عدلیہ کے خلا ف ہرزہ سرائی پر پابندی عاید کی جائے!
شیئر کریں
سپریم کورٹ سے نااہل قراردیے گئے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ لودھراں کے عوام نے ثابت کردیا کہ فیصلے امپائر کی انگلی نہیں عوام کے انگوٹھے کرتے ہیں۔لودھراں میں مسلم لیگ (ن) کے ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ 1985 سے عوام کی خدمت کررہا ہوں، میرے بعد شہباز شریف نے جو خدمت کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ میں اب وزیر اعظم نہیں رہا ، مجھے نکال دیا گیا ہے، مجھ پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا، مجھے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نکالا گیا۔ عوام کو آئندہ انتخابات میں بڑے فیصلے کرنے ہیں، اس ملک میں گزشتہ 70 برس سے جو کچھ ہوتا آیا ہے اسے بدلنا ہے، ووٹ کے تقدس کی حفاظت کرنی ہے۔نواز شریف نے کہا کہ لودھراں کے عوام نے جھوٹ بولنے والوں کو رد کردیا، لودھراں کے عوام کا فیصلہ آج ہر جگہ گونج رہا ہے، 2018 کے انتخابات میں ملک کا ہر حلقہ لودھراں بن جائے گا، لاڈلا کہتا ہے کہ لودھراں سے سبق سیکھیں گے، وہ خود سبق نہیں سیکھے گا قوم اسے سبق سکھائے گی۔نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ مجھ پر ایک روپے کی رشوت کا الزام نہیں ہے لیکن کچھ نہ ملا تو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر فارغ کردیا، ایسا فیصلہ دنیا میں کہیں نہیں سنا۔نواز شریف نے کہا کہ آنے والے انتخابات میں بڑے فیصلے کرنے ہیں اور اپنے ووٹ کی حرمت اور تقدس کی حفاظت کرنی ہے۔ میں آپ کو اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ (ن) لیگ جیتے گی اور غریبوں کو دروازے کی دہلیز تک انصاف ملے گا۔
دوسری جانب چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر تنقید کرنے والے قوم و ملک کی خدمت نہیں کررہے بلکہ اداروں کو کمزور کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ عمران خان نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ عوامی عدالت سے رجوع کرنے کی آڑ میں عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے شریف باپ اور بیٹی کی جانب سے ریلی کے نام پر رچایا جانے والا تماشا اب بند ہونا چاہیے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں عوام ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں مگر انصاف کی فراہمی عدلیہ ہی کی ذمے ہے۔
جبکہ وزیر داخلہ احسن اقبال نے نواز شریف ان کی لاڈلی بیٹی مریم نواز اور بعض دیگر وزرا کی جانب سے عدلیہ پر کڑی تنقید کی حمایت کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہم سپریم کورٹ یا ججز پر تنقید نہیں کرتے لیکن فیصلوں پر تنقید کرنا تو ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے۔لاہور میں انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹنٹ کے زیر اہتمام سیمینار سے اظہار خیال کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ہم نے نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے پر عمل درآمد کردیا، اب فیصلے کے میرٹ پر بات کی جاسکتی ہے،انھوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت ٹیک اوور کی پوزیشن میں ہے لیکن ملک میںسیاسی عدم استحکام پھیلانے کی کوشش ہورہی ہے، سب کو اپنے کردار کی طرف دیکھناہے کہ ہم سیاسی عدم استحکام کاباعث تو نہیں بن رہے۔
اس وقت عدالت عظمیٰ اور نا اہل وزیر اعظم نواز شریف میں مناظرے کی سی کیفیت نظر آرہی ہے۔ بیچ بیچ میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز بھی اپنا حصہ ڈالتی رہتی ہیں اور اپنے والد کی ترجمان بن کر ججوں کو لتاڑتی رہتی ہیں اگر نواز شریف کی طرف سے کچھ کسر رہ جاتی ہے تو وہ پوری کردیتی ہیں۔ توہین عدالت کھلم کھلا ہو رہی ہے اور چیف جسٹس کے مطابق عدالت تحمل سے کام لے رہی ہے۔کچھ اور بھی ایسے ہیں جو بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں اور اگروہ توہین عدالت کے دائرے میں آگئے تو آئندہ انتخابات میںان کی شمولیت مشکوک ہوجائے گی مریم نواز کے پاس فی الوقت کوئی عوامی عہدہ نہیں ہے تاہم وہ اپنے سیاسی مستقبل کے لیے بھرپور تیاری کررہی ہیں اور نواز شریف کو نا اہل قرار دیے جانے سے انہیں بڑے زور و شور سے سیاست میں آنے کا موقع مل گیا ہے لیکن انھوں نے جو طریقہ کار اختیار کیاہے وہ شائستگی اور تدبر سے کوسوں دور ہے جس کی وجہ سے یہ اندیشہ پیداہوچلاہے کہ کہیں عدالتوں اور ججوں کے خلاف ان کی شوریدہ سری یہ موقع ضائع نہ کردے۔ دوسری طرف گزشتہ جمعرات کو انتخابی اصلاحات ایکٹ سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے محترم چیف جسٹس نے ایک بار پھر تبصرہ کیا ہے کہ کوئی چور ڈاکو پارٹی کا سربراہ بن جائے تو اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ سربراہ آلودہ ہو تو پوری پارٹی آلودہ ہو جاتی ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ آئین کے محافظ کے طور پر دیکھنا ہے کہ کہیں کوئی چور اچکا کسی جماعت کا سربراہ نہ بن جائے، جس صورت حال کا سامنا ہے اس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ اصولاً تو جناب چیف جسٹس کی بات صحیح ہے کہ کوئی چور، ڈاکو کسی پارٹی کا سربراہ بن جائے تو پوری پارٹی ہی آلودہ ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پارٹی کے ارکان بھی اپنے سربراہ کے نقش قدم پر چلیں گے۔ جیسا امام ویسے مقتدی۔ لیکن نواز شریف اوران کی صاحبزادی نے ان ریمارکس کابہت برا منایاہے اور اب وہ ان کو عوام کے سامنے سیاق وسباق کے بغیر پیش کرکے خود کومظلوم ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیںاور عوام کے سامنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں عدالت عظمیٰ مجھے نااہل کرنے کے بعد اب مجھے پارٹی صدارت سے ہٹانا چاہتے ہیںجبکہ عدالت کایہ کہنا اپنی جگہ بجا ہے کہ آئین کے محافظ کے طور پر یہ اس کی ذمے داری ہے۔ نواز شریف اب اپنے جلسوں اورریلیوں میں عدالتی فیصلے کے خلاف عوامی جذبات ابھارنے کے لیے بڑی تکرار کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک آمر سے حلف لے کر غداری کرنے والے جج اب ہمیں اخلاقیات کا درس دیں گے؟ دراصل نواز شریف کو کافی عرصے بعد پی سی او ججوں کا خیال آیا جبکہ ساڑھے چار سال تک وہ انہی ججوں سے اخلاقیات کا درس لیتے رہے۔ اب ایک نااہل شخص ججوں کو نااہل قرار دے رہا ہے لیکن میاں نواز شریف یہ بھول گئے کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے میاں صاحب سڑکوں پر نکل آئے تھے اور ایک طویل جلوس نکالا تھا اس وقت انہیں پی سی او اور اس کے تحت حلف اٹھانے والوں سے کوئی اختلاف نہیں تھا۔نااہل قرار دیے جانے پر انہیں سب کچھ یاد آرہا ہے۔ عدالت عظمیٰ پر حملہ بھی انھیں ضرور یاد ہوگا۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ ان کو اصل تکلیف یہ ہے کہ ان کو نااہل کیوں قرار دیاگیا۔ ایسا نہ ہوتا تو سب معاملات ٹھیک تھے۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ ججوں اور عمران خان کی زبان میں کیا فرق رہ گیا؟ بلاشبہ عمران خان بھی بولنے کی حد تک شائستگی کی تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں لیکن خود میاں صاحب اور ان کا ٹولہ جو زبان استعمال کررہا ہے کیا وہ عمران خان سے بڑھ کر نہیں۔ عدالت عظمیٰ کا یہ کہنا بجا ہے کہ ایسی صورت حال کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مناظرہ اب ختم کیا جائے، معزز ترین ججوں کو اپنا وقار قائم رکھنے کے لیے عام جلسوں اورریلیوں میں جج صاحبان کے خلاف اس طرح الزامات لگانے اورہرزہ سرائی کی نشر واشاعت پر فوری پابندی عاید کردینی چاہئے تاکہ عوام کے ذہنوں کوعدلیہ کی جانب سے بدظن کرنے کی کوششوں کولگام مل سکے۔