میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بجلی گھروں کے گردشی قرضوں سے تیل کی ترسیل کے نظام پر اثرات، ذمہ داروں کا تعین کریں

بجلی گھروں کے گردشی قرضوں سے تیل کی ترسیل کے نظام پر اثرات، ذمہ داروں کا تعین کریں

منتظم
هفته, ۱۸ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں


اخباری اطلاعا ت کے مطابق بجلی گھروں کے گردشی قرضے (سرکلر ڈیٹ) بڑھ جانے کے باعث تیل فراہم کرنے والی کمپنیاں واجبات کی ادائیگی نہیں پا رہی ہیں، جس سے پہلی بار تیل کی ترسیل کا پورا نظام برے طریقے سے متاثر ہورہاہے، تیل سے بھرے ہوئے بحری جہاز بندرگاہوں پر کھڑے ہیں جبکہ ریل گاڑیاں اور ٹینکرز مختلف مقامات پر پھنس گئے ہیں۔بجلی کی کمپنیوں کی جانب سے تیل فراہم کرنے والے اداروں کو ادائیگیاں نہ کرنے کی وجہ سے پورا نظام متاثر ہوا ہے۔جب کہ دوسری جانب تیل کی تقسیم کار کمپنیوں کے پاس صرف 40 دن کے استعمال کا فرنس آئل موجود ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ تیل سے بھرے ہوئے 15 سے زائد آئل ٹینکرز بندرگاہوں پر بجلی گھروں کی جانب سے ادائیگیاں ملنے یا پھراپنی مصنوعات کے ساتھ واپس جانے کے انتظار میں کھڑے ہوئے ہیں۔ادھر آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل (او سی اے سی) کے ذرائع نے میڈیاکوبتایا کہ ملک میں صرف 8 لاکھ ٹن فرنس آئل کا اسٹاک موجود ہے ، جو ایک لحاظ سے ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ اسٹاک ہے ،مگر یہ اسٹاک بھی زیادہ سے زیادہ صرف 40 دن تک چل سکتا ہے۔او سی اے سی کے ذرائع کے مطابق اس معاملے کو ہر حکومتی فورم اور خصوصی طور پر وزارت پانی و بجلی کے سامنے اٹھایا گیا، مگر کسی کی جانب سے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا گیا۔ریفائنریز سے منسلک ایک عہدیدار کے مطابق اس وقت ریفائنریزاور تیل پیدا کرنے والی کمپنیز میں کچھ اسٹاک موجود ہے،مگر مقامی ریفائنریز کی جانب سے اپنی پیداوار کو نیچے لانے کی وجہ سے پیٹرول، ڈیزل اور جیٹ فیول کی مصنوعات کی قلت ہوسکتی ہے اور اگراس صورتحال پر قابو نہیں پایا گیا تو ریفائنریز بند ہوجانے کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ، کیوں کہ فرنس آئل کے بغیر پیٹرول کی پیداوار کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔دوسری جانب آزاد بجلی گھروں نے دعویٰ کیا ہے کہ تیل کمپنیوں کے قرضے 414 ارب روپے سے بھی بڑھ چکے ہیں، جس میں سے 270 ارب روپے تو صرف پی ایس او کے ہیں۔
وزات پیٹرولیم و قدرتی وسائل اور وزارت خزانہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پاور سیکٹر کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے بحران پیدا ہوا۔وفاقی وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے اسٹوریج کے مسئلے کو تسلیم کیا ہے لیکن ان کاکہنا ہے کہ اسٹوریج کا مسئلہ آج کا نہیں ہے، تاہم وہ اسے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،اس حوالے سے مؤثر نظام، مؤثر منصوبہ بندی اور بہتر اور فعال پاور انتظامیہ کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ بجلی شعبوں کی ضرورت کو نظر میں رکھتے ہوئے پی ایس او ایندھن کی درآمد کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، درآمدی منصوبے میں 60 سے 90 دن لگ سکتے ہیں اور ایک بار آرڈر ہوجانے کے بعد اسے منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ذرائع کے مطابق حکومت نے حالیہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی طور پر 36 ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں سے ادائیگیوں کے لیے 6 ارب روپے مختص ہوں گے۔
وزارت پیٹرولیم کے ایک عہدیدار کے مطابق پاور سیکٹر کو یومیہ 16 ہزار سے 18 ہزار ٹن تیل کی ضرورت پڑتی ہے، مگر اس وقت پاور پلانٹس کو یومیہ 8 سے 9 ہزار ٹن سے زائد آئل فراہم نہیں کیا جا رہا۔عہدیدار کا کہنا تھاکہ بجلی گھروں کو گزشتہ ایک سال میں قدرتی گیس اور درآمد شدہ لیکوڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کی فراہمی کے بعد تیل کی مانگ میں 30 فیصد کمی ہوئی، مگر وزارت بجلی نے وزارت پیٹرولیم اور آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل کی جانب سے خبردار کرنے کے باوجود کوئی حکمت عملی نہیں بنائی۔وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے کہا ہے کہ سرکاری اور نجی شعبوں پر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے 570 ارب روپے کے واجبات ہیں۔خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے مئی 2013 میں حکومت میں آنے کے بعد جون 2014 تک توانائی سیکٹر کے 480 ارب روپے کے گردشی قرضے ادا کرکے بجلی کی پیداوار میں اضافے کا دعویٰ کیا تھا مگر ایک سال میں ہی گردشی قرضہ گزشتہ ادائیگی سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری اداروں نے 136ارب روپے، نجی شعبے نے 433 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ نیٹ ہائیڈل منافع کی مد میں واپڈا نے خیبر پختونخوا حکومت کو ایک ارب 70 کروڑ روپے ادا کرنے ہیں، کے پی کے حکومت کو گزشتہ مالی سال کے دوران 7 ارب 90 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔
یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ موجودہ حکومت نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے کتنے واجبات ادا کئے یا کتنے ادا کرنا باقی ہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر ادائیگیوں کے بحران کی وجہ سے کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز جہاز خام تیل اتارے بغیر واپس چلے جاتے ہیں تو پھر حکومت 60 سے 90 دن تک پیٹرول کی فراہمی کا متبادل انتظام کیسے کرے گی اور اگر حکومت ایسا نہ کرسکی تو ملک میں آنے والے بحران سے ملکی صنعت اور عوام کو محفوظ رکھنا کیسے ممکن ہوگا۔
یہ وقت صورتحال کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کرنے کا نہیں ہے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزارت پیٹرولیم اور وزارت خزانہ مل کر اس مسئلے کاکوئی قابل عمل اور دیرپا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں تاکہ آئندہ اس طرح کا کوئی بحران پیدا نہ ہوسکے ۔اس کے ساتھ ہی حکومت کو چاہئے کہ اس بات کاتعین کیاجائے کہ ا س صورتحال کی ذمہ داری کس شعبے اور محکمے پر کس حد تک عاید ہوتی ہے اور اس کاتعین کرنے کے بعد متعلقہ ارباب اختیار کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے تاکہ دیگر شعبے کے اہلکار اور افسران بھی اپنا قبلہ درست کرنے پر مجبور ہوں اور ذمہ داریاں ایک دوسرے پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی موجودہ روش کا خاتمہ ہوسکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں