میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ناقص سیکورٹی اور طبی سہولیات کی کمی کا زمہ دار کون؟

ناقص سیکورٹی اور طبی سہولیات کی کمی کا زمہ دار کون؟

ویب ڈیسک
پیر, ۲۰ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

دہشت گردی کی حالیہ لہر کے دوران اور خاص طور پر سیہون دہشت گرد حملے میں سیکورٹی انتظامات کی بڑے پیمانے پر ناکامی کھل کر سامنے آئی، حکومت سندھ کہتی ہے کہ درگاہ لعل شہباز قلندر میں ساٹھ سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں جبکہ چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف کے مطابق درگاہ میں بیالیس کیمرے ہیں، اگر سندھ حکومت کے ریکارڈ کے مطابق کیمرے ساٹھ تھے تو باقی اٹھارہ کیمرے کہاں گئے؟محکمہ اوقاف کے مطابق درگاہ پر نصب بیالیس میں سے چار کیمرے خراب ہیں، درگاہ کی سیکورٹی کے لیے ضلع جام شورو پولیس کے چھیاسی اہل کار تعینات ہیں مگر عملی طور پر صرف سولہ اہل کار ہیں جو دو شفٹوں میں ڈیوٹی دیتے ہیں، اس کے علاوہ محکمہ اوقاف کے گیارہ ملازمین بھی سیکورٹی فرائض سرانجام دیتے ہیں۔محکمہ اوقاف نے چھ لیڈی سرچر فراہم کی ہیں مگر عملی طور پر صرف ایک لیڈی سرچر گولڈن گیٹ پر موجود ہوتی ہے، مبینہ خودکش حملہ آور جس گیٹ سے درگاہ میں داخل ہوا وہاں لیڈی سرچر موجود نہیں تھی، اس کی خبر حکومت کو ہو نہ ہو، دہشت گردوں کو ضرور تھی۔درگاہ میں داخلے کے لیے چھ الیکٹرانک واک تھرو گیٹ بھی نصب ہیں مگر وہ موثر طور پر کام نہیں کر رہے اور اگر وہ کام کر بھی رہے ہوتے تو حملہ آور اپنی نشان دہی کے باوجود دھماکا کرکے بھاری نقصان کا موجب بن سکتا تھا۔ سی سی ٹی وی کیمروں سے مانیٹرنگ کے لیے ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جہاں صرف ایک شخص مانیٹرنگ پر مامور ہے جو کانٹریکٹ پر ملازم ہے ۔ بلوچستان میں درگاہ شاہ نورانی پر دھماکے کے بعد دیگر درگاہوں پر بھی حملے کا خدشہ تھا، مگر سیہون میں اضافی سیکورٹی انتظامات نظر نہ آئے، سیہون میں ایسا کوئی اسپتال بھی موجود نہیں ہے۔سیہون میں لعل شہباز قلندر کے مزار میں خودکش حملہ کرنے والا عورتوں کے راستے سے داخل ہوا، حملہ آور نے برقعہ پہنا ہوا تھا اور بال بھی لمبے رکھے ہوئے تھے۔ حملہ آور اور اس کے سہولت کار جانتے تھے کہ شام سات بجے درگاہ میں نہ بجلی ہوگی نہ تلاشی لینے کے لیے خاتون اہلکار ہوگی۔ خود کش حملہ آور نے دھماکا پوری تیاری اور ریکی کے بعد مزار کے اندر جا کر کیا۔سیہون ہو یا لاہور، پشاور یا پھر کراچی، دہشت گرد اپنے ہدف ہر شہر میں بلا روک ٹوک داخل ہوئے، ان شہروں میں دہشت گردوں کے سہولت کار موجود تھے جنھوں نے انھیں چھپنے کے لیے جگہ فراہم کی، انھیں ان کے اہداف سے متعلق معلومات دیں، انھیں خودکش جیکٹوں سے آراستہ کیا اور پھر انھیں ان کے اہداف تک پہنچایا۔اس سب سے پہلے سہولت کاروں نے مخصوص اہداف کی ریکی بھی کی لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی مرحلے پر ان کا سراغ لگانے میں ناکام رہے، بعد میں گرفتاریاں بھی ہوئیں اور مقابلوں میں دہشت گردوں کو ہلاک بھی کیا گیا لیکن تب تک دہشت گرد اپنا وار کر چکے تھے۔ سیہون شریف حضرت لعل شہبازقلندر کی درگاہ کی وجہ سے ملک بھر کے زائرین کی توجہ کا مرکز رہتا ہے ، ہر جمعرات ہزاروں کی تعداد میں زائرین ملک بھر سے قلندر کی درگاہ پر حاضری کیلئے آتے ہیں جبکہ عرس کے موقع پر یہ تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے ۔ہر سال یہاں موسم کی سختی اور طبی سہولیات کی کمی کی وجہ سے زائرین کی بہت بڑی تعداد جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ انتہائی اہم سیاسی شخصیات کا یہ حلقہ بنیادی طبی سہولیات سے آج بھی محروم ہے ۔اس علاقے کے لوگوں کو ان کے سیاسی قائدین صرف انتخابات کے موقع پر یاد کرتے ہیں اور پھر وہاں سے ایسے غائب ہوتے ہیں کہ جیسے ان کا سیہون سے کوئی تعلق ہی نا ہو۔تاریخی اہمیت کے حامل اس حساس شہر میں ناقص سیکورٹی اور طبی سہولیات کی عدم فراہمی کا ذمہ دار کون ہے ؟کیا اس کی ذمہ دار یہاں سے منتخب ہونے والی سیاسی قیادت نہیں ہے؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں