امریکا اور اتحادی ممالک پاکستان کے لیے ڈومور پر توجہ دیں
شیئر کریں
اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی قومی سلامتی کے مشیر میک ماسٹر نے وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات میں پاک امریکہ تعلقات اور خطے کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی ہے، اس ملاقات کے دوران پاک افغان سرحدی معاملات اور تعلقات بھی زیر غور آئے،نئی امریکی حکومت کے آنے کے بعدامریکا اور پاکستان کے درمیان اعلیٰ سطح کا یہ پہلا رابطہ ہے۔ وزیراعظم نے امریکی مشیر کو پاکستان کی سلامتی کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایاکہ ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے وسیع البنیاد اتفاق رائے حاصل کیا گیا اور پاکستان کے اقدامات کو عالمی سطح پر سراہاجارہاہے، وزیر اعظم نے امریکی مشیر کو معاشی شعبے میں پاکستان کی ترقی سے بھی آگاہ کیا اورانہیں بتایا کہ معاشی شعبے میں اہم اسٹرکچرل ریفارمز اور بہتری کے اقدامات کیے گئے ہیں، وزیر اعظم نے امریکی مشیر کو بتایا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ وسیع پیمانے پر تجارتی تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے۔ وزیراعظم نے میک ماسٹر کو ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان کے ساتھ پرامن تعلقات کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے بھی آگاہ کیا۔وزیراعظم ہاو¿س سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق نواز شریف نے امریکی مشیر قومی سلامتی کا خیرمقدم کرتے ہوئے نئی امریکی حکومت کے اقدامات اور کوششوں کو سراہا جس کے نتیجے میں سیکورٹی کی صورتحال میں واضح بہتری سامنے آئی ہے۔ملاقات میں امریکی مشیر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نیک خواہشات کا پیغام بھی وزیراعظم کو پہنچایا، امریکی صدر نے وزیر اعظم کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ روابط کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے، افغانستان میں امن واستحکام اور خطے کی سلامتی کے لیے مل کر کام کرناچاہتے ہیں۔وزیراعظم نواز شریف نے امریکی مشیر سے ملاقات کے دوران افغانستان کی بگڑتی سیکورٹی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یقین دلایا کہ پاکستان افغانستان کے بحران کے حل کے لیے عالمی برادری کے ساتھ ہے، بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر بامعنی مذاکرات چاہتے ہیں۔ امریکی مشیر برائے قومی سلامتی میک ماسٹر نے اس سے قبل مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے بھی ملاقات کی۔ذرائع کے مطابق وزرات خارجہ اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں مشیر خارجہ نے میک ماسٹر کو پاک، بھارت تعلقات، کشمیر میں بھارتی مظالم، پاکستان میں بھارتی مداخلت اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور پاکستان دشمن سرگرمیوں سے بھی آگاہ کیا۔
وزیراعظم نواز شریف نے امریکی مشیر قومی سلامتی کے ساتھ ملاقات میں یہ واضح کرکے کہ پاکستان خطے اور اس سے باہرکے امن اور سلامتی کو فروغ دینے کے لیے نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے اور مضبوط شراکت کا خواہاں ہے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان نامساعد حالات کے باوجود نہ صرف یہ کہ امن وسلامتی سے رہنا چاہتا ہے بلکہ اس پورے خطے کو جنگ کے خطرات سے پاک دیکھنے کا خواہاں ہے کیونکہ جب تک اس خطے میں امن قائم نہیں ہوگا خطے میں واقع کوئی بھی ملک ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔وزیراعظم نواز شریف نے بجاطورپرامریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر کو پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت، بھارتی رہنماﺅں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے تعلقات میں پیداہونے والی خرابیوں اور ان کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں پیداہونے والی کشیدگی اور اس کی وجہ سے اس پورے خطے کے امن کو لاحق خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے یہ بھی واضح کردیاہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا واحد ذریعہ دونوں ملکوں کے درمیان غیر مشروط مذاکرات ہیں جن میں مسئلہ کشمیر سمیت دیگر متنازع معاملات پر بات چیت کی جائے اور دیرینہ مسائل پرامن طورپر حل کرنے کی راہ تلاش کی جائے ۔ وزیر اعظم نے ملاقات کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے حل کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت کا بھی خیرمقدم کیا۔اس موقع پر امریکی مشیر قومی سلامتی نے نواز شریف کو یقین دہانی کرائی کہ نئی امریکی انتظامیہ دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے اور پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ افغانستان سمیت پورے جنوبی ایشیائی خطے میں امن اور استحکام یقینی بنایا جاسکے۔بعد ازاں امریکی قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل ایچ آر میک ماسٹر سے ملاقات کے دوران مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے امریکی مشیر خارجہ پر واضح کیا کہ پاکستان اور امریکا کئی دہائیوں سے دوستی کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اورپاکستان نے ہرآڑے وقت ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر امریکا کاساتھ دیا ہے ۔
امریکی مشیر خارجہ سے ملاقات کے دوران مشیر خارجہ سرتاج عزیزکو امریکی حکام کو یہ باور کراناچاہیے تھا کہ پاکستان صرف امریکی امداد حاصل کرنے کے لیے امریکہ کااتحادی نہیں بنا ہے بلکہ پاکستان نے ہر آڑے وقت اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اور پاکستان کے عوام کی مخالفت کو نظر انداز کرکے امریکا کی مدد اور معاونت کی ہے، امریکا اور دیگر مغربی ممالک کو اس حقیقت سے روگردانی نہیں کرنی چاہیے کہ سیکورٹی اور دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کے سبب ہی نہ صرف یہ کہ خطے میں امن کی جانب پیش رفت ممکن ہوئی ہے بلکہ بڑی حد دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کاخاتمہ ممکن ہواہے ۔امریکا اور دیگر مغربی ممالک کو دہشت گردی اورانتہا پسندی کے خلاف پاکستان کے کردار کااعتراف کرنے کے ساتھ ہی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے پاکستان کے تجربات سے استفادہ کرنے پر توجہ دینی چاہیے اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ کرنے کے لیے پاکستان کی معمول سے ہٹ کر مدد کی جائے،اگر امریکی قومی سلامتی کے مشیر کا یہ کہنا درست ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا چاہتی ہے اور مشترکہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے پاکستانی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرے گی تو انہیں اس حوالے سے اپنی انتظامیہ کو پاکستان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے اور پاکستان سے ڈومور کامطالبہ دہرانے کے بجائے پاکستان کے لیے ڈومور پر توجہ دینی چاہیے ۔ اس وقت جبکہ ننگر ہار پر امریکی حملے سے پہلے ہی خطے میں سرد جنگ دور کی سیاست نیا موڑ لے چکی ہے۔ سرد جنگ کے اتحادی اپنی پوزیشن اور مقاصد بدل کر سرگرم ہو چکے ہیں۔ کھیل کے تمام کھلاڑی افغان سرزمین پر ایک اور سرد جنگ کے لیے تیار ہیں۔امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو پاکستان جیسے مخلص اتحادی کی اشد ضرورت ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو اس ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان کی شکایت کامداوا کرنے اور پاکستان کی اشک شوئی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ پاکستان کو اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے کسی اور طرف دیکھنے اور کسی نئے اتحاد کا حصہ بننے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
توقع کی جاتی ہے کہ امریکی مشیر خارجہ وزیر اعظم نواز شریف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں دی جانے والی بریفنگ اور خطے میں قیام امن، خاص طورپر القاعدہ اور داعش کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرنے کے لیے امداد کی فراہمی کی افادیت پر اپنی حکوت کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔