میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
معاشی استحکام کے دعوے مکمل طورپر درست معلوم نہیں ہوتے

معاشی استحکام کے دعوے مکمل طورپر درست معلوم نہیں ہوتے

منتظم
جمعرات, ۱۹ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے گزشتہ روزاسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ملک کی کہ سیکورٹی اور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کیونکہ وسائل بڑھیں گے تو سیکورٹی معاملات بھی بہتر ہوں گے۔ پریس کانفرنس کے دوران رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ ’پہلی سہ ماہی میں مالیاتی کارکردگی کو منظم اور سرکاری اخراجات کو کافی حد تک کنٹرول کیا گیا ہے۔انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیاکہ ’ملکی برآمدات کو بڑھانے اور درآمدات کو کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں، جس کے نتیجے میںپہلی سہ ماہی کے دوران ملکی برآمدات میں 6 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ پہلی سہ ماہی میں ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ ’پہلی سہ ماہی میں بجٹ خسارہ 324 ارب روپے رہا، براہ راست سرمایہ کاری میں 1.5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، وزیر خزانہ نے پہلی مرتبہ یہ اعتراف کیاکہ ملکی سیکورٹی کے حوالے سے پاک فوج نے بہترین کام کیاہے ،انھوںنے اعتراف کیا کہ ملک کی معیشت بہتر ہوگی اور وسائل بڑھیں گے تو سیکورٹی معاملات بھی بہتر ہوں گے ،وزیرخزانہ نے دعویٰ کیا کہ حکومت پیداوار کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے اور اپنے اخراجات کو مانیٹر کر رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت مہنگائی کی شرح 4.16 فیصد ہے۔ معاشی چیلنجز سے نمٹنے کی پوری کوششیں کر رہے ہیں، 2013 میں حکومت کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہو رہی تھیں لیکن محصولات میں 4 برس میں اضافہ ہوا ہے اور پہلی سہ ماہی میں 765 ارب روپے کے محصولات اکٹھے کیے گئے، فی کس آمدنی 1300 سے بڑھ کر 1632 ڈالر ہوگئی، اقتصادی ترقی کی شرح کو 3.7 سے 5.3 فیصد تک پہنچایا، جبکہ 480 ارب روپے کے گردشی قرضے ادا کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ’عالمی مالیاتی ادارے معیشت کی بہتری کے لیے ہمارے اقدامات کو سراہتے ہیں، اہداف کے حصول کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا ہوگی، زرمبادلہ کے ذخائر میں پریشانی والی کوئی بات نہیں جبکہ نومبر، دسمبر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردیں گے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ’ہم سب کو مل کر پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے اورمیرا ایمان ہے کہ پاکستان عظیم ملک بنے گا۔
ملکی معیشت کے حوالے سے وزیر خزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں جوباتیں کی ہیں اگرچہ ان میں بہت سی باتیں درست ہیں لیکن سرکاری اخراجات میں کنٹرول اور اخراجات کی مانیٹرنگ کے حوالے سے ان کا دعویٰ کوئی بھی ذی ہوش شخص تسلیم نہیں کرے گا کیونکہ یہ بات سب کے سامنے ہے اورخود سرکاری اعدادوشمار سے ثابت ہوتاہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں سرکاری اخراجات خاص طورپر غیر ضروری سرکاری اخراجات میں بے پنا ہ اضافہ ہواہے،ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کے اخراجات 4سال قبل کے مقابلے میں دگنے سے زیادہ ہوچکے ہیں، صرف نا اہل قرار دئے گئے وزیر اعظم کے ذاتی گھر جاتی امرا کی سیکورٹی پر جو رقم خرچ کی جارہی ہے وہ ایک پورے شہرکی سیکورٹی پر خرچ کی جانے والی رقم شہر کے کئی بڑے ہسپتالوںکے مریضوں کودوائوں کی فراہمی، ڈائیلاسز کے اخراجات اور کئی بڑے سرکاری اسکولوں کے طلبہ کوبنیادی سہولتوںپر آنے والے اخراجات کے کم وبیش مساوی ہے۔
وفاقی وزرا،مشیروںاور معاونین کو گاڑیوں کے باقاعدہ بیڑے الاٹ کردئے گئے جن کے صرف پیٹرول اور دیکھ بھال پر جو رقم خرچ ہوتی ہے اس سے کم رقم میں ایک سرکاری ہسپتال اورکئی بڑے اسکولوں کے طلبہ کو تمام بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر آنے والے ماہانہ اخراجات پورے ہوسکتے ہیں۔ایوان صدر کے اخراجات میں گزشتہ 4سال کے دوران جو اضافہ کیاگیاہے صرف اس اضافی رقم سے اس ملک کے سیکڑوں بے سہارا خاندانوں کی دستگیری کی جاسکتی ہے جبکہ ایوان وزیراعظم کے اخراجات میں کئے گئے اضافے کی رقم سے بھی اس ملک کے درجنوں بے گھر لاچار افراد کو سرچھپانے کی مناسب سہولت فرہم کی جاسکتی ہے۔اس صورت حال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وزیر خزانہ کایہ کہنا درست نہیں ہے کہ ’پہلی سہ ماہی میں مالیاتی کارکردگی کو منظم اور سرکاری اخراجات کو کافی حد تک کنٹرول کیا گیا ہے۔اسی طرح وزیر خزانہ کا یہ کہنا بھی درست معلوم نہیں ہوتا کہ مہنگائی کی شرح میں صرف4.16 فیصد اضافہ ہواہے کیونکہ مہنگائی کی شرح6فیصد سے بھی تجاوز کرچکی ہے،بازار میںہر گھر کی روزمردہ کی عام استعمال کی قیمتیں جن میں پیاز اور ٹماٹر سرفہرست ہیں عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں، لیکن ہمارے وزیر خزانہ نہ معلوم کن لوگوں کی فراہم کردہ اطلاعات اور کن اداروں کے جمع کردہ اعدادوشمار کی نیاد پر قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ مہنگائی کا عفریت کنٹرول میں ہے۔
جہاں تک معیشت کے مستحکم ہونے کے حوالے سے ان کے دعووں کاتعلق ہے تو ان کے ان دعووں کی پول ان کی پریس کانفرنس کے فوری بعد موبائل فونز‘ ہوم اپلائنسز‘ کاسمیٹکس سمیت 297 درآمدی اشیا پر 15 فیصد تک ڈیوٹی بڑھانے کے اعلان سے ہی کھل گئی ہے کیونکہ درآمدی اشیا پر ڈیوٹی بڑھانے کا مقصد درآمدی بل کو کم کرکے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے پر روک لگانا بتایاگیاہے ۔ جہاں تک درآمدی اشیا پر ڈیوٹی بڑھانے کاتعلق ہے تو اس کی افادیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہم ان ہی کالموں میں کئی مرتبہ وزیر خزانہ اور امور خزانہ کے ارباب اختیار کو اشیائے تعیش کی درآمد پر مکمل پابندی لگانے کامشورہ دیتے رہے ہیں جسے اب تک بوجود شرف قبولیت نہیں بخشا گیاتھا لیکن اب وزارت خزانہ نے جن اشیا پر ڈیوٹی میں اضافے کااعلان کیاہے ان میں بہت سی اشیا شامل ہیں جو اشیائے تعیش کی فہرست سے نکل کر روزمرہ ضرورت کی اشیا میں شامل ہوچکی ہیں اوران اشیا پر ڈیوٹی بڑھانیسیمہنگائی کا نیا طوفان آجائے گا جس سے براہ متوسط طبقے کے لوگ متاثر ہوں گے کیونکہ ملک کے متمول طبقہ پر اس طرح کے اضافے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاجر برادری نے درآمدی اشیا پر ڈیوٹی میں اضافے کے اعلان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ درآمدی بل میں اضافہ حکومت کی اپنی نااہلی اور ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہوتاہے جس کی سزا عوام کو دینا کسی طور مناسب نہیں۔ تاجروں کابھی یہی کہنا ہے کہ جن 297 اشیا پر ڈیوٹی میں اضافہ کیاگیاہے ان میں زیادہ تر کا تعلق گھریلو استعمال کی اشیا یا روزمرہ استعمال ہونے والی اشیا سے ہے اور ان پر 15 فیصد تک ڈیوٹی بڑھانے کے فیصلے سے مہنگائی کا جو طوفان اٹھے گا اس سے براہ راست عوام متاثر ہوں گے۔ خواص پر اس کا زیادہ اثر نہیں ہو گا۔ اگر حکومت کو اپنا خسارہ یا نقصان پورا کرنا ہے‘ درآمدی بل کم کرنا ہے تو اس کے لییان کے مالیاتی ماہرین جنہیں بھاری مشاہیر پر رکھا جاتا ہے‘ کوئی ایسا منصوبہ یا حل کیوں نہیں تجویز کر تے جس سے عوام پر ناروا بوجھ نہ پڑے۔ ہر دو یا تین ماہ بعد منی بجٹ لانا حکومت نے وطیرہ بنا لیا ہے۔ جس سے پیدا ہونے والی مہنگائی کا عذاب عوام کو جھیلنا پڑتا ہے۔ اب تو کم از کم یہ سلسلہ بند کر دینا چاہئے کیونکہ الیکشن سر پر ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ الیکشن میں عوام اپنا سارا غصہ حکمرانوں پر نکال دیں۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ انہیں مزید تنگ کرنا کسی طور مناسب نہیں۔
امید ہے کہ وزیر خزانہ اور امور خزانہ کے ارباب اختیار اس جانب توجہ دیں گے اوراضافی درآمدی ڈیوٹی میں شامل کی جانے والی ایسی اشیا کو پہلی فرصت میں فہرست سے خارج کیاجائے گا جو کسی بھی طورپر اشیائے تعیش میں شمار نہیں کی جاسکتیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں