میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
غنڈہ گردی کرنے والے  وکلا کوسزائیں ملنی چاہئیں

غنڈہ گردی کرنے والے وکلا کوسزائیں ملنی چاہئیں

منتظم
پیر, ۱۸ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

ملتان میں وکلانے عدالتوں کی نیو جوڈیشل کمپلیکس منتقلی اور سہولتوں کی عدم فراہمی پر عدالتوں پر دھاوا بول دیا‘ سیکڑوں وکلانے عدالتوں میں توڑپھوڑ کی اور شدید نعرے بازی کرتے ر ہے جس کی وجہ سے ججوں کو عدالتیں چھوڑ کر جانے پر مجبور ہونا پڑا، جبکہ نئی کچہری میدان جنگ کا منظرپیش کرنے لگی۔ملتان میں وکلاگردی کا یہ اپنی نوعیت کاپہلا مظاہرہ نہیں ہے بلکہ خود کو تعلیم یافتہ ،مہذب اور قانون کارکھوالا کہنے والے وکلا اس سے پہلے بھی کسی اور کے اکسانے اور کہنے پر نہیں بلکہ خود ملتان بار کے صدر کی قیادت میں عدلیہ پر حملہ کرچکے ہیں جس میں معز زجج کو بھی محصور کر دیا گیا تھا،وکلا کی اس لاقانونیت اورمبینہ غنڈہ گردی کے پیش نظر ہی جوڈیشل کمپلیکس کو دوسری جگہ منتقل کیا گیا تھا۔ اس مرتبہ وکلاکا اعتراض یہ تھا کہ کمپلیکس جنگل میں بنا دیا گیا جہاں سہولتوں کا فقدان ہے،یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ جوڈیشل کمپلیکس راتوں رات تو بنایانہیں گیا جب جوڈیشل کمپلیکس کے لیے اس جگہ کاانتخاب کیاگیاتھا یا جب اس کاسنگ بنیاد رکھا جارہاتھا اس وقت گزشتہ روز آپے اور جامے سے باہر ہونے والے یہ وکلا اور ان کے منتخب نمائندے کہاں تھے اس وقت انھوں نے اس پر اعتراض کیوں نہیں کیاتھا اور یہ کیوں نہیں کہاتھا کہ اس جگہ وکلا اپنے فرائض احسن طورپر انجام نہیں دے سکیں گے ، اس وقت تو وکلا اور ان کے نمائندے تالیاں بجا کر حکومت کے اس فیصلے کی تعریف کررہے تھے ،اب جب لاکھوں روپے کی لاگت سے یہ کمپلیکس تیار ہوچکاہے تو انھیں اس میں خامیاں نظر آنے لگیں،اگر بالفرض محال یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ موجودہ جوڈیشل کمپلیکس میں وکلا کو وہ سہولتیں حاصل نہیں ہیں جو ہونا چاہیے تھیں یا جو وکلا کاحق ہے تو بھی اس پر ردعمل کایہ انداز کسی طورپر بھی کسی تعلیم یافتہ اور مہذب گروپ اور خاص طورپر خود کو قانون کا رکھوالا اور نگہبان کہنے والوں کو کسی طرح زیب نہیں دیتا اور یہ کسی بھی طرح مناسب نہیں کہ سہولتوں کامطالبہ کرتے ہوئے وہ سہولتیں بھی غارت کردی جائیں جو فی الوقت میسر ہوں۔اور کھلی غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوڈیشل کمپلیکس پر دھاوا بول کر اسے تہس نہس کردیاجائے، دروازے ، شیشے ، کھڑکیاں اور فرنیچر ،سب توڑ پھوڑ دیا جائے۔
جوڈیشل کمپلیکس میں توڑ پھوڑ اور تباہی مچانے والے کالے کوٹ والے اگر اپنے کرتوت کی ویڈیو دیکھ لیں کہ کالے کوٹ والے کس جوش و خروش سے تباہی پھیلانے میں مصروف تھے جیسے کسی دشمن کے علاقے پر حملہ کر رہے ہوںتو شاید وہ خود بھی آئینے میں اپنی شکل دیکھنے کو روادار نہ رہیں، کالے کوٹ والوں کی اس غنڈہ گردی کی وجہ سے عدالتی کام بند ہو گیا،اس ضمن میں موقع پر موجود پولیس نے انتہائی تدبر اورتحمل کامظاہرہ کیا اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی،اس طرح وکلا کو پولیس پر زیادتی کرنے اور اس کے ردعمل میں توڑ پھوڑ کرنے کا جواز بھی نہیں مل سکا اور انھیں الزامات کے پیچھے چھپنے کاکوئی موقع بنہیں مل سکا ۔ وکیل عدلیہ کا لازمی حصہ اور قانون کے نفاذ کے عمل میں شریک ہوتے ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اب قانون کے رکھوالے کاکردار ادا کرنے والے وکلا خود ہی قانون شکنی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔و کیلوں نے بھی ایک جتھے کی صورت اختیار کر لی ہے اور عددی طاقت کے بل پر من مانی کرتے ہیں۔ا س واقعے پر پنجاب کے و زیر قانون رانا ثنا اللہ نے مذمت کرنے کے بجائے طنز سے کام لیا اور فرمایا کہ ’’ پنڈی دھرنے میں ریاست نے معاہدہ کیا ‘اب کسی کو کیا کہہ سکتے ہیں‘‘۔ مزید فرمایا کہ وکلاکے احتجاج پر حیرانی کیسی ‘ امید ہے ان سے بھی کوئی معاہدہ طے پا جائے گا۔ موصوف وزیر قانون کہلاتے ہیں اور ان کا اشارہ فیض آباد دھرنے کی طرف ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی اور دھرنے میں رانا ثنا اللہ کے استعفے کے مطالبے سے پوری ن لیگ برہم ہے اور کسی نہ کسی بہانے جلے دل کے پھپھولے پھوڑتی رہتی ہے۔ رانا ثنا اللہ نے بالواسطہ طور پر وکلاگردی کی حمایت کی ہے ، وزیر قانون کی حیثیت سے انہیں ان قانون شکنوں کو لگام دینی چاہیے تھی۔ اگر ان کے بقول فوج ہی معاہدے کراتی رہی توکہیں ایسا نہ ہو کہ فوج بغیر کسی معاہدے کے ایک بار پھر اقتدار میں آ جائے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ن لیگ کی خواہش بھی یہی ہے کہ وہ سیاسی شہید کہلائے۔ رانا ثنا اللہ نے مزید فرمایا کہ ہم وکلاکے ساتھ مذاکرات کریں گے اور امید ہے کہ مذاکرات کے دوران ان سے بھی تیسرے فریق کے ذریعے کوئی معاہدہ ہو جائے۔ جس کو بھی اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج کرنا ہے ، کرے کیونکہ اب مذاکرات نہیں معاہدے ہوا کریں گے۔ یہ پنجاب کے وزیر قانون ہی تھے جنہوں نے تحریک لبیک کے کارکنوں کو فیض آباد تک جانے کی اجازت دی تھی اور اس سے تیسرے فریق کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملتان نے غنڈہ گردی کرنے والے وکلاکے حق میں بیان دیا ہے کہ ایسا کام کوئی وکیل نہیں کر سکتا۔ لیکن ٹی وی چینلز پر جو کالے کوٹ والے توڑ پھوڑ کر رہے تھے ، وہ کون تھے؟ وہ صاف پہچانے جارہے ہیں ، ان کو پکڑیے۔صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن شیر زمان قریشی کی قیادت میں سیکڑوں وکلابسوں کے ذریعے ضلع کچہری سے نیو جوڈیشل کمپلیکس پہنچے تھے۔صدر بار کی قیادت میں پہلے بھی ایک فاضل جج کے ساتھ توہین آمیز رویئے کا ارتکاب کیا گیا تھا جس سے بار اور بنچ کے مابین پیدا ہونیوالی کشیدگی کے اثرات ابھی تک نظر آ رہے ہیں۔ وکلامعاشرے کا تعلیم یافتہ طبقہ ہے۔ جوڈیشل کمپلیکس میں اگر سہولتوں کا فقدان ہے تو سہولتوں کی فراہمی کے لیے اینٹیں پتھر اور لاٹھیاں اٹھانے کا کیا جواز ہے۔ عدلیہ کی ایک پوری چین ہے۔ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان تک اپنی شکایت پہنچائی جا سکتی ہے۔ اْدھر وزیر قانون رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ وکلا کا موقف درست ہے۔ آجکل احتجاج کے بعد ہی مطالبات پورے ہوتے ہیں۔ پولیس کو ہدایت کی گئی ہے کہ وکلاکی منت سماجت کرے۔ رانا ثنااللہ بڑے صوبے کے وزیر قانون ہیں کسی پسماندہ علاقے کے ڈیرہ دار اور پنچ نہیں۔ ان کا بیان وکلا کوانارکی پھیلانے کی شہہ دینے کے مترادف ہے۔ اداروں کے ساتھ ان کے سوتنوں جیسے رویئے اور طعنہ زنی سے مسلم لیگ ن اور اس کی حکومت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ اپنے وزیر قانون کے فرمودات کانوٹس لیتے ہوئے کسی جانب سے مزید کسی احتجاج اورمطالبے کے بغیر ہی ان کو اس اہم منصب سے فارغ کرنے میں اب مزید لیت لعل سے کام نہیں لیں گے اور جوڈیشنل کمپلیکس میں توڑ پھوڑ کرنے اور قانون ہاتھ میں لینے والے وکلا کو ویڈیو فوٹیج کے ذریعے گرفتار کرکے اسی طرح قانون کے کٹہرے میں لایاجائے گا جس طرح کراچی میں 22اگست کو ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی ملک دشمن تقریر پر توڑ پھوڑ کرنے والے کارکنوں کو قانون کے کٹہرے میں لایاگیاتھا۔جب تک وکلا کے ساتھ اس ملک کے عام شہریوں جیسا سلوک نہیں کیاجائے گا اور ان کو سختی کے ساتھ یہ باور نہیں کرایاجائے گا کہ قانون کا اطلاق ان پر بھی اسی سختی کے ساتھ کیاجائے گا جتنا کہ دوسرے شہریوں کے ساتھ کیاجاتاہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ویڈیو فوٹیج کے ذریعے جو وکلا توڑ پھوڑ میں ملوث پائے جائیں ان کے لائسنس منسوخ کیے جائیں اور انھیں عدالتوں میں کالے کوٹ پہن کر آنے اور کسی بھی طرح کے مقدمات کی پیروی سے فوری طوپر روک دیاجائے کیونکہ جن لوگوں کے نزدیک ملک کے قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہے انھیں اس قانون سے کھیلنے کی کوئی چھوٹ نہیں ملنی چاہئے ، جب ایک دفعہ درجن دو درجن وکلا کو وکالت سے نااہل قرار دیاجائے گا تو پھر ان کوہوش آجائے گا اور وہ عدلیہ کے بل بوتے پر غنڈہ کردی کرنے اورقانون ہاتھ میں لینے سے پہلے سوچنے پر مجبور ہوں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں