنائی تھی جس کے بعد ان کی جماعت کے ہزاروں کارکنوں کے ملک گیر احتجاج کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس احتجاج کے بعد کریک ڈاؤن میں جماعت اسلامی کے لاکھوں کارکنوں اورحامیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے مولانا کی سزائے موت عمرقید میں تبدیل کردی تھی، جس کے بعد سے وہ جیل میں قید تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا دلاور سعیدی پر جو الزامات عاید کئے گئے ہیں وہ اس دوران بنگلہ دیش میں تھے ہی نہیں اور انھوں نے بنگلہ دیش کے قیام کے کم وبیش ایک عشرے کے بعد ء میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس حقیقت سے مولانا دلاور سعیدی کو سزا سنانے والے ٹریبیونل کی غیر جانبداری کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ جنگی جرائم کے متنازع ٹریبونل نے 2013میں علامہ دلاور حسین سعیدی پرجوالزامات لگائے تھے ان میں میں قتل، ریپ اور ہندوؤں کو ہراساں کرنے کے الزامات شامل تھے اب اس بات کا خود ہی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ کیا دلاور سعیدی جیسا پائے کا عالم ان میں سے کسی بھی جرم میں ملوث ہونا درکنار اس کے قریب بھی جاسکتاہے، یہی وجہ ہے کہ اس ٹریبیونل کی کارروائی کو عالمی سطح پر قبول نہیں کیا گیا اور اس کو انتہائی متنازع قرار دیا گیا لیکن بنگلہ دیش کی حکومت نے یہ ٹریبونل ختم نہیں کیا اور سزاؤں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
دلاور سعیدی کا شمار پُرجوش مقرریں میں کیا جاتا تھا۔ سیرت نبی ؐ کے جلسوں میں لاکھوں سامعین انہیں سننے آتے تھے۔ علامہ سعیدیؒ معروف عالم دین، مفسر قرآن، مقبول ترین مقرر اور بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر تھے۔ صحیح معنوں میں مرجع خلائق تھے۔بنگلہ دیش کی حکومت پر ان کی رہائی کے لئے بنگلہ دیش کے عوام سعودی عرب اور قطر کے علما کا بھی دباؤ تھا وہ صرف جماعت اسلامی کے ہی نہیں، بلکہ ورلڈ علما کونسل کے بھی ممبر تھے ان کے شاگردوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے جو دنیا بھر میں موجود ہیں۔
٭٭٭