پی آئی اے کی نجکاری نے نجکاری کے پورے عمل کو ہی مشکوک کر دیا
شیئر کریں
پاکستان کی قومی فضائی کمپنی ‘پی آئی اے’ جس کا شمار کبھی دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں ہوتا تھا اور کئی اعزازات بھی اس کے نام رہے لیکن پھر 1980 کی دہائی کے اواخر سے اس کے ‘ڈاؤن فال’ یعنی تنزلی کا سلسلہ شروع ہوا ۔برسوں سے خسارے کے سبب اب حکومت بھی اسے چلانے سے قاصر ہے اور اسی لیے اس کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا اور مناسب خریدار کی تلاش کیلئے اسے نیلامی کیلئے پیش کیاگیا اس کی محفوظ قیمت 85 ارب رکھی گئی ،ابتدامیں کئی غیر ملکی اداروں اور ملک کے ایک کنسورشیم میں اس کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی لیکن بعد میں حکومت نے اس کے ساتھ ایسی شرائط نتھی کردیں کہ تمام غیرملکی متوقع خریدار واپس چلے گئے اورحکومت کی جانب سے پی آئی ایکے 60 فیصد شیئرز کی نجکاری کے ذریعے کم از کم 85 ارب روپے کی خطیر رقم حاصل کرنے کا خواب اس وقت چکناچورہوگیا جب گزشتہ روز اسلام آباد میں پی آئی کی نجکاری کے لیے بلیو ورلڈ سٹی کنسورشیم کے علاوہ پی آئی اے کا کوئی دوسرا خریدار سامنے نہیں آیا اور ابتدا میں پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کرنے والے سعودی عرب اور خلج کے اداروں نے بولی میں حصہ ہی نہیں لیا۔ بولی دینے والے واحد بولی دہندہ نے پی آئی اے کے 60 فیصد شیئرز کی صرف 10 ارب روپے کی بولی لگائی۔ جبکہ حکومت کے دعوے کے مطابق پی آئی اے کے اثاثوں کی مالیت 152 ارب روپے ہے ۔ ملکی کنسورشیم نے حکومت کی مقررہ محفوظ قیمت 85 ارب کی جگہ صرف 10 ارب کی بولی دی اوراس میں کوئی اضافہ کرنے سے انکار کردیا نتیجتاً حکومت نے یہ واحد بولی بھی مسترد کردی اور اب ایک دفعہ نئی شرائط کے ساتھ اسے نیلام کرنے کیلئے پیش کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ قبل ازیں پی آئی اے کے 51فیصد شیئر فروخت کرنے کا منصوبہ تھا مگر نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس کی طرف سے 60فیصد حصص فروخت کرنے کی منظوری کے بعد توقعات بڑھتی محسوس ہورہی تھیں۔ تاہم جو صورتحال سامنے آئی اس میں نجکاری کا پورا عمل ہی مفلوج ہوگیا۔ پی آئی اے کی نجی کمپنی کے جانب سے 10ارب روپے کی انتہائی کم بولی لگنے کے بعد خیبرپختونخوا حکومت نے بھی پی آئی اے خریدنے کی خواہش کی ہے اور پی آئی اے کی خریداری کیلئے موصولہ بولی سے دگنی رقم پر پی آئی اے خریدنے میں دلچسپی ظاہرکی ہے اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا سرمایہ کاری بورڈ کی جانب سے وفاقی وزارت نجکاری کو خط بھی لکھ دیا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ پی آئی اے قومی اثاثہ اور ملکی پہچان ہے اور ہم کسی ملکی یا غیرملکی نجی ادارے کے پاس یہ قومی سرمایہ نہیں جانے دیں گے ہم چاہتے ہیں کہ قومی ادارے حکومتی تحویل میں ہی رہیں۔پی آئی اے کی نجکاری کی بولی سے غیر ملکی اداروں کا پیچھے ہٹ جانا اور اس کیلئے صر ف 10 یا20 ارب روپے کی پیشکش سے ظاہرہوتاہے کہ ایک وقت میں دنیا کی سب سے کامیاب اور آج کی دنیا کی صف اول کی ایئرلائنز کی نجکاری حکومت وقت کے لئے وبال جان بن گئی ہے۔حکومت پاکستان نے پی آئی اے کی کم از کم قیمت 85 ارب 3 کروڑ روپے مقرر کی تھی۔ جبکہ حکومت کی مقررہ قیمت کے مقابلے میں پی آئی اے کے 60 فیصد شیئرز کی صرف 10 ارب روپے کی بولی لگائی گئی ۔ اطلاعات کے بعد اس کے بعدنجی کمپنی کو پیشکش کا جائزہ لینے کے لیے آدھے گھنٹے کا وقت دیا گیا، لیکن بولی دہندہ نے 10 ارب روپے کی رقم میں اضافے سے انکار کر دیا۔ترجمان قومی ایئر لائن نے دعویٰ کیاہے پی آئی اے منافع بخش ادارہ ہے، اس کے صرف لندن ہیتھرو روٹ کی قدر ہی 100ملین ڈالر ہے جو 30ارب روپے کے مساوی ہے۔ اس ادارے کے پاس 17A320طیارے ہیں جن میں سے ہر ایک کی قیمت 120سے 150ملین ڈالر ہے۔ نیا A-320ہو تو اس کی قیمت 30ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔ پرانے جہازوں پر تھوڑی کم قیمت لگائی جاسکتی ہے۔ ادارے کے کھاتوں میں موجود اثاثوں کی مجموعی مالیت 165ارب روپے ہے جس کے 60 فیصد، جو نجکاری کیلئے پیش کئے گئے 99ارب روپے مالیت کے حامل ہیں۔لیکن ترجمان نے یہ نہیں بتایا کہ پی آئی اے کے پاس ترجمان کے دعوے کے مطابق جو 17 طیارے ہیں ان میں فعال کتنے ہیں اور فی الوقت ان سے کتنی آمدنی ہورہی ہے ،اور اگر پی آئی اے اتنی ہی منافع بخش ہے تو ہر ماہ اربوں روپے کا خسارہ کیوں ہورہاہے ۔ نجکاری کمیشن ذرائع کے مطابق نجی کپمنی کے ساتھ معاہدے کے اہم خد و خال پر نجکاری کمیشن متفق ہے۔ جس میں پی آئی اے کے ملازمین کو 18 ماہ تک ملازمت پر رکھا جائے گا، اس کے بعد تقریباً 70 فیصد تک ملازمین کو ازسر نو جاب لیٹر آفر ہوں گے۔سرمایہ کار کمپنی 5برسوں میں 30 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی اور جہازوں کی تعداد 45 تک بڑھائی جائے گی، پی آئی اے تمام روٹس پر اپنی سروسز کو بحال کرے گی۔
دنیا بھر میں ‘باکمال لوگ۔۔۔لاجواب پرواز’ سے مشہور دنیا کی صف اول کی ایئرلائنز کی بجکاری آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت کی جارہی ہے۔پی آئی اے چونکہ گذشتہ کئی برسوں سے بھاری خسارے کا شکار ہے۔گذشتہ ادوار میں انتظامی تبدیلیوں کے ذریعے اس ادارے کی کارکردگی میں بہتری لانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس ایئرلائن کو منافع بخش نہ سہی اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں بھی ناکامی کے بعدآئی ایم ایف کی ہدایت پر اس کی نجکاری کی کئی کوشش کی گئی تھی لیکن حکومت نے اس کی نجکاری کیلئے جو شرائط رکھی تھیں وہ اونٹ کے ساتھ بلی فروخت کرنے کے مترادف تھیں جس کی وجہ سے تمام غیر ملکی سرمایہ کار پیچھے ہٹ گئے اور صرف ایک کمپنی نے گویا اسکریپ کی قیمت میں ادارے کی خریداری کیلئے بولی جمع کرادی ۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی مقرر کردہ بولی کی قیمت پی آئی اے کی مجموعی بک ویلیو یعنی کتابی قیمت پر مبنی ہے جبکہ اثاثوں کی اصل قیمت کتابی قیمت سے زیادہ ہو سکتی ہے ،حکومت کا کہناہے کہ ‘اس وقت پی آئی اے کے مجموعی اثاثوں کی بک ویلیو (کتابی قیمت) تقریباً 165 ارب روپے اور 60 فیصد شیئرز کی مالیت تقریباً 91 ارب روپے بنتی ہے۔ حکومت نے خریداروں کو راغب کرنے کے لیے کم از کم بولی 85 ارب روپے مقرر کی تھی۔مئی 2024 کے دوران وفاقی وزیر برائے نجکاری عبدالعلیم خان نے کہا تھا کہ 830 ارب روپے خسارے والے ادارے پی آئی اے کی نجکاری ملک و قوم کے مفاد میں ہے انھوں نے دعویٰ کیاتھا کہ پی آئی اے کی سعودی عرب کے لیے حج اور عمرے کی پروازیں انتہائی منافع بخش روٹ ہیں۔ اسی طرح یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک کے لیے پی آئی اے کی بلا واسطہ فلائٹس مسافروں کے لیے بہترین آپشن ہو گا۔ لیکن سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی ادارے کی نجکاری کے معاملے میں سب سے بڑا مسئلہ ملازمین کا سامنے آتا ہے۔پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد تقریباً 7 ہزار ہے۔ مثال کے طور پر خریدنے والی کمپنی یہ کہے کہ اسے7 ہزار نہیں بلکہ4 ہزار ملازمین کو رکھنا ہے لیکن آپ یہ شرط رکھیں دیں گے کہ آپ کو پورے 7کے 7 ہزار رکھنے ہیں تو کون سارے ملازمین کا بوجھ اٹھائے گا۔ ‘اس کے علاوہ ٹیکس کی مد میں واجبات کا بھی مسئلہ تھا۔ اس حوالے سے مختلف پارٹیز حکومت سے یقین دہانی چاہتی تھیں کہ اگر مستقبل میں کوئی ٹیکس واجبات سامنے آئیں گے تو وہ اس کی ذمہ داری لیں گے۔ بعض اطلاعات کے مطابق ئی؟پی آئی اے کی فروخت کے لیے بولی میں شامل نہ ہونے والے3گروپوں کے عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ انھیں مستقبل میں حکومت کے اس معاہدے پر پورا اترنے کی صلاحیت کے بارے میں بھی خدشات ہیں۔ واقف حال حلقوں کا کہناہے کہ بلیو ورلڈ سٹی کے مالکانسعد نذیر کے مبینہ طورپر وزیر نجکاری سے قریبی تعلقات ہیں انھیں پتہ تھا کہ حکومت کو اسے بیچنا ہی ہے تو انھوں نے اس لیے اس کی بہت کم قیمت لگائی ،جبکہ پی آئی اے کے لیے بولی جمع کروانے والی ریئل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ کمپنی بلیو ورلڈ سٹی کے سربراہ سعد نذیر کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی نے آئرلینڈ کی ایک کنسلٹنگ کمپنی ‘سائرس ایوی ایشن’ کی خدمات حاصل کی تھیں۔سعد نذیر کا کہنا ہے کہ پی آئی اے پر پر 800 ارب کا قرضہ تھا۔ حکومت نے ایک ہولڈ نگ کمپنی بنا کر 600 ارب کا قرضہ وہاں منتقل کر دیا۔سعد نذیر نے واضح کیا کہ ایک ایسی کمپنی جس کے اثاثے، پی آئی اے اور نجکاری کمیشن کے مطابق 150 ارب روپے کے ہیں، تو ہم نے جب اس کا جائزہ لیا تو ہمیں پتا چلا کہ حقیقت میں ان اثاثوں کی قیمت صرف 10 سے11ارب روپے بنتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ پی آئی اے کی خام خیالی ہے کہ ان کے پاس فضائی روٹس ہیں، یورپی ممالک کے مہنگے روٹس ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ روٹس بند ہو چکے ہیں اور ان کی بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ‘جو بھی پرائیویٹ کمپنی آئے گی اسے پی آئی اے میں بڑی سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ ان کے 20 جہاز اس وقت ورکنگ حالت میں ہونے چاہیے تھے لیکن ان کے سب طیارے مارچ 2025 میں گراؤنڈ ہونے والے ہیں۔ ان کو بھی بحال کرنے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی۔وہ کہتے ہیں ‘ ہم نے اپنے اور ان کے لیے عزت افزا بنانے کے لیے معقول رقم آفر کی ورنہ حقیقیت میں اس کی قیمتاتنی زیادہ نہیں ہے۔انھوں نے اپنے موقف سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کی دلیل یہ ہے مفتاح اسماعیل نے پارلیمنٹ میں یہ بات کی تھی کہ کوئی ایک روپے میں بھی پی آئی اے خرید لے تو ہمیں ہاتھ جوڑ کر انھیں پی آئی اے سونپ دینی چاہیے۔ حکمرانوں کا موقف یہ ہے کہ بلیو ورلڈ سٹی نے اتنی کم بولی اس لیے لگائی کیونکہ ان کے علاوہ کوئی اور خریدار سامنے ہی نہیں آیا(پی آئی اے) کے چھ شارٹ لسٹڈ خریداروں میں سے پانچ نے چپ سادھے رکھی۔عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز نے ان میں سے تین سے چپ سادھ کر الگ ہونے کی وجہ پوچھی تو رازداری کی شرط پر جواب ملا۔ انھیں پی آئی اے کے لیے کیے گئے طویل مدت معاہدوں پر عمل درآمد کرنے کی حکومتی صلاحیت کے حوالے سے خدشات ہیں۔پالیسی کے تسلسل کے حوالے سے بھی تشویش ہے، ان کے بقول موجودہ حکومت کی بقا مختلف سیاسی جماعتوں کے اتحاد اور ان کی حمایت پر منحصر ہے۔ اگلی حکومت سے ان معاہدوں کی پاسداری کے بارے میں انھیں خدشات ہیں۔ یہ ہے انجام اس شاندار ادارے کا جس کا 60 کی دہائی میں ایک عالم میں نام گونجتا تھا، ”باکمال لوگ لاجواب پرواز” جس کا سلوگن تھا۔حقیقت یہ ہے کہ کمرشل ادارے جب تک کمرشل بنیادوں اور مسابقتی انداز میں چلائے جائیں، نئے ٹرینڈ اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ رہیں، وہ ترقی کا سفر طے کرتے رہتے ہیں۔تاہم جب اداروں میں سیاسی مداخلت، کرپشن ،بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کا چلن عام ہو جائے تو ادارے زمین بوس ہوتے دیر نہیں لگتی۔
ایک طرف یہ عالم ہے اور دوسری طرف حکمران ملکوں ملکوں دورے کر رہے ہیں۔ حکومتوں اور نجی سرمایہ کاروں کو دعوت عام دے رہے ہیں کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے جنت ہے، حکومت ہر طرح کی سہولت فراہم کرنے کو تیار ہے، ایم او یوز پر ایم او یوز کیے جا رہے ہیں لیکن نتیجہ ڈھاک کے تین پات نہ سہی لیکن اس سے بہتر بھی نہیں۔حکومت سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نے کم از کم3مرتبہ چین، سعودی عرب، قطر اور عرب امارات سے سرمایہ کاری کے حصول کے لیے دورے کیے، سیمینار منعقد کیے گئے، کانفرنسز برپا کی گئیں، روڈ شوز کیے گئے، تالیوں کی گونج میں درجنوں ایم او یوز کیے گئے لیکن سرمایہ کاری کے اربوں ڈالرز کے اعلانات کی صورت انگریزی محاورے کے مصداق چاروں طرف پانی کی یلغار ہے مگر پینے کو ایک گھونٹ بھی میسر نہیں۔ پی آئی اے کی نج کاری کے عمل سے معروف ملکی سرمایہ کاروں کی علیحدگی اس امر کی غماض ہے کہ کہیں نہ کہیں ”سرمایہ کاری کے جنت ملک ” کے نظام میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جو باکمال لوگوں کو ناہموار پرواز کے سبب شامل پرواز ہونے سے روکے ہوئے ہے۔ ملکی معاشی نظام میں مقامی صنعتی و زرعی پیداوار اور برآمدات کو از سر نو بنیادی اہمیت دیے اور مقامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیے بغیر بیرونی سرمایہ کاری کا خواب شاید ہی شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد 7100 جبکہ یومیہ اجرت پر کام کرنیوالوں کی تعداد 2400 سے زیادہ ہے۔ اگر حکومت پاکستان بلیو ورلڈ سٹی کی پیشکش کو رد کر دیتی ہے تو اس سے صرف پی آئی اے نہیں بلکہ نجکاری کا پورا عمل ہی متاثر ہو گا۔ نجکاری کی طرف حکومت کایہ پہلا بڑا قدم تھا جس کے ذریعے پاکستان کو صرف اپنے ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک کو بھی یہ پیغام دینا تھا کہ ہم نجکاری کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔ ہم نے آئی ایم ایف سے بھی کہا تھا کہ ہم نجکاری کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔ پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے پیداہونے والی اس صورت حال کے سبب اب پی آئی اے ہیں نہیں بلکہ بہت سے دیگر ادراوں کی نجکاری پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔