شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان کے لیے اچھی پیش رفت
شیئر کریں
شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس جس میں ملکوں کے6 وزرائے اعظم سمیت11 ممالک کے اعلیٰ سطح کے وفود بشمول شرکت کر رہے ہیں، نہایت سرعت کے ساتھ تکمیل کے مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔اگرچہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہر سال منعقد ہوتا ہے لیکن موجودہ عالمی صورت حال میں 2 عالمی طاقتوں چین اور روس کے وزرائے اعظم سمیت 7 ممالک کے سربراہان مملکت اور باقی ممالک کے بھی اعلیٰ سطح کے وفود کا پاکستان آنا یقینی طور پر پاکستان کیلئے اچھی اور مثبت خبر ہے جس کے معاشی اثرات ضرور ہوں گے۔ اجلاس سے متعلق اب تک جو خبریں سامنے آئی ہیں ان سے پتہ چلتاہے کہ ایس سی او کے رکن ممالک کی زیادہ تر توجہ معاشی امور، تجارت اور کنیکٹیویٹی پر ہی رہی۔ بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر انڈین ائیرفورس کے خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان پہنچے تھے لیکن عملی طور پر وہ اجلاس میں زیادہ سرگرم کردار ادا کرتے نظر نہیں آئے۔ گذشتہ تقریباً ایک عشرے میں یہ کسی بھی بھارتی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ پاکستان ہے،اجلاس میں ان کی شرکت کے اعلان کے بعد ابتدا میں یہ توقع کی جارہی تھی کہ شاید اس دورے کے سبب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری میں کمی واقع ہو گی،لیکن انھوں نے فوری طور پر یہ بیان دے کر کہ ان کے اِس دورے کے دوران دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پر بات چیت نہیں ہو گی اس طرح کی توقعات کا خاتمہ کردیاتھا۔نئی دہلی میں ایک تقریب کے دوران انھوں نے واضح کیا تھا کہ ’میں وہاں بھارت اور پاکستان کے تعلقات پر بات چیت کرنے نہیں جا رہا۔ میں وہاں ایس سی او کے اچھے رکن کے طور پر جا رہا ہوں۔اس سے قبل 2015 میں اُس وقت کی وزیر خارجہ سشما سوراج ’ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آئی تھیں۔سشما سوراج کے اس دورے کے کچھ ہی دنوں بعد بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے روس کے دورے سے واپسی پر افغانستان کے راستے بھارت آتے ہوئے اچانک لاہور کا دورہ کیا تھا جہاں ان کی اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات ہوئی تھی۔اس کے بعد 2016 میں اس وقت کے بھارتی وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے سارک کے اجلاس کے لیے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔لیکن پٹھان کوٹ میں بھارتی فضائی اڈے پر حملے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات بگڑتے گئے اور پھر 2019 میں دونوں ممالک ایک باقاعدہ جنگ کے اس وقت قریب آئے جب کشمیر کی فضاؤں میں بھارت اور پاکستان کے جنگی جہازوں کے درمیان باقاعدہ جھڑپ ہوئی۔یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات اور مذاکرات میں حائل ہیں اور نئی دہلی میں بی جے پی نے پاکستان سے متعلق کسی بھی قسم کی بات چیت نہ کرنے کا سخت مؤقف کیوں اپنا رکھا ہے؟پاکستان اور بھارت برسوں سے ایک دوسرے پر دہشت گردی کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں بھی بھارت کی جانب سے پاکستان میں اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں دراندازی اور دہشت گردی کو ہوا دینے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔دوسری جانب پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ بھارت نہ صرف بلوچستان میں بلوچ علیحدگی کو مدد فراہم کرتا ہے بلکہ حالیہ دنوں میں اس کے خفیہ ادارے پاکستان میں کشمیری شخصیات کے قتل میں بھی ملوث ہے۔ دونوں ہی ممالک ان الزامات کی متعدد مرتبہ تردید کر چکے ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید تب خراب ہوئے جب اگست 2019 میں بھارت نے اپنے آئین سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر کے کشمیر کی خودمختار ریاست کی حیثیت کو ختم کردیا تھا۔ پاکستان نے اس کے بعد مؤقف اپنایا کہ بھارت سے مذاکرات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آرٹیکل 370 کو بحال نہیں کر دیا جاتا۔اب سوال یہ بھی ہے کہ بھارت پاکستان سے بات کیوں نہیں کرنا چاہتا؟ اس کا واضح جواب یہی ہے کہ نریندرا مودی کی پوری سیاست پاکستان دشمنی پر مبنی ہے اگر مودی پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کیلئے مذاکرات پر تیار ہوجاتے ہیں تو ان کا وہ بیانیہ جس پر انھوں نے اپنی پوری سیاست کا محل تعمیر کررکھا ہے زمیں بوس ہوجائے گی اور ان کے پاس لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کیلئے کوئی کارگر حربہ موجود نہیں رہے گا حقیقت یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنے ملک میں پاکستان مخالف ماحول سے فائدہ اُٹھاتی ہے،لیکن پاکستان سے بات نہ کرنے کے حوالے سے مودی کے سخت موقف کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ قیدیوں کے تبادلے، سندھ طاس معاہدے یا لائن آف کنٹرول سے جُڑے معاملات پر بھارت اور پاکستان کے درمیان اب بھی بات چیت ہوتی ہے۔تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ’پاکستان میں گھس کر مارنے‘ جیسے بیانات یا انتخابی نعرے سے مودی کی پاکستان دشمن سوچ کی عکاسی ہوتی ہے اور یہی وہ سو چ ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان افہام وتفہیم اور مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے،مودی کی یہ سوچ موساد کی طرز‘ پر نئی حکمت عملی کی طرف اشارہ ہے؟حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے ہی پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ’بے لچک رویہ‘ اپنایا ہوا ہے اور ’نہ ماننے والی شرائط‘ رکھ دی ہیں۔عالمی مبصرین اب بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ ’شریف خاندان بھارت کے ساتھ مضبوط کاروباری اور وسیع قومی معاملات پر تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اس کا کھل کر اظہار بھی کرچکے ہیں۔بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کیلئے پاکستان کی کوششوں کے پیش نظر عالمی سطح پر یہ تسلیم کیاجانے لگاہے کہ پاکستانی حکومت یہی چاہتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آجائیں۔ لیکن بی جے پی کی حکومت تواتر سے پاکستان کو یہ بتاتی آ رہی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات ممکن نہیں،اس کی وجہ جیسا کہ اوپر ذکر کیاکہ بی جے پی اپنے ملک میں پاکستان مخالف ماحول سے فائدہ اٹھاتی ہے۔اس صورت حال اور زمینی حقائق کے ہوتے ہوئے یہ خیال کرنا کہ جے شنکر کی آمد سے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں احمق کے خواب کے سوا کیا ہوسکتاہے؟تاہم پاکستان میں منعقد ہونے والے تنظیم کے اجلاس میں بھارت کے وزیر خارجہ کی شرکت کو یک اچھی شروعات کہاجاسکتا ہے۔ ’وزیرِ خارجہ جے شنکر کا دورہ پاکستان یہ پیغام بھی ہوسکتا ہے کہ بھارتی حکومت بتدریج دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنا چاہتی ہے۔’ایس سی او اجلاس کے بعدبھی ایسے بہت سے مواقع نکلیں گے جہاں دونوں ممالک کے درمیان خاموشی سے مذاکرات یا غیر رسمی بات چیت ہو سکے۔تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ ’دونوں ممالک زیادہ محتاط رویہ اختیار کریں اور سب سے پہلے باہمی اعتماد کو بحال کرنے اور خطے کی سیکورٹی کے معاملات پر بات چیت کرنے کیلئے ماحول تیار کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ دونوں ممالک کے لیے اقتصادی اور تجارتی مواقع پیدا کیے جا سکیں۔ بھارت اور پاکستان اگر اپنے اقتصادی اور تجارتی مفادات کو ترجیح دیں تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ دو ہمسایوں کے خراب تعلقات کے سبب ترقی کے بہت سے مواقع ضائع ہو رہے ہیں اور ’اسی لیے خطے میں ایک نئے اقتصادی معاہدے کی ضرورت ہے۔پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے بھارتی رہنماؤں کو اپنے مؤقف میں تبدیلی لا کر سارک ممالک کی تنظیم کو مضبوط کرنا ہوگا اور ایران، افغانستان اور دیگر وسطی ایشیا کے ممالک کو شامل کرکے جنوبی ایشیا میں ایک مشترکہ منڈی بنانے میں مدد دینا ہوگی۔مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ایران اور افغانستان کو بھی عالمی معیشت کا حصہ بنا کر خطے میں تنازعات ختم کیے جائیں۔ پاکستان اور بھارت شمال اور شمال مغربی دنیا سے تجارت اور ’کلین ہائیڈروجن بیسڈ انرجی‘ کے ذریعے بیش بہا فائدے اُٹھا سکتے ہیں۔بھارتی رہنما فی الوقت یہ سمجھ رہے کہ ان کی معیشت مضبوط ہوئی ہے، ان کے تعلقات مغربی ممالک کے ساتھ یا بڑی طاقتوں کے ساتھ بہتر ہوئے ہیں اور وہ دنیا کے لیے ا سٹریٹجک اعتبار سے اہم ہیں۔’اس احساس کے تحت بھارتی رہنما یہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ اگر تعلقات ٹھیک نہ بھی ہوں تو بھی اس کی بین الاقوامی طور پر یا خطے میں حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،جبکہ حقیقت اس کے برعکس اور یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں ہی کو اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر گوناگوں چیلنجز کا سامنا ہے اور دونوں ملک باہمی تعاون سے ایک دوسرے کو ان چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد دے سکتے ہیں مثال کے طورپر بھارت کو چین کے ساتھ متنازع سرحد پر مشکلات کا سامنا ہے اور پاکستان چین کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کام میں لاکر ان تنازعات کو پرامن طورپر طے کرانے میں نمایاں کردار ادا کرسکتاہے لیکن ایسا اسی وقت ممکن ہے جب بھارتی رہنما پاکستان کے ساتھ اپنے تنازعات مذاکرات کے ذریعے افہام وتفہیم کے ساتھ طے کرنے پر تیار ہوں۔ امید کی جاتی ہے کہ دونوں ممالک معنی خیز سفارتی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی راہ نکال لیں گے۔
جہاں تک اسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کی بات ہے تو اطلاعات کے مطابق اجلاس میں شریک رہنما انتہائی اہم مسائل سے نمٹنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے اور دنیا کو تباہ کُن تنازعات سے نکالنے کے لیے راہ بھی تلاش کرنے کی کوشش کی،ان کی یہ کوشش کس حد تک بار آور ہوئی اس کا اندازہ وقت آنے پر ہی ہوسکے گا۔پاکستان اور وسیع جنوبی ایشیائی خطے، دونوں میں اس اجلاس کی انتہائی جغرافیائی سیاسی اہمیت بھی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ اجلاس ایک منفرد سفارتی موقع تھا بالخصوص ایک ایسے عالمی منظرنامے میں کہ جب دنیا بھر کے ممالک اپنے اتحادی اور اسٹریٹجک حکمت عملی تبدیل کررہے ہیں۔ ایس سی او میں پاکستان کا کردار اسٹریٹجک اثرورسوخ کے سنگم پر ہے۔عالمی قوتوں کا اپنے اتحادیوں کا جائزہ لینے اور ایشیا کے سیاسی اور معاشی مرکز کے طور پر ابھرنے کے ساتھ چین کا بڑھتا عالمی اثرورسوخ، روس کا ایشیا کی جانب جھکاؤ اور وسط ایشیا کی بڑھتی ہوئی اہمیت، پاکستان کو موقع فراہم کرتی ہے کہ ایس سی او کے ذریعے عالمی سطح پر خود کو ثابت کرے۔پاکستان کی علاقائی خصوصیت ہمیشہ سے اس کا ایک جغرافیائی سیاسی اثاثہ رہا ہے لیکن اندرونی چیلنجز کی وجہ سے وہ اپنی علاقائی خصوصیت کا بھرپور فائدہ نہیں اٹھا پایا ہے۔بڑھتے ہوئے افراطِ زر، کم ہوتے ہوئے غیرملکی ذخائر اور سُست شرحِ نمو کی وجہ سے پاکستان کو نئی معاشی شراکت داریوں کی اشد ضرورت ہے۔ یہی وہ مقام ہے کہ جب ایس سی او کے معاشی پہلو کارگر ہوتے ہیں۔ رکن ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرکے پاکستان علاقائی مارکیٹس، انفرااسٹرکچر کی سرمایہ کاری اور بڑھتی ہوئی تجارتی ترقی، بالخصوص چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کے اقتصادی مفادات صرف چین تک محدود نہیں۔ پاکستان وسط ایشیائی ممالک اور روس کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو وسعت دے سکتا ہے اور اقتصادی ترقی اور تنوع کو فروغ دے سکتا ہے۔یہ نئی معاشی شراکت داریاں پاکستان کو موجودہ بحران کی صورت حال سے نکالنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔