میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عدلیہ کوبدنام کرنے والوں کو کٹہرے میں لایاجائے

عدلیہ کوبدنام کرنے والوں کو کٹہرے میں لایاجائے

منتظم
پیر, ۱ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

نیب نے پاکستان اسٹیل کی تباہی کانوٹس لیتے ہوئے اس ادارے کے معاملات کی چھان بین کرنے اور اسے نقصان پہنچا کر تباہی کے دہانے تک پہنچانے والے حاضر سروس اورریٹائرڈ سرکاری افسران اور ان کی پشت پناہی کرنے والے سیاستدانوں کااحتساب کرنے کا اعلان کیاہے۔

احتساب کی اصطلاح دنیا میں ہر جگہ مروج اور مستعمل ہے مگر اس اصطلاح کا حلیہ جس طرح ہمارے ہاں بگڑتا رہا ہے وہ شاید ہی کسی قوم کے حصے میں آیا ہو۔ دنیا کے کسی بھی نظام حکومت کو اس اصطلاح اور عمل سے جدا کیا ہی نہیں جا سکتا مگر احتساب جمہوریت کا ایک لازمی عنصر ہوتا ہے۔ جمہوریت اور احتساب ایک دوسرے کا نعم البدل ہرگز نہیں ہوتے ۔ جمہوریت میں ووٹ، اختیار اور اقتدار کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور احتساب اس کے متوازی دھارے کے طور پرساتھ ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔ احتساب جمہوریت کو زیادہ ذمہ دار، دیانت دار اور متحرک بنائے رکھتا ہے جب کہ خود جمہوریت احتساب کے اداروں کے در ودیوار پر موٹے تالے اور مکڑی کے جالے چڑھانے کے بجائے مے خانے کی رونق کو بحال وبرقرار رکھتی ہے۔ ہمارے ہاں بااثر طبقات نے اْلٹی زقند لگائی ہے۔ کبھی احتساب کے نام پر انتخابات کی بساط لپیٹی جاتی رہی اور کبھی عوامی احتساب کے نام پر احتساب کے اداروں کو قطعی غیر فعال اور موم کی ناک بنادیا جاتا ہے جیسا کہ گزشتہ عرصے سے ہوتا چلا آرہا ہے۔

قمر زمان چودھری کی سربراہی میں جو احتساب بیورو قائم تھا وہ احتساب کے سوا ہر کام کے لیے متحرک اور فعال تھا۔ ان کا تقرر ہی شاید احتساب نہ کرنے کی غرض سے کیا گیا تھا۔ یہی رویے مقدس اصطلاحات کو مذاق بناتے ہیں اور ان اصطلاحات پر سے عوام کا اعتماد اْٹھ جاتا ہے۔ جمہوریت اور اسلام کے ساتھ بھی ہمارے ملک میں انہی رویوں کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ بے لاگ اور بلا تفریق احتساب کی خواہش دلوں ہی میں دم توڑتی رہی اس سے ایک مایوسی نے جنم لیا جو جمہوریت سے مایوسی کی شکل میں ڈھلتی رہی۔ عوام نے یہ تصور کرلیا کہ جمہوریت میں احتساب ممکن نہیں اور اس کے لیے ایک سخت گیر مسیحا کا انتظار کرتے رہے۔ ایران سے چین تک، برطانیا سے ملائیشیا تک بے لاگ احتساب کی کوئی بھی صورت جہاں نظر آئی ہمارے ذہنوں میں ایک محتسب اور خوابوں کے شہزادے کے خدوخال اْبھرتے ڈوبتے رہے۔ یہاں تک کہ ایک دور میں ایک شاہراہ کی تعمیر میں بدعنوانی کے جرم کے مرتکب ٹھیکیدارکو اسی سڑک پر برسرعام سزائے موت دینے کے افسانے کے حوالے سے عراق کے ڈکٹیٹر صدام حسین کی مثالیں بھی زباں زد عام رہیں۔ امام خمینی تو مدت تک احتساب کے لیے تڑپتے دلوں کے رول ماڈل رہے ہیں۔ جمہوریت اور احتساب کو باہم متضاد پا کر ہی لوگ کسی غیر سیاسی، کسی جرنیل، کسی ڈکٹیٹر اور ٹیکنو کریٹ اور عدل سے وابستہ مسیحا کے لیے سراپا انتظار رہے۔

احتساب کی کتاب کو بند کرنے والے جمہوری حکمرانوں نے جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں کی۔ ایسے میں چیئرمین قومی احتساب بیوروجسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے پاناما اور برٹش ورجن آئی لینڈ میں قائم 435پاکستانیوں کی آ ف شور کمپنیوں کی تحقیقات کاحکم دیا۔ جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں کسی قسم کے دباؤ اور سفارش کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان، ایس ای سی پی اور ایف آئی اے کو ان کمپنیوں کی معاونت حاصل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ پاناما لیکس ایک عالمی اسیکنڈل ہے جس میں بیرونی ملک دولت کے انبار کی نشان دہی کی گئی تھی۔ اس اسکینڈل کے سامنے آتے ہی کئی ملکوں میں سیاسی بھونچال آنا شروع ہوئے اور کئی حکمرانوں کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ میاں نوازشریف کے صاحبزادوں کے نام بھی چوں کہ اس فہرست میں تھے اس لیے پاکستان میں بھی یہ مسئلہ ایک طویل سیاسی کشمکش کی بنیاد بن گیا اور اس دوران میں شروع ہونے والی عدالتی کارروائی کے نتیجے میں وزیر اعظم میاں نوازشریف کو محرومِ اقتدار ہونا پڑا۔ عمران خان اور شیخ رشید احمد نے مقدمے کے دوران اپنا فوکس میاں نوازشریف پر رکھا جب کہ مقدمے کے ایک اور فریق امیر جماعت اسلامی سراج الحق آف شور کمپنیوں کے تمام مالکان کی تحقیقات اور سزا دینے کا مطالبہ کرتے رہے۔ اب قومی احتساب بیورو نے ان تمام آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ آف شور کمپنیاں رقم کی منتقلی اور اسے محفوظ بنانے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ ہر آف شور کمپنی کا قیام از خود کوئی برائی نہیں بلکہ جو معاملہ قابل اعتراض ہے وہ ان ان کمپنیوں کے نام پر کمائی جانے والی دولت اور اس کے ذرائع ہیں۔ یعنی دولت کن ذرائع سے کمائی گئی ہے۔ جب حکمران کی دولت کا ڈھیر دریافت ہوتا ہے تو یہ سوال اْٹھنا لازمی امر ہوتا ہے کہ یہ دولت کس ذریعے سے کمائی گئی؟ کہیں اس میں عوام اور ریاست کی دولت بھی شامل تو نہیں؟ منشیات، اغوا برائے تاوان، کمیشن، بھتہ خوری اور ناجائز طریقوں سے کمایا جانا والا پیسہ تو شامل نہیں؟

پاکستان گزشتہ دہائیوں میں کرپشن میں لتھڑ کر رہ گیا ہے۔ ملک میں ناجائز ذرائع سے دولت کمانا ایک رواج اور ریت بن گیا ہے۔ جس کے باعث ملک کی معیشت روز بروز خراب ہوتی چلی گئی مگر حکمران طبقات اور افراد معاشی طور پر مستحکم اور مضبوط ہوتے رہے۔ حکمران طبقات میں شامل کئی افراد دنیا کے امیر ترین انسانوں کی فہرست میں درجہ بہ درجہ اوپر ہوتے چلے گئے اگر حالات اسی رخ پرچلتے رہتے تو کسی دن ہمارا کوئی لیڈر اس فہرست کے پہلے نمبر پر بھی پہنچ جاتا اور شاید اس وقت ملک میں عام آدمی معاشی بدحالی کے باعث ہڈیوں کے ایک ڈھانچے کی صورت اختیار کر گیا ہوتا کیوں کہ جس ملک میں ایک مخصوص اور ملکی وسائل پر قابض طبقہ تیزی سے دولت کے کوہ ہمالیہ جمع کرے اس ملک ومعاشرے کے بے وسیلہ لوگ افریقا کے قحط زدہ باشندوں کی طرح زندہ لاشوں اور چلتے پھرتے ڈھانچوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ ملک میں ناجائز ذرائع سے کمایا جانے والا پیسہ مختلف انسانی اسمگلروں اور دوسرے طریقوں سے بیرون ملک منتقل کیا جاتا رہا۔ ملک کے وسائل اور معیشت کے ساتھ ہونے والے اس سلوک کی ہمہ گیر تحقیقات ناگزیر ہے۔

اب جبکہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے حقائق وشواہد کابغور جائزہ لینے کے بعد میاں نواز شریف کے بارے میں یہ فیصلہ سنادیاہے کہ وہ صادق اور امین نہیں ہیں اس لیے ملک کی قیادت کاحق بھی کھوچکے ہیں پوری شریف فیملی بلبلاتی پھر رہی ہے، خاص طورپر نواز شریف کی لاڈلی مریم نواز کی بلبلاہٹ تو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے وہ اس ملک کی عدلیہ اور نوا زشریف کو احتساب کے کٹہرے میں لانے میں اہم کردار ادا کرنے والے سیاسی رہنمائوں کو شستہ زبان میں گالیاں دینے سے بھی گریز نہیں کرتیں ،گزشتہ روز بھی انھوں نے اسی انداز میں عدلیہ اور عدلیہ کی معاونت کرنے والے سیاسی رہنمائوں کوجلی کٹی سنائیں اور یہ نہیں بتایا کہ ان کے والد محترم اور ان کے قریبی رفقا سعودی عرب کیاتلاش کرنے گئے ہیں،اور وہ لندن پلان کی ناکامی کے بعد اب سعودی عرب میں کون سی کھچڑی پکانے کی کوشش کررہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ نواز شریف ، ان کی لاڈلی مریم صفدر اورنواز شریف کے دیگر رفقا کی عدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی کا نوٹس لے اور سپریم کورٹ کو بے وقعت کرنے کے لیے کوشاں ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرے،جب تک عدالت عظمیٰ اس صورت حال کانوٹس نہیں لے گی لٹیروں کا خاندان ملک کے گلی کوچوں میں سادہ لوح عوام کو بیوقوف بناکر خود کو معصوم ثابت کرنے کے لیے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے معزز ججوں کو بدنام کرنے کی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں