میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اگر اماںؓنے پوچھ لیا....

اگر اماںؓنے پوچھ لیا....

منتظم
پیر, ۳۱ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ندیم الرشید
جمہوریت کے ہنگامے بجا لیکن چند روز پہلے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ جس بات پر برہم ہوگئے تھے وہ بھی اتنی غیر اہم نہیں ہے، تعلیمی اداروں میں رقص و موسیقی پر پابندی کے حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ رقص اور موسیقی ہماری ثقافت کا لازمی حصہ ہے، تعلیمی اداروں میں اس طرح کی سرگرمیوں کی حمایت جاری رکھیں گے، سندھ حکومت پاکستان کے آئین کے مطابق ”ثقافت“ اور ”ورثے“ کے تحفظ کے فروغ پر یقین رکھتی ہے، رقص اور موسیقی ہمارے معاشرے کالازمی حصہ ہے، انتہا پسند عناصر کا ایجنڈا مسلط نہیں ہونے دیں گے۔
محترم وزیر اعلیٰ کے بیان میں سب سے پہلے لفظ ”ہماری“ کی وضاحت ضروری ہے اگر وزیر اعلیٰ سندھ کی ”ہماری ثقافت“ سے مراد”اسلامی ثقافت“ ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ امت کی 14 سو سالہ تاریخ میں ایسے کون کون سے تعلیمی ادارے رہے ہیں جہاں اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو رقص کی تربیت بھی فراہم کی جاتی تھی نیز اُن عظیم اداروں سے نکلنے والی عالم اسلام کی وہ کون کون سی بڑی شخصیات تھیں کہ جو علوم عقلیہ اور نقلیہ پر دسترس کے ساتھ ساتھ ملکی اور غیر ملکی گانوں پر ناچنے کے فن میں بھی مہارت تامہ کی حامل تھیں، کوئی ان کا نام، اسلام کے لیے اُن کی خدمات یا کوئی ایسی تاریخی بنیاد تو ہوگی جس سے اُن کا مسلمانوں کے لیے معیار ہونا ثابت ہوجائے اور ہم فخریہ طور پر کہہ سکیں کہ یہ ہیں عالم اسلام کی وہ عظیم شخصیت جنہوں نے امت کے لیے علم کے ساتھ ساتھ رقص کی روایت کو بھی محفوظ کیا اور یہ ان ہی حضرت کا فیضان اور ترکہ ہے کہ آج 14 سو سال گزرنے کے باوجود ہم اپنی درس گاہوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ”شیلا کی جوانی“ پر تھرکنے اور ناچنے کو بھی حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں، کیونکہ یہ ہماری ثقافت کا لازمی حصہ ہے۔
اور اگر ہماری ثقافت سے واقعتاً سائیں مراد علی شاہ نے ”لبرل“ ثقافت مراد لی ہے، تو پھر عرض یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہمارے بزرگوں کا خون کیا لبرل ازم کے لیے بہا تھا؟ ماﺅں کے تار تار آنچل، بہنوں کی چیخیں، جوانوں کے بے گور و کفن لاشے، بچوں کے روندے ہوئے جسم، بزرگوں کی جلی ہوئی دستاریں، کٹے پھٹے بدن، گولیوں، گالیوں، لاٹھیوں، نیزوں اور تلواروں کے گھاﺅ صرف اور صرف لا الہ الا اللہ کے لیے تھے، یہ سارے زخم سارتر، سینسر، نطشے، فرائیڈ، ہیگل، روسو، کانٹ، فوکالٹ، برٹینڈر رسل، جان لاک اور ہیبر ماس کے فلسفے اور تہذیب کو اپنانے کے لیے نہیں تھے، تحریک پاکستان کوئی انقلاب فرانس کی تحریک نہیں تھی۔ یہ تو اس بات کی تحریک تھی کہ اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں فکر بھی محمدﷺ کی ہوگی، فلسفہ بھی محمدﷺ کا ہوگا، تہذیب بھی محمدﷺ کی ہوگی اور معاشرت بھی محمد ﷺکی ہوگی اور ثقافت بھی محمد ﷺکی ہوگی اور اس اعتبار سے سچا پاکستانی بھی صرف وہی ہوگا جو پہلے محمدﷺ کا غلام ہوگا بعد میں کچھ اور ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں اس قسم کی سرگرمیوں کی حمایت سے ہم کس طرح کے افراد اس ملک کو دینا چاہتے ہیں، تعلیمی اداروں میں ناچ گانے کی تربیت سے کیا ہمارے قومی ہیروز اور آئیڈیلز تبدیل نہیں ہوجائیں گے؟ اگر یہ سب کچھ آزادی کے لیے کیا جارہا ہے تو پھر ناچ گانوں سے تعلیمی اداروں کو آزاد کروانا بھی تو ایک آزادی ہے، کیا وزیر اعلیٰ اس آزادی کی اجازت دے سکتے ہیں؟ اور اگر ان سرگرمیوں کی حمایت ترقی اور معاشرتی خوشحالی کے لیے کی جارہی ہے تو دنیا کا وہ کون سا ملک ہے جو اپنی خوشحالی، ترقی، تحفظ اور بقا کی جنگ طوائفوں اور خواجہ سراﺅں کے زور پر لڑتا ہے؟
ہماری ترقی کا راستہ وہ نہیں ہے جس راستے پر چل کر مغرب نے ترقی کی ہے، قرآن کریم مسلمانوں کے عروج کی بات کرتا ہے۔ ہمارے مسائل کا حل لبرل ازم میں نہیں ہے، اس کے لیے ہمیں قرآن میں موجود عروج و زوال کے فلسفے کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ اس لیے اقبال نے کہا تھا،
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
بانی پاکستان سے بڑھ کر پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کس نے سوچا ہوگا، لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں کہا کہ اس ملک کی ترقی کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم لبرل اور سیکولر ہوجائیں بلکہ 20 اکتوبر 1947 کو لاہور کے یونیورسٹی اسٹیڈیم میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا ”قرآن حکیم کو شمع ہدایت بنائیں اور پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنائیں۔ )صفحہ :297۔The Emergence of Pakistan by Chaudhri Muhammad Ali )
اہل وطن اور ارباب اقتدار کے لیے یہ ہدایت ”بانی¿ پاکستان“ کی طرف سے ہے جسے ”کسی انتہا پسند کا ایجنڈا“ کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا۔
سائیں مراد علی شاہ غیر معمولی شخصیت ہیں کیونکہ وہ آل رسول ہیں اور اُن کی رگوں میں انتہائی پاک خون دوڑ رہا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کے ناناکی امت کی بیٹیاں کل آخرت میں اپنا مقدمہ حضرت فاطمہؓ کی عدالت میں پیش کردیں، اگر حضرت فاطمہؓ نے سندھ کے سید زادے کو پل صراط پر روک کر پوچھ لیا کہ اسکولوں میں اپنی بہنوں ،بیٹیوں کو نچوانے کا حکم تم نے دیا تھا ؟تو پھر سائیں مراد علی شاہ اپنی امّاںؓ کو کیا جواب دیں گے؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں