میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
'لوجہاد'کی آڑ میں مسلمانوں کا جینا حرام

'لوجہاد'کی آڑ میں مسلمانوں کا جینا حرام

ویب ڈیسک
پیر, ۱۹ جون ۲۰۲۳

شیئر کریں

معصوم مرادآبادی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام نہاد ‘لوجہاد’ اس وقت فرقہ پرستوں میں تیزی کے ساتھ پھیلنے والاوائرس ہے ۔ملک میں جابجا ‘لوجہاد’کے نام پر مسلم نوجوانوں کا جینا حرام کیا جارہا ہے ۔اسی حوالے سے آج کل بی جے پی اقتدار والی ریاست اتراکھنڈ سرخیوں میں ہے ۔ یہاں مسلم نوجوانوں پرہندو لڑکیوں کو پھنسانے کے جھوٹے الزامات لگاکرایسا ہنگامہ برپا کیا جارہا ہے ، کہ مسلمان اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ تازہ واقعہ اترکاشی کے پرولا قصبہ کا ہے جہاں مسلمانوں کو اپنی دکانیں خالی کرنے اور گاؤں چھوڑنے کی دھمکی دی گئی ہے ۔
ابھی رمضان میں اتراکھنڈ کا ضلع ہلدوانی خبروں میں تھا اور اب اتراکاشی کا پرولا قصبہ سرخیوں میں ہے ، جہاں ایک مسلم نوجوان پر نام نہاد ‘لوجہاد’ کاجھوٹا الزام لگاکر پوری ریاست کے مسلمانوں کو ہراساں کیا جارہا ہے ۔شرپسندوں نے ‘جے شری رام ‘ کے نعروں کے درمیان مسلمانوں کی دکانوں اور تجارتی مراکز پر تباہ کن حملے کیے ہیں۔ اس پورے معاملے میں انتظامیہ کا جھکاؤ شرپسندوں کی طرف ہے اور وہ ان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے مسلمانوں پر ہی شکنجہ کستی ہوئی نظر آرہی ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس چھوٹی سی ریاست کو اب ہندتو کی لیبارٹری بنانے کی تیاری مکمل کرلی گئی ہے ۔ صوبائی وزیراعلیٰ اس وقت یہاں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، اس لیے انھیں ریاست کا نظم ونسق سنبھالنے کی فرصت نہیں ہے ۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ کام انھوں نے ان انتہا پسند تنظیموں کے سپرد کردیا ہے جو شر پھیلانے اور خون تھوکنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتیں۔ بعض اوقات تو ان تنظیموں کی سرگرمیوں اور حوصلوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی مساوی حکومت قائم کرلی ہے ۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایک قصبہ میں ہوئے مبینہ ‘لوجہاد’کے معاملے کو ریاست کے 12 صوبوں تک پھیلادیا گیا ہے اورو ہاں بند کی کال دی گئی ہے ۔یہ وہی اتراکھنڈ ہے جہاں دھرم سنسد میں مسلمانوں کو ٹھکانے لگانے کی دھمکیاں دی جاچکی ہیں۔ سپریم کورٹ پہلے ہی اس معاملے میں ریاستی حکومت کو وارننگ جاری کرچکا ہے ، لیکن اس کے باوجود اتراکھنڈ میں شرپسندوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ۔
شرپسندوں اور فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کے لیے جو بے ہودہ نعرے ایجاد کئے ہیں، ان میں نام نہاد’لوجہاد’ ایک ایسا فضول اور بے معنی نعرہ ہے جس کا کوئی مفہوم کم ازکم ہماری سمجھ میں آج تک نہیں آسکا ہے ۔ بھلا ‘محبت ‘اور’جہاد’ایک ساتھ کیسے جمع ہو سکتے ہیں۔ ہر شے کے ساتھ لفظ ‘جہاد’کو جوڑنے کی ضد درحقیقت مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی ایک منصوبہ بند سازش ہے ۔یہ بے ہودہ نعرہ اس حد تک پھیلادیا گیا ہے کہ گویا مسلم نوجوانوں کے پاس غیرمسلم لڑکیوں سے عشق کرنے کے علاوہ کوئی اور کام ہی نہیں رہ گیا ہے ۔اس کے برعکس آئے دن یہ خبریں آتی رہتی ہیں کہ ہندوانتہا پسند تنظیموں کے نوجوان مسلم لڑکیوں کو اپنے دام میں گرفتار کرکے ان کی زندگیاں برباد کررہے ہیں۔ ایسے کئی واقعات میں لڑکیوں کو موت کے گھاٹ بھی اتارا گیا ہے ۔ آج کل مسلم معاشرے میں اس خطرے کے خلاف بڑے پیمانے پر بیداری مہم چلائی جارہی ہے کہ مسلمان لڑکیاں اپنے لیے جہنم کا سامان پیدا نہ کریں۔ جب اس قسم کے معاملات پولیس اور انتظامیہ کے علم میں لائے جاتے ہیں تو وہ ان پر کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کرتے ۔ اس کے برعکس اگر کہیں کوئی مسلم نوجوان کسی غیرمسلم لڑکی کے ساتھ پایا جاتا ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے ۔اتراکھنڈ میں اترکاشی ضلع کے پرولا قصبے کا معاملہ بھی عجیب وغریب ہے جس میں جتیندرسینی اور عبید خان کی گرفتاری عمل میں آئی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس لڑکی کو بھگانے کا الزام ہے اس کا بجنور کے رہنے والے جتیندر سینی کے ساتھ معاشقہ تھا۔ دونوں دوست اور لڑکی ساتھ میں گھوم رہے تھے ۔ اس میں نام نہاد ‘لوجہاد’کا کوئی پہلو ہی نہیں تھا جس کی بنیاد پراتراکھنڈ کی پوری مسلم آبادی کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔
اس قصبے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی گزشتہ 26/مئی کواس وقت شروع ہوئی جب عبیدخان اور جتیندر سینی پر اکثریتی فرقہ کی ایک لڑکی کو اغواء کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا۔ یہ معاملہ منظرعام پر آنے کے بعد فرقہ پرست عناصر سرگرم ہوگئے ۔انھوں نے اسے نام نہاد ‘لوجہاد’ قرار دیتے ہوئے ماحول میں زہر گھولنے کی بھرپور کوششیں شروع کردیں۔گرچہ اس واقعہ میں دونوں ملزمان جتیندر سینی اور عبیدخان کو 27 مئی کو ہی گرفتار کرلیا گیا تھا، لیکن شرپسندوں نے اس کو بہانہ بناکر کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کئے اور متعدد مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو نشانہ بنایا۔شرپسندوں نے وارننگ دی کہ مسلمان 15جون کو مہا پنچایت سے قبل قصبہ خالی کردیں۔اس سلسلے میں مسلمانوں کی دکانوں پر جو پوسٹر لگائے گئے ان کی زبان انتہائی اشتعال انگیز تھی، لیکن انتظامیہ اور پولیس نے پوسٹر چسپاں کرنے والوں کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی۔ پوسٹر کا مضمون تھالوجہادیوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ /٥١جون کو مہاپنچایت سے قبل وہ اپنی دکانیں خالی کردیں،اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو پھر انھیں وقت پر اس کا پتہ چل جائے گا۔ ان پوسٹروں کے بعد پرولا کے مسلمانوں میں خوف وہراس پھیل گیا۔ پولیس نے پوسٹر چسپاں کرنے والی تنظیم ‘دیوبھومی رکشا ابھیان ‘کے ‘نامعلوم’ افراد کے خلاف ایف آئی آرتو درج کی، لیکن خاطیوں کو گرفت میں نہیں لیا۔ ایک قطعی غیرآئینی پوسٹر کے خلاف انتظامیہ کو سخت کارروائی کرنی چاہئے تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد15جون کی مہا پنچایت تو منسوخ ہوگئی ہے ، لیکن شرپسندوں کے حوصلے ابھی پست نہیں ہوئے ہیں۔
انتظامیہ کی سردمہری کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان خوف وہراس کی حالت میں اپنے مکان اور دکانیں خالی کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ بی جے پی سے وابستہ مسلمان بھی اس سے محفوظ نہیں رہے ۔’دی کوئنٹ ‘کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تیس برسوں سے پرولا میں مقیم محمدزاہد بی جے پی اقلیتی سیل کے صدر ہیں، لیکن موجودہ حالات سے وہ بھی اتنے خوفزدہ ہیں کہ انھیں اپنا گھر بار چھوڑ کر دہرہ دون میں پناہ لینی پڑی ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ سات آٹھ سال سے بی جے پی سے وابستہ ہیں۔وہ حالات کے جبر کی وجہ سے گزشتہ پانچ دن سے اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ دہرہ دون میں مقیم ہیں۔ وہ 26مئی تک پرولا میں کپڑے کی کامیاب تجارت کررہے تھے ، لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر میں بی جے پی کا ضلع صدر ہونے کے باوجود خطرہ محسوس کررہا ہوں تو پھر کون محفوظ ہے ؟زاہد نے اپنے ہندو پڑوسیوں کے رویہ پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے اور ان کے ساتھ دھوکا کیا۔زاہد نے کہا کہ وہ عید پر میرے گھر آتے تھے اور ہم ہولی دیوالی پر ان کے گھرجاتے تھے ۔محمدزاہد نے عہد کیا ہے وہ اب دوبارہ لوٹ کر پرولانہیں جائیں گے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب مقامی ‘پردھان سنگٹھن’ نے انتظامیہ سے بات کرکے پرولا میں مہاپنچایت کا اعلان واپس لیا تو آگ میں گھی ڈالنے کے لیے وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل میدان میں کودپڑے اور انھوں نے بڑھتے ہوئے لوجہاد اور لینڈ جہاد کے واقعات کے خلاف مہاپنچایت کا اعلان کردیا۔مقامی صحافی سنجے سنگھ راوت کا کہنا ہے کہ اترکاشی کا جو پرولا علاقہ ان دنوں جھلس رہا ہے ، وہاں مشنریوں کی سرگرمیوں کے قصے پٹواری، پولیس اور انتظامیہ کے ریکارڈ میں درج ہیں۔ہیٹ اسپیچ کے معاملے میں اتراکھنڈ حکومت کو سپریم کورٹ کی سرزنش کے بعد بھی فرقہ وارانہ تعصب کو ختم کرنے کی بجائے اُکسایا جارہا ہے ۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں