میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کے ساتھ بھارت کامعاندانہ رویہ

پاکستان کے ساتھ بھارت کامعاندانہ رویہ

منتظم
پیر, ۱۹ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں بھارت میں پاکستانی سفارت کاروں کو ہراساں کرنے کے واقعے پر احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے باور کرایا ہے کہ سفارت کاروں کی سلامتی کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائینگے اورصورت حال میں بہتری کی یقین دہانی کے بغیر پاکستانی سفیر کو واپس بھارت نہیں بھیجا جائے گا، اس کے ساتھ ہی بھارتی حکومت کے معاندانہ رویے اور پاکستان کے سفارتی عملے سے ناروا سلوک کے پیش نظر بھارت میں ہونے والی وزرائے خارجہ کانفرنس میں بھی شرکت سے انکار کردیاہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے پاکستانی ڈپٹی ہائی کمشنر اور ان کے بچوں کی کار کو 40 منٹ تک بلاجواز روکا اور ہراساں کیا گیا۔ پاکستانی ہائی کمیشن نے ملزمان کی تصویریں اور وڈیو بھی فراہم کیں لیکن بھارت نے سفارت کاروں کے تحفظ کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ ایسے واقعات نہ روکنا بھارت کی ناکامی ہے۔ پاکستان کی طرف سے احتجاج کرنے کے باوجود بھارت کی طرف سے سفارتی عملے کو ہراساں کرنے کے واقعات جاری رکھے گئے جو ناقابل برداشت ہونے کے علاوہ ویانا کنونشن اور عالمی سفارتی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

اس امر میں کسی شک وشبہے کی گنجائش نہیں کہ بھارت کا طرز عمل شروع دن سے پاکستان سے معاندانہ ہے۔ ایک طرف ورکنگ بائونڈری پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی بلاجواز شہری آبادی پر فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف بھارتی حکومت نے اسلحے کے ڈھیر لگا کر اپنی اشتعال انگیز کارروائیوں سے خطے کے امن و سلامتی اور استحکام کو خراب کرنا شروع کردیا ہے۔ ترجمان وزارت خارجہ نے بجا طور پر باور کرایا ہے کہ سفارتکاروں کی سلامتی مقدم ہے اور اسکے لیے تمام ممکنہ اقدامات کئے جائینگے۔ پاکستان خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہ سہی لیکن اسے بھارت کی مذموم کوششوں سے آگاہی رکھتے ہوئے اس کی جارحیت کو ناکام بنانے کی تیاریاں جاری رکھنی چاہئیں۔ پاکستان کا مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے ہونیوالی جارحیت اور ظلم و ستم کے خلاف اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے تمام عالمی فورموں پر آواز اٹھانے کا عندیہ خوش آئند ہے۔ بھارت کے جارحانہ عزائم کیخلاف اقوام متحدہ سے رجوع کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ اس فورم پر موثر انداز میں بھارتی عزائم سے اقوام عالم کو آگاہ کیا جائے۔ عالمی برادری کوخطے کے امن و سلامتی اور استحکام و خوشحالی کے خلاف بھارت کی غیر سفارتی جارحانہ کارروائیوں کا نوٹس لینا چاہئے۔

امریکا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے بعد سے پاکستان کے حوالے سے بھارت کی پالیسی میں نمایاں تبدیلی نظر آنا شروع ہوئی ہے ،جس کے نتیجے میںپاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھتی جارہی ہے اور نظر انصاف سے دیکھا جائے تو یہ یکطرفہ ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت طویل عرصے سے کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ کررہاہے جس سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں ۔ کشمیر کی سرحد پر آباد لوگوں میں خوف و ہراس ہے اور متعدد لوگ اپنے کھیت اور مکان چھوڑ کر محفوظ علاقوں کی طرف نکل گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مبصرین کو اگر نظر آئے تو دیکھیں کہ کنٹرول لائن پر کتنے ہی اسکول اور مکان بھارتی گولیوں سے چھلنی ہیں۔ بھارتی فوج کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ گزشتہ دنوں عالمی مبصرین کے گشت کے دوران میں بھی فائرنگ جاری رہی۔ اب کچھ عرصے سے بھارت نے یہ وتیرہ اختیار

کیا ہوا ہے کہ دہلی میں متعین پاکستانی سفارتکاروں کو ہراساں کیا جارہاہے۔ انہیں سڑکوں پر روک لیا جاتا ہے، ان کی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور سفارتکاروں کے بچوں تک کو پریشان کیا جارہاہے۔ خوئے بدرا بہانہ بسیار کے مصداق ہر طرح کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان سے کشیدگی بڑھائی جائے۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہ پوری دنیا اچھی طرح جانتی ہے اور بھارتی رہنمااور فوجی قیادت بھی اس امر سے بے خبر نہیں ہے کہ پاک بھارت کشیدگی میں اضافے سے نہ صرف یہ کہ ان دونوں ملکوں کے عوام کو گوناگوں مسائل اور مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا بلکہ اس کے منفی اور تباہ کن اثرات سے اس خطے کاکوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہ سکے گا۔

بھارتی رہنما یہ صورت حال سمجھنے اور امریکا اور دیگر مغربی ممالک بھارتی رہنمائوں کو اس سے آگاہ کرنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں ،بھارتی رہنمائوں خاص طورپر بھارتی فوج کے سربراہ کی جانب سے پاکستان اور چین کے حوالے سے حالیہ بیانات سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ بھارت کسی اور کے کھونٹے پر اچھل رہا ہے اور طرح طرح سے پاکستان کو اپنے دباؤ میں لانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اس نے اب امریکا پر تکیہ کر رکھا ہے لیکن کیا اسے اندازہ نہیں کہ امریکا کسی کا نہیں، وہ صرف اپنے مفادات کا غلام ہے۔ پڑوسیوں سے اگر اچھے تعلقات نہیں تو کشیدگی سے پاک معمول کے تعلقات تو قائم رکھے جاسکتے ہیں۔ بات صرف پاکستان کی نہیں، بھارت کا ہر پڑوسی اس سے نالاں ہے۔ بھارتی فوج کے سالار دھمکی دے رہے ہیں کہ ہم چین اور پاکستان سے بیک وقت لڑسکتے ہیں۔چین سے 1962کی جنگ میں شکست بھارت ابھی بھولا نہیں ہوگا،جبکہ اب پاکستان بھی ایک ایٹمی طاقت ہے۔ ایٹمی ممالک میں کبھی جنگ ہوئی تو نہیں اور اگر کبھی اس کی نوبت آئی تو ایسے دونوں ممالک ناقابل بیان تباہی سے دو چار ہوں گے۔ پاکستان ہی نہیں چین بھی بڑی ایٹمی طاقت ہے اور اس کی فوج بھارت سے کئی گنا بڑی ہے۔

جہاں تک پاکستان کاتعلق ہے تو پاکستان نے اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر ہر صورت میں بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کی ہے،جس کااندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ پاکستان میں بھارتی سفارتکاروں کو پریشان کرنے کا اب تک کوئی واقعہ نہیں ہوا بلکہ ان کی بڑی آؤ بھگت کی جاتی ہے۔پاکستان میں سفارت کار ہی کیا بھارت سے آنے والے ادیبوں اور شاعروں کا بھی پرجوش استقبال کیا جاتا ہے، ان کا بھی جو پاکستانی سرزمین پر کھڑے ہوکر تقسیم پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔ بھارت میں کوئی فلمی اداکار مرجائے تو اس کا سوگ پاکستان میں منایاجاتا ہے لیکن بھارت میں پاکستانی اداکاروں اورگلوکاروں تک کو ہراساں کیا جاتا ہے۔

بھارت میں پاکستانی سفارت کاروں کوہراساں اور پریشان کرنے کے حوالے سے پاکستانی ترجمان نے بجاطورپر کہاہے کہ بھارت اپنے سیاسی معاملات میں پاکستان کو ملوث نہ کرے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ بھارت میں جب بھی ریاستی یا مرکزی انتخابات ہونے لگتے ہیں تو پاکستان کو زد پر لے لیا جاتا ہے، بھارتی سیاست دانوں کو گمان ہے کہ جو بھی پاکستان کو برا بھلا کہے گا، اس کے خلاف جتنی زیادہ ہرزہ سرائی کرے گا، اپنے ملک میں اتنی ہی مقبولیت حاصل کرے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو کوسنا کامیابی کی ضمانت سمجھ لیا گیا ہے۔ اور اب تو بھارت کے مسلمان شہریوں کے بارے میں بھی یہی نسخہ آزمایا جارہاہے۔ سیاسی کامیابی کے لیے بھارتی مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار کامیابی کا گر سمجھا جاتا ہے۔ نفرت اور تعصب کے اس گھناؤنے ماحول میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت میں بہت زیادہ اضافہ

ہوا ہے خود وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اپنی ریاست گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کرواکر اپنا قد اونچا کیا اور مرکزتک پہنچ گئے۔ پاکستانی ترجمان نے بہت صحیح کہاکہ پاکستانی سفارتکاروں کا تحفظ بہت اہم ہے ہم سمجھتے ہیں کہ شام اور دنیا کے دیگر علاقوں میں جنیوا کنونشن پر عملدرآمد کرنے اور اس کے اصولوں کااحترام کرنے کی دہائی دینے والے جمہوریت اور اصولوں پر عملدرآمد کے عَلم دار اوربھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنوانے کے لیے دنیا بھر میں لابنگ کرنے والے امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کے رہنمائوں کو بھارتی رہنمائوں کے اس طرز عمل کااز خود نوٹس لینا چاہئے اوربھارتی رہنمائوں کو جنیوا کنونشن اور اقوام عالم کے درمیان تعلقات کے بنیادی اصولوں پر عملدرآمد پر مجبور کرنا چاہئے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں