میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مشترکہ مفادات کونسل میں سیاسی جماعتوں کا قابل تقلید فیصلہ

مشترکہ مفادات کونسل میں سیاسی جماعتوں کا قابل تقلید فیصلہ

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۷ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت گزشتہ روز اسلام آباد میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ‘ الیکشن کمیشن اور ادارہ شماریات کے حکام نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں حالیہ مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے معاملے پر غور کیا گیا۔ پیپلزپارٹی سمیت تمام جماعتیں حلقہ بندیوں کے حکومتی بل کی حمایت پر تیار ہوگئیں۔ اجلاس کے دوران الیکشن کمیشن کے حکام نے نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے بارے میں بریفنگ دی۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس صورت میں حکومتی بل کی حمایت اور مردم شماری کے نتائج قبول کرنے کا وعدہ کیا بشرطیکہ سندھ میں ایک فیصد بلاکس کی مردم شماری کی تیسرے فریق سے تصدیق کرائی جائے۔
مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس‘ اس میں چاروں وزرائے اعلیٰ کی شرکت اور سب ہی جماعتوں کا حکومتی بل کی حمایت کا فیصلہ بڑا حوصلہ افزا اور خوش آئند ہے۔ اجلاس میں الیکشن کے حکام نے شرکاکو بتایا کہ 1998کی مردم شماری کے مطابق الیکشن کرانا ممکن نہیں۔ لہٰذا حکومت نئی حلقہ بندیوں کے لیے فوری طور پر پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم منظور کرائے۔ الیکشن کمشن کے پاس 2018 میں شیڈول کے مطابق انتخابات کرانے کے لیے بہت کم وقت رہ گیا ہے اگر آئینی ترمیم منظور نہ ہوئی، یا اس میں دیر ہوئی تو پھر مردم شماری کے مطابق بروقت انتخابات کرانا ممکن نہیں ہوگا۔فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ نئی مردم شماری پر پنجاب کے سوا مردم شماری کے نتیجے میں جس کی نشستوں میں کمی ہوگئی ہے تمام صوبوں کو تحفظات ہیں۔ ایک صورت تو یہ تھی کہ پنجاب کی طرح دوسرے صوبے بھی مردم شماری پر جس میں ادارہ شماریات کو فوج کی معاونت حاصل تھی، مکمل اعتماد کریں لیکن سندھ اس پر آمادہ نہیں اوربلوچستان کو بھی اس پر اعتراضات ہیں۔یہی صورت حال ہے جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی نے اس معاملے کو خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹانے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کااجلاس بلانے اور اس طرح تمام صوبوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی تجویز پیش کی ظاہرہے کہ حکومت کے سامنے یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے پیپلزپارٹی کی پیش کردہ اس تجویز سے بہتر کوئی متبادل نہیں تھا جس کی وجہ سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو مشترکہ مفادات کونسل کااجلاس بلانے پر مجبور ہونا پڑا ۔ جمہوری طریق کار بھی یہی ہے کہ اختلافات مذاکرات کے ذریعے طے کیے جائیں۔ چنانچہ جہاں اتفاق رائے کے لییپیپلزپارٹی کی کوششیں قابل تحسین ہیں‘ وہاں دیگر صوبوں کی بھی تعریف کی جانی چاہییکہ انھوں اس مناسب اور قابل عمل تجویز پر لبیک کہتے ہوئے کونسل کے اجلاس میں شرکت کی اور چونکہ انتخابات کا بروقت انعقاد تمام پارٹیوں کے لیے ہی بہت ضروری ہے اس لیے تمام سیاسی پارٹیاں اس مسئلے پر یک رائے ہونے پر مجبور ہوگئیںکیونکہ انتخابات میں تاخیر ہوتی تو اس کی ذمہ داری صرف وفاق پر ہی نہیں صوبوں پر بھی عائد ہوتی‘ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں سے نہ صرف انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی ہو گیا ہے بلکہ اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ سیاست دان وسیع تر قومی مفاد کی خاطر، باہمی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوسکتے ہیں۔
مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ڈیڈ لاک کے خاتمے کے بعد انتخابات کے مقررہ وقت پر ہونے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔اجلاس میں صوبہ سندھ کی جانب سے مردم شماری کے نتائج کے حوالے سے تحفظات دور کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی کچھ آبادی کے بلاک میں تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کا فیصلہ قومی اہمیت کا حامل اور غلط فہمیوں کے ازالے کی ایک سنجیدہ سعی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ تمام جماعتوں کے آئینی ترمیم پر متفق ہونے کے بعدقومی اسمبلی کے اجلاس میں آئینی ترمیم کی منظوری مل جائے گی۔اس سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی، مردم شماری کی روشنی میں پارلیمانی رہنمائوں کو آئینی ترمیم پر متفق کرنے میں ناکام رہے تھے۔ جس سے اس امر کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ انتخابات کا بروقت انعقاد نہیں ہو سکے گا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے مشترکہ مفادات کونسل کی اجازت کے بغیر آئینی ترمیم سے انکار کے بعد اسپیکر اسمبلی نے یہ معاملہ وفاقی حکومت کو بھیج دیا تھا۔قومی رہنمائوں کے اجلاس میں الیکشن کمیشن کے سیکریٹری نے اجلاس کے شرکا کو نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو درپیش رکاوٹوں کے بارے میںآگاہ کیا۔ جس کے بعد شرکائے اجلاس میں اتفاق رائے ممکن ہو ا۔ بتایا جاتا ہے کہ مردم شماری کا حتمی نتیجہ اپریل 2018 تک متوقع ہے۔اس صورتحال میں قباحت یہ تھی کہ اگر اپریل میں نتائج جاری ہوتے تو آخری مردم شماری کے مطابق آئین کے آرٹیکل 51(5)کے تحتنشستوں کی تقسیم کی پیروی کرتے ہوئے نئی حلقہ بندیاں ممکن نہیںتھیں اور یوں یا تو انتخابات کے التوا کا خطرہ تھا جس کی گنجائش ہی نہ تھی یا پھر پرانی حلقہ بندیوں کے مطابق انتخابات کرائے جاتے جس سے چھوٹے صوبوں خاص طور پر خیبر پختونخوا کی نشستیں نہ بڑھنے سے اس صوبے کے عوام کی حق تلفی ہوتی جس کے باعث آئینی دفعات پر سمجھوتہ کیے بغیر مقررہ وقت پر انتخابات کے انعقاد کی راہ تلاش کرنے کی ضرورت تھی جس کے لیے چاروں صوبوں کا متفق ہونا ضروری تھا۔طریقہ کار کے مطابق الیکشن کمیشن کو انتخاب سے چار ماہ قبل انتخابی پلان کے اعلان کے لیے نئے انتخابی قوانین کی ضرورت ہوتی ہے اور الیکشن کمیشن کو گھر گھر ووٹروں کی تصدیق مکمل کرنا ہوتی ہے۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں چاروں وزرائے اعلیٰ نے انتخابات مقررہ وقت پر کرانے پر زور دیا، اجلاس میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ1998کی مردم شماری کے مطابق ملک کی کل آبادی کا 56فیصد حصہ پنجاب سے تھا، جو اب کم ہو کر52فیصد رہ گیا ہے، جس کا مطلب پنجاب میں مقررہ نشستوں کی تعداد میں کمی ہونی چاہیے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے ضروری قانون سازی اور آئینی ترمیم کا معاملہ سیاسی جماعتوں کے اختلافات کے باعث انتخابات میں تعطل آنے کے جو خدشات پیدا ہوگئے تھے اسیمشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میںطے کرلیا گیا ہے جس سے انتخابات کی نئی حلقہ بندیوں کے مطابق انعقاد کی راہ ہموار ہوگئی ہے اور ایک متوقع بحران کی نوبت نہیں آئی۔ اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور صوبائی حکومتوں کے سربراہوں کی جانب سیبلاشبہ انتہائی ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیااور اسی وجہ سے اس اہم مسئلے پر جس کی وجہ سے عام انتخابات کابروقت انعقاد جو خطرے میں پڑتا نظر آرہاتھااب ممکننظر آرہا ہے ا۔آئینی ترمیم اور ضرور ی قانون سازی کے بعد الیکشن کمیشن کو جو ذمہ داری تفویض ہوگی اس کے لیے مناسب وقت بھی موجود ہے اور الیکشن کمیشن اس کے لیے تیا ربھی ہے۔
توقع کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں حکومت اور حزب اختلاف کی تمام جماعتیں افہام وتفہیم کے اسی جذبے کے تحت الیکشن کمیشن کے ساتھ ہر ممکن معاونت کریں گی ، اور حلقہ بندیوں کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت اور اعتراضات سے اجتناب کیا جائے گا اس ضمن میں ضرورت پڑنے پر مزید مشاورت میں حرج نہیںہوگا ،اس تمام جدوجہد کا ثمریہ سامنے آنا چاہیے کہ وطن عزیز میں حلقہ بندیوں کے تنازعے کے بغیر صاف اور شفاف انتخابات کا بروقت اور خوش اسلوبی سے انعقاد یقینی بن جائے الیکشن کمیشن جہاں بہتر انتظامات کرنے کی ذمہ دار ہے وہاں سیاسی جماعتوںکی جانب سے الیکشن
قوانین کی پابندی اور انتخابی ضابطہ کار کا احترام بھی بنیادی امر ہے۔ سیاسی جماعتیں انتخابی عمل میں ایک دوسرے کے لیے خواہ مخواہ کی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے اپنے طرز عمل سے تعاون اور مفاہمت کا رویہ اختیار کریں تو بہت سارے مسائل سے بچنا ممکن ہوگا جن سے پولنگ کے دوران واسطہ پڑتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں