عدالت پر نواز شریف کی گولہ باری
شیئر کریں
مسلم لیگ (ن) کے صدر اورنااہل قرار دئے گئے وزیراعظم نوازشریفنے گزشتہ روز لندن سے پاکستان واپس آتے ہوئے ایک دفعہ پھرعدالت پرگولہ باری کرکے ججوں کو مطعون کرنے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ انصاف کے دوترازو نہیں چلیں گے اور اس کے خلاف بھرپور تحریک چلائیں گے جب کہ قانون و آئین کی حکمرانی کے لیے جو کرنا پڑا کروں گا انھوں نے دعویٰ کیا کہ میری جدوجہد پاکستان میں قانون اور آئین کی حکمرانی کے لیے ہے۔۔لندن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے نوازشریف نے عمران خان کی نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ مجھے کہا جارہا ہے کہ تنخواہ نہیں لی لیکن لاکھوں پونڈ کے کاروبار کو یہ اثاثہ نہیں کہہ رہے جب کہ میری خیالی تنخواہ کو انھوں نے اثاثہ مان لیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ عمران اور جہانگیر ترین کے مقدموں میں مجھے ہی نا اہل کیا جائے گا،ان کے بارے میں جو فیصلہ آیا وہ خود اپنے منہ سے بول رہا ہے
دوسری جانب نواز شریف کے سابق دست راست سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک دفعہ پھر اپنے قائد کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگی رہنمائوں کے بیانات محاذ آرائی اور تصادم کے حالات پیدا کررہے ہیں جو ملک کے لیے کسی صورت مناسب نہیں۔ اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ گومگو کی پالیسی کسی کے مفاد میں نہیں ، بار بار کہا جاتا ہے کہ ہم اداروں سے تصادم کی پالیسی پر عمل پیرا نہیں مگر ہمارے بیانات ایک محاذ آرائی اور تصادم کی کیفیت پیدا کر رہے ہیں یہ کسی بھی حوالے سے ملکی مفاد میں نہیں، مسلم لیگ (ن) کو اپنے ساتھ ملک کو بھی بے یقینی کی اس کیفیت سے نکالنا ہوگا،چوہدری نثار نے کہا کہ میں نے بار ہا کہا تھا کہ اگر ایک عدالت کے فیصلے پر اطمینان نہیں تو دوسری عدالت سے انصاف مل سکتا ہے، حدیبیہ کیس کے فیصلے کے بعد یہ بات صحیح ثابت ہوئی ہے۔انھوںنے کہا کہ ہم پاکستان کی تاریخ کے انتہائی اہم موڑ پر ہیں جوش سے زیادہ ہوش سے کام لینا ہوگا اور قوم کو ایک مثبت اور پر امید راستے پر لگانا ہوگا۔
نواز شریف کے مذکورہ بالا بیانات سے ثابت ہوتاہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دئے جانے کے بعد وہ اپنے حواس کھو چکے ہیں اور انھیں یہ اندازہ نہیں کہ وہ اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے کس ادارے کو ہدف بنارہے ہیں اور اس کے کیانتائج سامنے آسکتے ہیں ، اس بیانات سے ظاہر ہوتاہے کہ دولت کی چکاچوند نے انھیں اندھا کردیا ہے اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایک دفعہ عدلیہ کے خلاف جو کھیل انھوں نے سابق صدر تارڑ کے تعاون سے کھیلا تھا وہ اپنی دولت کے بل پر دوبارہ اسی طرح کا کوئی کھیل کھیل کر پانسہ پلٹنے میں کامیاب ہوجائیں گے ،ان کی یہی غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے اپنے مخلص دوست اورسردوگرم میں ثابت قدم رہنے والے ساتھی کی باتیں بھی ان کی سمجھ میں نہیں آرہی ہیں،اور جیسا کہ انھوں نے باقاعدہ اعلان کردیاہے کہ وہ باقاعدہ محاذ آرائی شروع کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ۔لندن میں بیٹھ کر سیاست کرتے ہوئے وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ لندن میں بیٹھ کر بھی اس ملک پر حکومت کرسکتے ہیں ،ان کے سابقہ بیانات کو دیکھا جائے تو بھی یہی ظاہر ہوتاہے کہ انھیں یہ زعم ہے کہ وہ لندن میں بیٹھ کر بھی اپنے بغل بچوں کے ذریعہ پاکستان پر حکمرانی کرتے رہیں گے اور حالات بہتر ہوتے ہی واپس آکر انتقامی کارروائیاں شروع کردیں گے ،لیکن جیسا کہ چوہدری نثار نے کہا ہے اس طرح کے بیانات اور محاذ آرائی کی سیاست سے شاید نواز شریف کو وہ کچھ حاصل نہ ہوسکے جس کی وہ توقع رکھتے ہیں ۔اس کے برعکس اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ ان کے اس طرز عمل سے حکومت کو اپنی مدت پوری کرنا مشکل ہوجائے اور قبل از وقت انتخابات کی صورت میں زمین ان کے پیروں سے نکل جائے ۔
یہ درست ہے کہ اس وقت ہمارے ملک کیکسی بھی سیاسی جماعت کی سمت درست نظر نہیں آرہی ہے اور ہماری سیاست نگر نگر گھوم پھر رہی ہے کبھی یہ اسلام آباد میں تو کبھی دبئی میں اور اگلے ہی دن یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنے پسندیدہ مقام لندن میں جلوہ افروز ہو گئے ہیں اور پاکستان کی تقدیر کے فیصلے اپنے سابق حکمرانوں کی راج دھانی میں بیٹھ کر کیے جا رہے ہیں۔لندن اوردبئی اتنے زیادہ پسندیدہ مقام بن چکے ہے کہ ہمارے بیشتر سیاستدانوں کے گھر وہاں کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔
میاں نواز شریف بھی اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے بہانے لندن میں ہی قیام پذیر رہنا چاہتے ہیں اس لیے ہماری قومی سیاست کا رخ بھی اکثر لندن کی جانب ہی رہتا ہے اور وہیں سے ہدایات لے کر حکومت چلائی جاتی ہے۔ ہمارے چھٹی پر موجود عدالتوں سے مفرور قرار دئے گئے وزیر خزانہ بھی ملک کو بیچ منجدھار چھوڑ کر لندن کے ایک اسپتال کے بستر پر جا کر لیٹ گئے ہیں اور اپنی ’بیماری‘ کے باعث وطن واپسی سے گریز کر رہے ہیں لیکن شنید ہے کہ ان کو عالمی پولیس کے ذریعے واپس لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔دیکھتے ہیں کہ وہ کب تک پاکستان واپس پہنچتے ہیںیااپنے لندن کے ڈاکٹروں کو رام کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہی ایک اْمید ان کے پاس ہے کہ ان کے ڈاکٹر ان کو سفر سے منع کر دیں ورنہ یہاں تو ان کے استقبال کے لیے ’نیب‘ نے اپنی مکمل تیاری کر رکھی ہے۔یہ بحث بھی جاری ہے کہ ملک میں آئندہ انتخابات کب ہوں گے کیا موجودہ حکومت سینیٹ کے الیکشن تک برقرار رہے گی یا اس سے پہلے ہی اس کا بوریا بستر گول کر دیا جائے گا۔ یہ ایک ایسی بحث ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا سب کی خواہشیں ہیں، اندازے ہیں اور ان خواہشوں کے آگے بند باندھنے کے لیے لندن میں نواز لیگ کے اجلاس بھی ہوتے رہے ہیں اور نواز شریف نے لندن واپسی پر یہ واضح کردیاہے کہ وہ کسی صورت میں بھی نہ صرف یہ کہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے بلکہ بھر پور مزاحمت بھی کریں گے۔ دوسری جانب نواز شریف کے تابعدار اور خود کو ڈمی تصور اور ظاہر کرنے والے موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بار بار یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی اور انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے،اس سے خود حکومتی صفحوں میں دوعملی اور اختلاف رائے کی عکاسی ہورہی ہے ،ملک کا اعلیٰ ترین عہدیدار کچھ اور بات کر رہا ہے جب کہ اسمبلی کے اسپیکر کو اسلام آباد میں سب کچھ اچھا دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر حقیقت پسندانہ بات کی جائے توبظاہر ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ حکومت وقت سے پہلے ختم ہو جائے۔قومی اسمبلی میں ن لیگ اپنی بھر پور طاقت کے ساتھ دو تہائی اکثریت کی حامل ہے اور ابھی تک اس کے ارکان اسمبلی اس کے ساتھ کھڑے ہیں، پنجاب میں بھی واضح اکثریت کے ساتھ ن لیگ حکومت کر رہی ہے، بلوچستان میں بھی اس کی مخلوط حکومت قائم ہے، باقی دو صوبوں سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتیں قائم ہیں۔ابھی تک بھر پور کوششوں کے باوجود نواز لیگ میں پھوٹ نہیں ڈالی جا سکی اور ان کے اندر سے ہی کوئی ایسا گروہ تیار نہیں کیا جا سکا جو فارورڈ بلاک کی صورت میں سامنے آئے۔ وزیر اعظم کو عدم اعتماد کا بھی سامنا نہیں، اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو صرف ایک ہی صورت بن سکتی ہے کہ وزیر اعظم خود ہی اپنی اسمبلی توڑ دیں اور نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جائے جو کہ ظاہر ہے وہ کسی صورت میں بھی نہیں کریں گے۔دوسری طرف اگر دیکھیں تو آئندہ انتخابات سے قبل ایک مخصوص مدت میں اگر حکومت مخالف پیپلز پارٹی صوبہ سندھ کی اسمبلی اور تحریک انصاف خیبر پختونخوا کی اسمبلی توڑ دیتی ہے تو آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضمنی انتخابات کرانے پڑیں گے اور یہ مدت بھی سینیٹ کے الیکشن کے بعد ہی پوری ہو رہی ہے اس لیے اگر ملک کے دو صوبوں کی اسمبلیاں توڑ بھی دی جائیں تو اس میں نقصان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا ہی ہوگا اور وہ سینیٹ کے الیکشن میں نئی نمائندگی سے محروم ہو جائیں گی۔اس وقت سارا زور اس بات کے لیے لگایا جارہا ہے کہ سینیٹ کے الیکشن سے پہلے کسی طرح نواز لیگ کی حکومت کو چلتا کر دیا جائے تا کہ وہ اگر آئندہ انتخابات کے بعد حکومت نہ بنا سکے تو سینیٹ میں بھی اس کی اکثریت نہ ہو اور جو بھی پارٹی حکومت بنائے اگر وہ پورے ملک میں اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو ظاہر ہے کہ سینیٹ میں اس کے اراکین کی تعداد بھی زیادہ ہو گی اس کی حکومت شاہانہ ہوگی جس کو کسی بھی طرف سے کوئی آئینی رکاوٹ نہیں ہو گی۔موجودہ سینیٹ میں پیپلز پارٹی واضح اکثریت کے ساتھ موجود ہے اور جب اور جس مسئلے پر چاہتی ہے حکومت کو آنکھیں دکھا دیتی ہے، یعنی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں کسی حد تک ایک چیک اینڈ بیلنس کا نظام چل رہا ہے اور حکومت من مانی نہیں کر سکتی اور اس کو اپنی مرضی کے فیصلوںکے لیے ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر اس نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ میںآ جانی چاہیے کہ اگر آئندہ انتخابات میں نواز لیگ شکست سے دوچار ہو جاتی ہے تو وہ سینیٹ میں واضح اکثریت کے ساتھ موجود ہو گی اور انتخابات کے بعد معرض وجود میں آنے والی نئی حکومت کو اپنی من مانی نہیں کرنے دے گی، جبکہ ملک کی کم وبیش تمام سیاسی پارٹیوں کی کوشش ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت سینیٹ کے انتخابات سے قبل ہی کسی طرح چلتی کردی جائے تاکہ اگلی دفعہ مسلم لیگی رہنمائوں کوکسی کو آنکھیں دکھانے اور سینیٹ میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر اگلی منتخب حکومت کو بلیک میل کرکے فوائد حاصل کرنے کاموقع نہ مل سکے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں حکومت کو سینیٹ کے انتخابات سے پہلے چلتا کرنے کے لیے کیاحکمت عملی اختیار کرتی ہیں اورنواز شریف اور ان کے حواری اپنی حکومت کوسینیٹ کے انتخابات تک بچائے رہنے کے لیے کون ساحربہ اختیار کرتے ہیں۔