سندھ طاس معاہدے کے تحت پاک بھارت مذاکرات بحال
شیئر کریں
٭بھارتی حکومت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ57 سالہ پرانے اس معاہدہ کو ختم کرنے کی دھمکیاں بھی سامنے آئی تھیں
٭ مذاکرات 20 اور 21 مارچ کو لاہور میںہونگے جس میں دونوں ممالک کے واٹر کمشنرودیگر حکام شرکت کریں گے
٭ انڈس واٹرکمشنرز کا سالانہ اجلاس بھارت نے منسوخ کردیا تھا،عالمی بینک نے دونوں ممالک کو مذاکرات بحال کرنے کی ہدایت کی
٭ پاکستان اور بھارت دونوں ہی نے ورلڈ بینک سے مداخلت کرکے دونوں ملکوں کے درمیان یہ تنازع طے کرانے کی درخواست کی تھی
ابن عماد بن عزیز
بھارت اور پاکستان کے درمیان دو سال سے سندھ طاس معاہدے کے تحت معطل مذاکرات اس ماہ کی 20 اور 21 تاریخ کو لاہور میں ہورہے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان انڈس واٹر کمشنر کی سطح پرہوانے والے مذاکرات مقبوضہ کشمیر میں اڑی سیکٹر میں فوجی اڈے پر حملے کے بعدمعطل کردئے گئے تھے اور ایک بیان میں نریندر مودی نے اشتعال انگیز بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے جسکے بعد بھارتی حکام سندھ طاس معاہدے کے سالانہ اجلاس میں شرکت سے گریز کررہے تھے۔ قبل ازیں پاکستان اور بھارت دونوں ہی نے ورلڈ بینک سے مداخلت کرکے دونوں ملکوں کے درمیان یہ تنازع طے کرانے کی درخواست کی تھی جس پرورلڈ بینک کے صدر نے سندھ طاس معاہدے پر آبی تنازع کے حل کے لیے غیر جانبدار ماہر یا چیئرمین عالمی ثالثی عدالت کی تقرری روکتے ہوئے پاکستان اوربھارت کو جنوری تک کی مہلت دی تھی۔ورلڈ بینک کے صدر جم یانگ کنگ کے مطابق یہ قدم اس لیے اٹھایاگیاتھا کہ دونوں ممالک اس تنازع کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
اس تنازع کے حل کے لیے بھارت نے ورلڈ بینک سے غیر جانبدار ماہر کا تقرر کرنے کی درخواست کی گئی تھی جبکہ پاکستان نے چیئرمین عالمی ثالثی عدالت کے تقرر کی درخواست کی تھی۔ورلڈ بینک کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘ دو ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹس کی تعمیر پربھارت کی جانب سے غیر جانبدار ماہر اور پاکستان کی جانب سے چیئرمین عالمی ثالثی عدالت کی تقرری کو عارضی طور پر روکا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کی جانب سے دی گئیں دونوں درخواستیں ایک ساتھ چل رہی تھیں اور خدشہ تھا کہ ان دونوں درخواستوں کے مختلف نتائج آئیں گے جس سے سندھ طاس معاہدہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔’بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ‘اس عمل کو عارضی طور پر روکنے کا مقصد سندھ طاس معاہدے کو بچانا اوربھارت اور پاکستان کی مدد کی جائے کہ سندھ طاس معاہدے میں رہتے ہوئے متبادل طریقہ کار سے اس آبی تنازع کو حل کیا جائے۔’آبی تنازع کے حل کے لیے غیر جانبدار ماہر یا چیئرمین عالمی ثالثی عدالت کی تقرری کو عارضی طور روکنے کے حوالے سے ورلڈ بینک نے پاکستان اور بھارت کے وزرائے خزانہ کو خط ارسال کیے تھے۔ورلڈ بینک نے غیر جانبدار ماہر اور چیئرمین عالمی ثالثی عدالت کی تقرریوں کا اعلان 12 دسمبر کو کرنا تھا لیکن ان تقرریوں کی بجائے دونوں ممالک کو آبی تنازع حل کرنے کے لیے مہلت دی گئی تھی۔ ان خطوط میں کہا گیا تھا کہ ورلڈ بینک یہ قدم سندھ طاس معاہدے کو بچانے کے لیے اٹھا رہا ہے۔ورلڈ بینک گروپ کے صدر جم یانگ کنگ کا کہناتھا کہ ‘یہ دونوں ممالک کے لیے ایک موقع ہے کہ اس مسئلے کو مفاہمت سے اور سندھ طاس معاہدے کی روح کے مطابق حل کر سکیں۔ بجائے اس کے کہ دونوں ممالک مختلف راستے اختیار کریں جس سے وقت گزرنے کے ساتھ یہ معاہدہ ناقابل عمل ہو جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ دونوں ممالک یہ مسئلہ جنوری کے آخر تک حل کر لیں گے۔’انڈیا دریائے نیلم کے پانی پر 330 میگاواٹ کشن گنگا اور دریائے چناب کے پانی پر 850 میگا واٹ رتلے پن بجلی منصوبہ تعمیر کر رہا ہے۔ ان دونوں منصوبوں کو ورلڈ بینک فنڈ نہیں کر رہا۔ 1960 میں طے پانے والے اس معاہدے کے تحت بھارت کو مشرفی دریاو¿ں یعنی ستلج، راوی اور بیاس جبکہ پاکستان کو مغربی دریاو¿ں جہلم، چناب اور سندھ کو استعمال کرنے کے حقوق دیے گئے تھے۔دنیا بھر میں پانی کے ذخائر تقسیم کرنے کے معاہدوں میں سندھ طاس معاہدے کو ایک بہترین مثال تصور کیا جاتا رہا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان متعدد بار سیاسی کشیدگی کے باوجود بھی کسی ملک نے اس معاہدے کو منسوخ نہیں کیا۔پاکستان اور بھارت کے درمیان ستاون سال پرانے سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے انڈس واٹر کمشنر کے درمیان سال میں ایک ملاقات ہونا لازمی ہے، لیکن ستمبر 2016 میں بھارت نے اڑی کے فوجی اڈے پر دہشت گردوں کے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے اس معاہدے کے تحت ہونے والے مذاکرات کے عمل کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر آصف بیگ مرزا کا کہناہے کہ آخری مرتبہ ان کے اور بھارت کے واٹر کمشنر کے درمیان مئی 2015 میں ملاقات ہوئی تھی۔اڑی حملے کے بعد ستمبر 2016 میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی زیرِ صدرات ہونے والے ایک اہم اجلاس میں پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کے تحت ہونے والے مذاکرات کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس اہم اجلاس میں بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے بھی شرکت کی تھی۔اس وقت نریندر مودی کی طرف سے یہ بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ‘خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔’ بھارتی حکومت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ57 سالہ پرانے اس معاہدہ کو ختم کرنے کی دھمکیاں بھی سامنے آئی تھیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے نے بھارتی حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ بھارت نے حالیہ مہینوں میں مقبوضہ کشمیر میں6 ہائیڈرو پاور منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کر دی ہے اور ان منصوبوں کی مجموعی مالیت 15ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔، ان منصوبوں میں سب سے بڑا منصوبہ 1856 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا سوالکوٹ پلانٹ بھی شامل ہے۔روائٹرز سے بات کرتے ہوئے بھارتی وزارتِ بجلی کے ایک اعلی اہلکار پردیپ کمار پجاری کاکہناتھا کہ یہ خالصتاً بجلی پیدا کرنے کا منصوبے نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان منصوبوں کی نوعیت دفاعی اور سرحدی انتظام جیسے اہم معاملات سے بھی ہے اور ان سب معاملات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی پیسہ مختص کیا جاتا ہے۔پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر آصف بیگ مرزا نے کہا کہ20-21 مارچ کو ہونے والے مذاکرات میں وہ بھارت کے انڈس واٹر کمشنر سے ان منصوبوں کی تفصیلات طلب کریں گے اور اس کے بعد ہی اپنے موقف کا اظہار کریں گے۔ روائٹر نیوز ایجنسی نے پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کے حوالے سے کہا ہے کہ ‘لگتا ہے کہ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی اہمیت کا احساس ہو گیا ہے اور اسی وجہ سے اس نے مذاکرات کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔’ان منصوبوں سے بھارت کو دریائے چناب سے حاصل ہونے والی بجلی کی مجموعی پیداوار دگنی ہو جائے گی۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں چناب پر ہائیڈور پاور پراجیکٹس سے بھارت3 ہزار میگا واٹ بجلی حاصل کر رہا ہے۔امریکی سینیٹ کی امور خارجہ کی کمیٹی نے 2011میں اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ بھارت ان منصوبوں کے ذریعے ان دریاﺅں سے پاکستان کو حاصل ہونے والے پانی کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ ان منصوبوں کا مجموعی نتیجہ یہ نکلے گا کہ پاکستان کو جانے والا پانی روک کر بھارت ذخیرہ کر سکے گا اور پاکستان کی زرعی پیداوار کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔اس دھماکہ خیز اور خطرناک صورتحال میں دونوں ملکوں کا ایک دفعہ پھر مذاکرات کی میز پر واپس آنے کافیصلہ خو ش آئند ہے اگرچہ بھارتی رہنماﺅں کی ماضی کی ہٹ دھرمی پر مبنی حرکتوں کی بنیاد پرلاہور میں ہونے والے مجوزہ مذاکرات سے کسی بہتری یا اس مسئلے کے حل کی جانب کسی پیش رفت کی امید نہیں کی جاسکتی لیکن اس دھماکہ خیز ماحول میں دونوں ملکوں کے اعلیٰ حکام کا ایک میز پر جمع ہوجانابھی ایک بڑی پیش رفت سے کم نہیں ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتیں بھارتی رہنماﺅںکو پانی کے اس نازک مسئلے پر سنجیدہ اور مفاہمانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کریں گی ۔
٭٭٭