پیپلزپارٹی حکومت سے ناراض، الیکشن کے لیے تیار
شیئر کریں
اخباری اطلاعات کے مطابق پیپلزپارٹی حکومت سے ناراض ہوگئی ہے اطلاعات مظہرہیں کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے سوات میں خوازہ خیلہ کے مقام پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کو وارننگ دیتے ہوئے کافی سخت سست کہااور وعدے پورے نہ کرنے کے الزامات لگائے،اور کہا کہ اتحادیوں سے کہیں گے کہ تیاری پکڑیں،انتخابات سے خوف نہ کھائیں میدان میں اتریں اور عوام میں اپنی مقبولیت ثابت کریں،عام انتخابات مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں اتحادی ہمت کریں اور الیکشن لڑیں۔مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما طلال چوہدری نے بلاول کا چیلنج قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ن لیگ الیکشن کیلئے تیار ہے، عام انتخابات آزاد کشمیر اور میئر کراچی کے الیکشن کی طرح نہیں ہونے چاہئیں، آزاد کشمیر الیکشن پر ہمارے تحفظات ہیں، میئر کراچی کے الیکشن پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں،ن لیگ الیکشن لڑنے کیلئے تیار ہے بھرپور طریقے سے لڑیں گے،اس کے ساتھ ہی انھوں نے خدشہ ظاہرکیاکہ 2013 کے نتائج دہرائے جاتے نظر آرہے ہیں، انھوں نے کہا کہ بلاول زرداری کا چیلنج قبول کرتے ہیں، صاف و شفاف الیکشن ملک کی ضرورت ہیں،طلال چوہدری ایک زمانے میں مسلم لیگ ن کے فواد چوہدری تھے اور ہر بات میں ٹانگ اڑانا اپناحق تصور کرتے تھے لیکن اب مسلم لیگ ن کے صف اول کے تو کجا دوسری اور تیسری صف کے رہنما بھی ان پر کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ اس لئے ان کی جانب سے بلاول کی جانب سے الیکشن کے چیلنج کو قبول کرنے کی کوئی اہمیت نہیں ہے،اور بلاول کی جانب سے الیکشن کیلئے کمر کسنے اور الیکشن سے خوف نہ کھانے کی تلقین پر وزیراعظم یا مسلم لیگ ن کے کسی صف اول کے رہنما کی جانب سے کوئی جواب دینے سے گریز کے رویہ سے بلاول کے اس الزام کو تقویت ملتی ہے کہ اتحادی حکومت انتخابی میدان میں اترنے سے گھبرارہی ہے اور اسے انتخابات کی صورت میں اقتدار ہاتھ سے نکلتا محسوس ہو رہاہے۔ صورت حال کچھ بھی ہو حقیقت یہ کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے جس کے معنی یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کا ہنی مون اختتام کو پہنچ چکا ہے اوراب پیپلز پارٹی اپنے پرانے حربے کی طرح عام انتخابات سے قبل اتحادی حکومت سے دوری اختیار کرکے ایک مظلوم پارٹی کی حیثیت سے عوام میں جاکر یہ کہنا چاہتی ہے کہ مسلم لیگ ن اور دوسرے اتحادیوں نے اسے کچھ کرنے نہیں دیا یہاں تک کہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی وہ سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے فنڈز حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے،اس بیان بازی سے یہ ظاہرہوتاہے کہ جیسے جیسے انتخابات کا وقت آئے گا ان دونوں پارٹیوں کی راہیں مکمل طور پر جدا بھی ہو سکتی ہیں، یہی نہیں اب خود مسلم لیگ ن میں سے بھی حکومتی پالیسیوں کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں،وزارت خزانہ چھن جانے کے بعد مفتاح اسماعیل پہلے ہی شمشیر برہنہ بنے ہوئے تھے اب سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی مسلم لیگ ن کی پالیسیوں سے اس قدر خائف ہوچکے ہیں کہ انھوں نے حکومت کی اہم کمیٹیوں سے بھی استعفیٰ دیدیا ہے،یہ اختلافات اس قدر شدید نوعیت کے معلوم ہوتے ہیں کہ شہباز شریف اپنی تمام تر مصالحانہ طبیعت کے باوجود ان اختلافات کو ختم کرانے یا کم از کم پارٹی کے اندر ہی محدود رکھنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور انھیں کھل کر کہناپڑا ہے کہ جن لوگوں کو حکومت کے اقدامات سے اختلافات ہیں وہ پارٹی چھوڑ کرچلے جائیں،یہ بات ظاہرہے کہ نہ تو مختلف پارٹیوں اور خود مسلم لیگ ن کے مختلف رہنماؤں کے ملاپ کا کوئی فائدہ عام آدمی کو پہنچا نہ اس جدائی کا فائدہ عام آدمی کو ہوتا نظر آتاہے۔ لیکن شہباز شریف کی جانب سے پارٹی سے اختلاف رکھنے والوں کو پارٹی چھوڑ کر چلے جانے کی دھمکی وقت کے لحاظ سے مناسب معلوم نہیں ہوتی اور اگر ان کی اس دھمکی کے جواب میں اگر واقعی مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے پارٹی چھوڑنے کے فیصلوں کا اعلان شروع کردیاہے تو پھر نواز شریف کیلئے بھی پاکستان واپس آکر پارٹی کے ٹکڑوں کو یکجا کرنا شاید ممکن نہ ہوسکے۔شہباز شریف کو اس طرح کی دھمکیاں دینے سے پہلے بہت کچھ سوچنا چاہئے، شہباز شریف کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ رہاہے کہ ہم پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں، ہم بہتر پاکستان کی سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے بات کرتے رہتے ہیں۔خوش گمانی اور مثبت سوچ تو یہی ہے کہ ہم ملک کے بہتر مستقبل کے لیے بات کریں لیکن کیا مثبت عمل کے بغیر ایسا ممکن ہے، یقینا نہیں ایسا بالکل نہیں۔ ملک کو اگر بہتر ہونا ہے تو سب سے پہلے ملک کے فیصلے کرنے والوں اور حکومت کرنے والوں کو ٹھیک ہونا پڑے گا۔ اگر یہ طبقہ ٹھیک ہی نہ ہوا تو ملک کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے، عام آدمی کے مسائل کیسے حل ہوں گے، قرضوں کا بوجھ کیسے کم ہو گا، مہنگائی کیسے کم ہو گی، بیروزگاری کیسے کم ہو گی، ادویات کی قیمتوں میں کمی کیسے آئے گی۔ جب دو بڑی سیاسی جماعتیں اور وہ دونوں حکومت میں بھی ہوں اور وہ دونوں ایک دوسرے پر الزام عائد کر رہے ہوں اور ملک کی دوسری سب سے پارٹی کے اندر ہی ایسے اختلافات ہوں جنھیں پارٹی کے اندر ہی حل نہ کیا جاسکے تو پھر مسائل حل کیسے ہوں گے۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ خواجہ آصف اپنے ساتھی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے گلہ کررہے ہیں کہ انہیں تنقید پارٹی کے سامنے رکھنی چاہیے نہ کہ میڈیا کے سامنے اور پارٹی کے سربراہ شہباز شریف انھیں پارٹی چھوڑ دینے کی دھمکی دے رہے ہوں تو اصلاح کیسے ہوگی اور پارٹی کو جوڑے رکھنا کیسے ممکن ہوگا۔ وزیر اعظم شہباز شریف خواجہ آصف اور ایسی سوچ رکھنے والے تمام افراد کو سمجھنا چاہیے کہ درست بات کسی بھی سطح پر ہو اس کے لیے جگہ کا انتخاب کرنے کے بجائے مسئلہ حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔