میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کراچی کی طرف بڑھنے والے سمندری طوفان اپنا رخ کیوں موڑ لیتے ہیں؟

کراچی کی طرف بڑھنے والے سمندری طوفان اپنا رخ کیوں موڑ لیتے ہیں؟

جرات ڈیسک
پیر, ۱۹ جون ۲۰۲۳

شیئر کریں

٭سنہ 1990 کے بعد سے جتنے بھی سمندری طوفان آئے ہیں وہ کراچی پہنچنے سے قبل ہی اپنا رخ تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے یا کسی کی شدت کراچی سے ٹکرانے سے پہلے بہت زیادہ کم ہوگئی
٭کراچی تین پلیٹس (انڈین، یوروشیا اورعریبین) کی باونڈری پر واقع ہے جو سمندری طوفان کے لیے قدرتی رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔ طوفان کو گھومنے کا موقع نہیں ملتا اور پھر یہ رخ موڑ لیتا ہے
٭اپنے جغرافیے کی وجہ سے کراچی ہر بار محفوظ رہتا ہے،اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر بار یہ پلیٹس اس شہر کو محفوظ رکھ سکتی ہیں، اب قدرتی آفات کا تسلسل ہے، مسلسل طوفان بن رہے ہیں
٭یہ پلیٹس کراچی کے لیے اہمیت اختیار کر گئی ہیں وہیں یہ پاکستان کے لیے بڑے خطرے کا سبب بھی ہیں، پاکستان اور خطے میں زلزلے بھی ان پلیٹس کی ’موومنٹ‘کی وجہ سے آتے ہیں
٭پاکستان تین ’ہائی ایکٹو پلیٹس مارجن‘پر واقع ہے، جس وجہ سے عالمی حدت سے سب سے زیادہ متاثرہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اب زلزلے بھی بہت کم وقفے سے دیکھنے میں آ رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1990 کے بعد سے جتنے بھی سمندری طوفان آئے ہیں وہ کراچی پہنچنے سے قبل ہی اپنا رخ تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے یا کسی کی شدت کراچی سے ٹکرانے سے پہلے اتنی کم ہو گئی کہ شہر محفوظ ہی رہا۔ بحیرہ عرب میں اٹھنے والے حالیہ طوفان بپر جوائے کے حوالے سے بھی یہی باتیں ہورہی تھیں، قیاس لگائے جارہے تھے، پیشگوئیاں ہورہی تھیں کہ اس مرتبہ بھی پوری شدت سے اٹھنے والا یہ طوفان کراچی پہنچتے پہنچتے اپنا اثر کھو بیٹھے گا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اس حوالے سے ماہرین کی آراء بہت اہم ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک اس طرح کے سائیکلون کو روکنے کے لیے دیگر پیشگی اقدامات کے علاوہ ساحل سمندر پر دیوار تعمیر کرتے ہیں تاکہ طوفان اس دیوار سے ٹکرا کر زیادہ نقصان کا باعث نہ بنے۔کراچی تین پلیٹس (انڈین، یوروشیا اورعریبین) کی باؤنڈری پر واقع ہے جو سمندری طوفان کے لیے قدرتی رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔ان پلیٹس کی وجہ سے سمندری طوفان کو گھومنے کا موقع نہیں ملتا اور پھر یہ رخ موڑ لیتا ہے۔ یوں اپنی جغرافیے کی وجہ سے کراچی ہر بار بچ نکلتا ہے ’تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر بار یہ پلیٹس اس شہر کو محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ اب قدرتی آفات کا ایک تسلسل ہے اور کم وقت میں یہ آفات دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ یہ سمندر خود بھی عریبین پلیٹ پر ہی واقع ہے۔ جہاں یہ پلیٹس کراچی کے لیے اہمیت اختیار کر گئی ہیں،وہیں یہ پاکستان کے لیے بڑے خطرے کا سبب بھی ہیں۔‘پاکستان اور خطے میں زلزلے بھی ان پلیٹس کی‘موومنٹ’کی وجہ سے آتے ہیں۔ یوں یہ سب عناصر مل کر قدرتی آفات کے امکانات کو بڑھا دیتے ہیں۔ پاکستان تین‘ہائی ایکٹو پلیٹس مارجن’پر واقع ہے، جس وجہ سے یہ ملک عالمی حدت اور ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ہے۔ ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اب زلزلے بھی بہت کم وقفے سے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان ان پلیٹس کی بہت چھوٹی سی جگہ پر واقع ہے مگر اس کے اثرات پاکستان پر کہیں زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔ ایک طرف پاکستان کو گلیشئرز کے تیزی سے پگھلاؤ جیسی صورتحال کا سامنا ہے جو سیلاب کا سبب بنتے ہیں کیونکہ اس وقت دنیا کی دوسری اور تیسری بڑی چوٹیاں پاکستان میں ہیں اور وہیں یہ صورتحال زلزلوں اور سمندری طوفانوں کو بھی جنم دے رہی ہے۔ پاکستان اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے تیار نظر نہیں آتا اور اس وقت ہمارا انحصار باہر کے ممالک کے ڈیٹا اور تحقیق پر ہی ہے۔ انڈیا نے اس حوالے سے بہت کام کیا ہے اور ان سائیکلون سے نمٹنے سے متعلق میکنزم بہت بہتربنایا ہے۔ماہرین کے مطابق ایسی تمام قدرتی آفات جن کا تعلق پانی سے ہوتا ہے ان کی بنیادی وجہ ٹمپریچر یعنی درجۂ حرارت ہوتا ہے۔ پاکستان میں جون کے مہینے میں سطح سمندر پر درجہ حرارت میں دو سے تین درجہ حرارت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق سادہ الفاظ میں سائیکلون درجہ حرارت اور ہواؤں کے دباؤ کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق درجہ حرارت اگر اس سمندری طوفان کو جنم دیتے ہیں تو پھر ہواؤں کا دباؤ اس کے رخ کا تعین کرتا ہے۔ مئی اور جون میں بحیرہ عرب، شمالی انڈیا اور بے آف بنگال میں یہ سائیکلون بنتے ہیں تاہم ان کے مطابق گزشتہ برس یہ سائیکلون سرے سے بنے ہی نہیں۔ان سمندری طوفانوں کا تعلق‘سپٹراپیکل ونڈ’سے ہوتا ہے۔ ان کے مطابق سطح سمندر، مڈل اور اپر ونڈز ان طوفانوں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جب سمندر کا ٹمپریچر سطح سے لے کر 50 میٹر نیچے تک 26 سے 28 درجے سینٹی گریڈ ہوجاتا ہے تو پھر یہ اس کی علامت ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ اس صورتحال میں زیادہ بخارات بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب مزید اوپر یہ بخارات جاتے ہیں تو گرم ہوا اوپر جا کر ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور یوں‘ڈائیورجنس’شروع ہو جاتی ہے۔ 40 ہزار فٹ بلندی پر جب یہ ہوائیں ہوتی ہیں تو پھر یہ سائیکلون یعنی سمندری طوفان کی وجہ بن جاتی ہیں۔ یہ ایسا ہی جیسے سلنڈر میں ہوا بھرتے رہیں اور پھر وہ اوپر سے مسلسل نکلتی رہے۔سائیکلون کے دورانیے سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق بھی درجہ حرارت سے ہی ہوتا ہے۔ ان کے مطابق جب سائیکلون سست پڑ جائے تو پھر اس کا دورانیہ گھنٹوں سے بڑھ کر کئی دنوں تک ہو جاتا ہے۔ ان کے مطابق بپرجوائے کا دورانیہ بھی بڑھ گیا تھا، جس کی وجہ درجہ حرارت میں کم وقت میں زیادہ تبدیلی ہے۔
اب ہم ذکرکریں گے کراچی میں آنے والے سمندری طوفانوں کی مختصرتاریخ کا۔مئی 1985 میں ایک طوفان کراچی کی جانب بڑھا تھا اور کراچی کے جنوب میں 100 کلومیٹر دور ہی کمزور ہو کر ختم ہو گیا۔نومبر 1993 میں کیٹیگری 1 کا طوفان مڑ کر سندھ و گجرات سرحد کے قریبی ساحل سے ٹکرایا، یہ طوفان کراچی میں صرف بڑے پیمانے بارش کی وجہ بھی بنا۔جون 1998 میں کیٹیگری 3 کا سمندری طوفان کراچی کی جانب آتے آتے جنوبی مشرقی سندھ کی طرف بڑھ گیا، سوائے چند مچھیروں کے کوئی بڑا جانی نقصان نہ ہوا۔مئی 1999 میں کیٹیگری 3 کا سمندری طوفان کراچی کے قریب ٹکرایا، اس سمندری طوفان نے سندھ کے ساحلی علاقوں کو کافی نقصان پہنچایا، یہ پاکستان کا ریکارڈ سخت ترین طوفان تھا۔مئی 2001 میں کیٹگری 3 کا سائیکلون گجرات کے ساحل سے ٹکرایا۔اکتوبر 2004 میں اونیل نامی سائیکلون کراچی اور سندھ کے ساحل کی جانب بڑھا مگر بعد میں سمندر کی طرف واپس مڑ گیا اور کراچی میں بس تیز بارش کا باعث بنا۔جون 2007 کے اوائل میں گونو نامی سپر سائیکلون سے کراچی محفوظ رہا۔ جون 2007 ہی میں، یمین نامی ایک سمندری و ہوائی طوفان کراچی کے قریب سے گزرا۔
نومبر 2009 میں، پھائن نامی سائیکلون پہلے ہی دم توڑ گیا ور اس کی باقیات کراچی سمیت سندھ کے ساحل میں تیز ہواؤں کا باعث بنیں۔جون 2010 میں، پھیٹ نامی سائیکلون جو کیٹیگری 4 کا طوفان تھا، کراچی کے قریب کمزور پڑگیا، البتہ طوفانی ہوائیں کراچی میں پہنچیں۔ اسی سال نومبر میں جل نامی سمندری و بادی طوفان بھی کراچی پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گیا اور اس کی باقیات کی وجہ سے کراچی اور جنوب مشرقی سندھ میں گرد آلود ہواؤں کے ساتھ بوندا باندی ہوئی۔2014 میں نیلوفر نامی سائیکلون کا رخ بھی کراچی کی جانب تھا مگر عین موقع پر اس نے اپنا رخ موڑ لیا اور کراچی ایک مرتبہ پھر سمندری طوفان سے محفوظ رہا۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں