”وہ جاگتا نہیں تھا یہ سوتا نہیں“وزیراعلیٰ کے اعلیٰ فیصلے‘رات دن گشت اور بیدار مغزی
شیئر کریں
سرشام کاروبار بند کرنے کی روایت قدیم ہے آج بھی آدھا کراچی بند ہوتا ہے
جعلی اور دونمبر ی مال بیچنے والے رات گئے تک کاروبار کرنا چاہتے ہیں
رپورٹ وتجزیہ:خالد شکیل
سندھ حکومت نے یکم نومبر سے کراچی میں مارکیٹیں شام 7بجے اور شادی ہالز رات 10بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ بعض تاجر تنظیموں نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ان کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے دوٹوک لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو شام 7بجے مارکیٹیں بند کرکے دکھاﺅں گا!جبکہ ایک تاجر رہنما نے کہا ہے کہ ہڑتال ودھرنے اور جیل سب کے لیے تیار ہیں مگر حکومت کو سرشام مارکیٹیں بند نہیں کرنے دیں گے۔ اس تنازعہ میں جیت کس کی ہوگی؟ اس کا حتمی فیصلہ تو یکم نومبر کو ہی ہوگا۔ مگر یہاں کراچی کے نئے باشندوں اور 30سال تک کی عمر کے لوگوں کی آگہی کے لیے جنہوں نے رات گئے کراچی بند ہوتے نہیں دیکھا تفصیلی طورپر بتانا ضروری ہے کہ عروس البلاد کراچی زمانہ قدیم سے کاروباری اوقات کی پابندی کرتا تھا۔ 40سال پہلے تک اوقات کار کی بلاچوں چرا پابندی شائد اس لیے بھی کی جاتی تھی کہ دیگر شعبوں کی طرح تجارت پر بھی مافیا کا قبضہ نہیں تھا نہ سیاسی پشت پناہی تجارتی تنظیموں کو حاصل تھی بازار کھولنے بند کرنے کا میکنازم دہشت گردوں کے ہاتھوں میں نہیں آیا تھا۔ حکومت کی رٹ مکمل طورپر یہاں بھی قائم تھی۔پاکستان کا واحد بین الاقوامی شہر کراچی جسے اپنی خوبصورتی اور بارونق ہونے کے باعث عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے اگرچہ دہشت گردوں، بھتہ خوروں اور ڈاکوﺅں نے گزشتہ تین دہائیوں سے عروس کی مانگ اُجاڑ رکھی ہے رہی سہی کثر بجلی کمپنی نے روشنیوں کے شہر کو اندھیروں میں بدل کر اندھیر نگری میں تبدیل کردیا ہے مگر شہر اور شہری شب بیداری کی قدیم عادت تبدیل کرنے پر راضی نظر نہیں آتے۔ ماضی پر نظر ڈالیں تو تقسیم ہند سے پہلے انگریزی دور میں جب کراچی بمبئی سے منسلک تھا اور متحدہ ہندوستان کے یہ دونوں ساحلی شہر اپنی بحری تجارت اور بندرگاہوں پر رات ،دن جہازوں کی آمدورفت کے باعث کبھی نہیں سوتے تھے ۔ مگر یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ دونوں شہروں کے عام باشندے سرشام کے بعد ہی گھروں تک محدود اور جلد سونے کے عادی تھے جبکہ اب سے چالیس سال پہلے تک کراچی میں بازارِ زنان، شبستان اور مئے خانے صبح صادق تک کھلتے اور نگارخانے ونقارخانے بھی رات بھر آباد رہتے تھے۔ تاہم مرکزی شاہراہیں اور گلی محلے سنسان اور کسی حد تک ویران ہوجاتے تھے جس کی بڑی وجہ صوبائی حکومت کا محکمہ محنت تھا جس کا شعبہ بازار ودکاندار اوقات کار کی سختی سے پابندی کراتا تھا۔ ویسٹ پاکستان شاپس ایکٹ مجریہ 1962ءاوقات کار کا ایسا قانون تھا جس کی خلاف ورزی کی جرا¿ت بڑے سے بڑے تاجر اور دوکاندار میں نہیں تھی۔ محض 100روپے ماہانہ تنخواہ پانے والا شاپس انسپکٹر لکھ پتی تاجر کو اوقات کار کی خلاف ورزی پر نہ صرف چالان بلکہ اس کی دوکان کو بھی سربمہر کر سکتا تھا۔ کراچی میں انگریزی دور سے دوکانداری کے اوقات صبح 8سے رات 8بجے تک مقرر تھے جس میں کاروبار کے آغاز کی تو پابندی نہیں تھی یہ تاجر اور دوکاندار کی صوابدید پر منحصر تھا کہ وہ جب چاہے مارکیٹ اور دوکان کھولے مگر مقررہ وقت 8بجے بند کرنے کا پابند تھا۔ چنانچہ تمام بازار اور کاروبار 8بجے رات لازماً بند ہوجاتے تھے البتہ کچھ کاروبار ایسے تھے جنہیں اس پابندی سے استثنیٰ تھا اور وہ نصف شب یا اس کے بعد تک کاروبار کرسکتے تھے ان میں میڈیکل اسٹورز،بیکری،ریستوران، ہوٹل،پان سگریٹ کی دوکانیں اور سینما گھر شامل تھے مگر میڈیکل اسٹورز کے علاوہ بیکریوں،چائے خانوں،دودھ اور پان سگریٹ کی دوکان اور سینما گھروں کو بھی رات 12بجے کے بعد کاروبار کی اجازت نہیں تھی۔ استثنیٰ کے یہ اجازت نامے کمشنر کراچی کے دفتر سے مقررہ فیس کی جو سالانہ 45روپے تھی ادا کرکے حاصل کیے جاتے تھے۔ ریلوے اسٹیشن، ایئرپورٹ،بندرگاہ اور سبزی وپھل منڈی میں تمام رات کاروبار کی بلا فیس اجازت تھی کیونکہ وہاں کی اتھارٹیز ایسے کاروباریوں سے وینڈرز لائسنس فیس خود وصول کرتی تھیں۔شاپس انسپکٹروں کو یہ قوتِ نافذہ ان کی دیانت اور فرض شناسی کے باعث حاصل تھی شاذونادر ہی کسی انسپکٹر پر فرائض سے غفلت اور بددیانتی کا الزام لگا ہو حالانکہ ان کی تنخواہ انتہائی معمولی اور 100روپے ماہانہ سے زائد نہیں تھی۔ اس عہدے پر بین الاقوامی شہرت یافتہ اور مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی فائز رہ چکے ہیں۔ شاپس ایکٹ پر سختی سے پابندی کرانے کی بنیادی وجہ جرائم کی روک تھام بھی تھی کیونکہ رات گئے ہونے والے کاروبار خاص طورپر چائے خانے اور ہوٹل چوراچکوّں اور لوٹ مار کرنے والوں کے لیے بہترین پناہ گاہ ثابت ہوتے ہیں۔ 40 سال پہلے رات گئے پیدل چلنے والے راہ گیر کو بھی جگہ جگہ سائیکل سوار پولیس اہلکار اور سیٹی بجاتے چوکیدار کی پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑھتا تھا۔ سینما گھر یا ریلوے ٹکٹ اور فیکٹری یا ملز میں نائٹ شفٹ کام کرنے کا لیبر کارڈ دِکھانا لازمی ہوتا تھا ورنہ آوارہ گردی کے ایکٹ کی دفعہ 109کے تحت رات تھانے میں گزارنا پڑتی تھی اس کی گلوخلاصی دو معزز شخصیات یا متعلقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں مچلکہ جمع کراکے ہی ہوتی تھی۔
تاجروں اور بازاروں کی انجمنیں اس زمانے میں بھی ہوتی تھیں مگر وسیع تر قومی اور شہری مفاد میں انہوں ںے کاروباری اوقات کار کے خلاف مزاحمت ،ہڑتال اور دھرنوں کا اعلان کبھی نہیں کیا نہ ذاتی مفاد کو قومی مفا دپر ترجیح دی ۔ حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب شہر کو نہ تو بجلی کے بحران کا سامنا تھا نہ امن وامان اور لوٹ مار کا خطرہ تھا۔ صدر اور اس کے اطراف بوہری بازار سمیت تمام بازار زیب النساءجیسی بارونق اسٹریٹ اور ریگل کی الیکٹرانکس مارکیٹ بھی مقررہ وقت رات 8بجے اس حقیقت کے باوجود بند ہوجاتی تھی کہ ان کے درمیان ایسے شراب خانے اور نائٹ کلب خاصی تعداد میں موجودتھے جہاں رات گئے تک شائقین کی آمدورفت رہتی تھی مگر کسی تاجر یا دوکاندار انجمن نے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ اِنہیں رات گئے تک کاروبار کی اجازت دی جائے۔
شاپس ایکٹ کے تحت صبح 8سے رات 8تک کاروبار کی پابندی کا قانون ہنوز رائج ہے مگر اس کی خلاف ورزی اور عملدرآمد میں ناکامی متعلقہ حکام کی حرام خوری، فرائض سے غفلت اور مافیا کی طاقت بنیادی وجہ ہے۔ کاروباری اوقات کی مادر پدر اازادی شہری انتظامیہ کی چشم پوشی، سیاسی طاقت اور مافیا کے غلبے نے اتنی بڑھادی ہے کہ وہ حکومت کو انتہائی ننگ ونام سے دشنام کررہے ہیں ساتھ ساتھ شہریوں کی حمایت حاصل کرنے اور عوام کو ہمنواءبنانے کی مجرمانہ کوشش یہ کہہ کر کی جارہی ہے کہ خریداروں کی 70فیصد تعداد اپنے دفاتر سے شام 6بجے کے بعد فارغ ہوکر بازاروں میں آتی ہے لہٰذا اُن کی سہولت کے لیے ہم کسی صورت شام 7بجے کاروبار بند نہیں کریں گے فرنیچرزمارکیٹ کی چھوٹی سی تنظیم سے نکل کر تاجر اتحاد کے بڑے رہنما بن جانے والے محترم عتیق میر بڑے دھمکانے والے لہجے میں ٹی وی کیمروں کے سامنے فرمارہے تھے ہڑتال کریں گے، دھرنے دیں گے ، جیل جائیں گے مگر عوام کے مفاد میں حکومتی پابندی قبول نہیں کرینگے ،حالانکہ یہ قوم کی آنکھ میں ہی دھول جھونکنے کے مترادف ہے ۔کراچی کے لوگ ہمیشہ دفاتر سے شام کے وقت ہی فارغ ہوتے ہیں ۔وہ اس زمانے میں بھی خریداری کرتے تھے اور کم از کم میڈیا میں یہ شکایت کبھی کسی خریدار نے نہیں کی کہ خریداروں کے لیے بازاروں اور مارکیٹوں کا وقت بڑھایا جائے۔ خود عتیق میر جس فرنیچر مارکیٹ کے اصل صدر ہیں اور سیاسی پشت پناہی سے تاجروں کے بہ زعم خود چیئرمین بنے ہوئے ہیں ان کی فرنیچر مارکیٹ آج بھی شام 7سے 8کے درمیان مکمل بند ہوجاتی ہے۔ بولٹن مارکیٹ میںجہاں اندرون سندھ اور پنجاب سمیت پورے ملک سے خریدار آتے ہیں شام 7بجے بند ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح ڈینسو ہال ،گوردھن داس،کاغذی بازار،جو نا مارکیٹ ،جوڑیا بازار،غلہ منڈی،کھارا در، میٹھادر سے لے کر آرام باغ اور گارڈن تک کی تمام چھوٹی بڑی مارکیٹیں اور بازار موسم گرما میں 7بجے اور موسم سرما میں 6بجے قبل از نماز مغرب بند ہوجاتے ہیں صدر کے اطراف آٹوپارٹس مارکیٹ ،بہادر شاہ مارکیٹ،اورنگریب مارکیٹ،اردوبازار،اور فرنیچر مارکیٹ ب ھی سرشام بند ہوجانے والی مارکیٹوں میں شامل ہیں۔ صرف الیکٹرانکس مارکیٹ اور موبائل مارکیٹس اور اس نوعیت کی مارکیٹوں خے لیے رات گئے تک کاروبار کھلا رکھنے کے مطالبے اور اس کے لیے حکومت کو دھمکانے کے پیچھے تاجر برادری کے ہی ایک معتبر ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ الیکٹرانکس بالخصوص موبائل مارکیٹوں میں زیادہ تر نقلی اور دو نمبر کا مال زیادہ تعداد میں فروخت ہوتا ہے جس کی رات کے اوقات میں باآسانی شناخت ممکن نہیں ہوتی اور نہ ہی خریدار کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ اصل اور نقل کی تمیز کرسکے اسی طرح ناپ تول میں گھپلے دن کی روشنی کے مقابلے میں رات کو آسان ہوتے ہیں چنانچہ جعلسازوں اور دھوکے بازوں کی پشت پناہی اور سہولت کاری کے لیے عوامی مفاد کا نام لے کر ذاتی مفاد میں حکومت سندھ کے اقدام کو چیلنج کیا جارہا ہے باخبر ذریعے نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومت اور تاجروں کے مابین اوقات کار کا تنازعہ 7کی بجائے رات 8بجے پر طے ہوجائے گا۔
ادھر شادی ہالز اورشادی بیاہ کی تقریبات رات 10بجے ختم کرنے اور مہمانوں کی تواضح کے لیے ون ڈش پارٹی کے حکم کو شادی ہالز مالکان ، عوام اور پکوان سینٹرز کے مالکان نے خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے خیر مقدم کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کرتیں جو وقت کی پابندی اور قدر نہیں کرتیں اور فضول خرچ ہوتی ہیں ۔ عوامی،سماجی اور ثقافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کے یہ فیصلے اس امر کی غمازی کررہے ہیں کہ وہ نہ صرف گڈگورننس کے ذریعے سیاسی بلکہ عوامی اصلاح کے پروگرام پر بھی عمل پیرا ہیں۔ انہیں ادراک ہے کہ ماضی کی ڈھیلی ڈھالی پالیسیوں کی وجہ سے عوام اور معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہوچکا ہے اور نظم وضبط کا جو فقدان زندگی کے ہر شعبے میں پایا جارہا ہے اسے مناسب اور انتظامی اقدامات کے ذریعے درست کیا جاسکتا ہے ۔ پابندی وقت اور سادگی وقناعت کے اس حالیہ فیصلے سے وزیراعلیٰ کی اعلیٰ سوچ اور بلند فہمی کا اندازہ ہوتا ہے۔ سید مراد علی شاہ کی بیدارمغزی اور دن ، رات متحرک رہنے پر سید قائم علی شاہ کی 8سالہ کارکردگی کا موازنہ کرتے ہوئے یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ ”وہ جاگتا نہیں تھا یہ سوتا نہیں ہے“۔