میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاناماپیپرز۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر18 )

پاناماپیپرز۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر18 )

منتظم
پیر, ۱۷ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

یوکرائن کے سابق وزیراعظم یولیا ٹیموشنکو اور ان کے پیش رو پاول لازارینکو نے لاکھوں ڈالر خورد برد کیے
ہم نے اپنے ڈاکومنٹس کا عدالتی کاغذات ،سرکاری رجسٹر اور دیگر ذرائع سے موازنہ کیا،ان میں کوئی خامی نہیں ملی ، اس کے علاوہ ہمارے پاس ایک ضمنی ضمانت بھی موجودتھی
ہمیں معلوم ہوا تھا جرمنی کے ٹیکس کی تفتیش کرنے والے ادارے نے کچھ دنوں قبل ہی موسفون کاڈیٹا خریداتھا، ہم ان کے ڈیٹا کا اپنے ڈیٹا سے موازنہ کرنے میں کامیاب ہوگئے
تلخیص وترجمہ :ایچ اے نقوی
ڈاکومنٹس کی چھان بین سے ایک اہم بات یہ سامنے آئی کہ اسلحہ کے اسمگلر، مختلف ممالک کے آمر حکمران بیشمار افراد کی اموات کے ذمہ دار تھے۔ہم نے یوکرائن کے سابق وزیراعظم یولیا ٹیموشنکو اور ان کے پیش رو پاول لازارینکو سے متعلق فائلوں اور ڈاکومنٹس کو باربار دیکھا ان دونوں نے1990کی دہائی میں مبینہ طورپر اپنے ملک کے لاکھوں ڈالر خورد برد کیے تھے، بعد میں لازارینکو کوکئی سال کی سزا سنائی گئی۔اسے پہلے ایک سوئس جج نے منی لانڈرنگ کے الزام میں سزا سنائی اور اس کے بعد ایک امریکی عدالت سے بھی اسے سزا سنائی گئی۔امریکی تفتیش کاروں نے جن سازشیوں کاذکر کیاتھا وہ یولیا ٹیموشنکو کے سوا کوئی دوسرا فرد نہیں تھا۔اس لیے ہم نے ایک دفعہ پھرلازارینکو کے بارے میں چھان بین شروع کی جس کے نتیجے میں بہت سی دوسری چیزوں کے ساتھ ہی ہمیں ایک فیکس کی کاپی مل گئی جس پر پاول لازارینکو کے دستخط موجودتھے اور یہ دستخط 1990کے دور کے نہیں بلکہ اپریل 2005 کے فیکس پرتھے۔اس میںمضحکہ خیز بات یہ تھی کہ اس فیکس میں لازارینکو نے دعویٰ کیاتھا کہ اس نے چند ہفتے پیشتر ہی گیٹ وے مارکیٹنگ انکارپورٹیڈ قائم کی ہے، یہ ایک شیل کمپنی تھی جو موزاک فونسیکا چلارہی تھی۔ اس کادعویٰ تھا کہ یہ کمپنی اس کی تھی اب لازارینکو اس کے تمام متعلقہ ڈاکومنٹس طلب کررہاتھا ۔
لازارینکو نے یہ فیکس کیلی فورنیا سے بھیجا تھاجہاں وہ ایک شاندار وسیع وعریض محل میں قیام پذیر تھا۔اس محل کی بیشمار تصاویر تھیں جس میں مختلف سطح کے 6سوئمنگ پول تھے۔اس سے ہماری فائل میں بشارالاسد، پوٹن، کرچنر ،آئس لینڈ کے وزیراعظم اور نکاراگوا کے سابق صدر آرلانڈو اور ایلی مین کے بعد ایک اور اہم سیاستداں کے نام کااضافہ ہوگیا۔اب یوکرائن کی باری تھی ،اب اسے ہمیں سربراہ مملکت کے نام کی علیحدہ فائل میں رکھناتھا۔
ہم نے جون ڈو کوبتایا کہ ایک سوئس اخبار میں موزاک فونسیکا کے ڈاکومنٹس افشا ہونے بارے میں ایک اسٹوری شائع ہوئی ہے ،یہ اسٹوری بنانے والے نے موسفون سے بھی بات کی ہے۔
جون ڈو نے حیرت سے سوال کیا کہ واقعی ؟اور موزاک فونسیکا نے کیاجواب دیا؟
ہم نے اسے بتایا کہ ان کاکہنا ہے کہ ہمارے ادارے کا آج تک کوئی ڈیٹا افشا نہیں ہواہے۔
ہمارا جواب سن کر جون ڈو ہنس پڑا اس نے کہا کہ کوئی افشا نہیں ہوا ،مجھے حیرت ہے کہ پھر ہمیں اس ڈیٹا کو جمع کرنے کیلیے اتنی اسپیس کی ضرورت کیوں پڑی۔
یقینا ہم چاہتے ہیں کہ جہاںتک ممکن ہوسکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ ہمارے ذریعے نے ڈیٹا کہاںسے حاصل کیا لیکن اہم بات یہ تھی کہ ڈیٹا درست تھا اور سماجی اعتبار سے بالکل درست تھی ۔اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ سب متعلقہ ڈیٹا تھا اور مختلف ذرائع سے چیکنگ کے بعد یہ درست ثابت ہواتھا اور اس کادرست ہونا کسی بھی شک وشبہے سے بالاتر تھا۔اس کے باوجود ہر تفتیشی رپورٹر کاالمیہ یہ ہوتا ہے کہ اسے جعلی ڈیٹا دے کر پھنسایاجاتاہے ۔یہ بات کہ کوئی انسان اتنی بڑی تعداد میں جعلی ڈیٹا تیار نہیں کرسکتامحدود تسلی تھی کیونکہ اتنی بڑی تعداد میںکوئی ایک جعلی ڈاکومنٹ شامل کیاجاسکتا تھا جس کی وجہ سے99 فیصد ڈیٹا درست ہونے کے باوجود پورا پروجیکٹ ہی مشکوک ہوجاتا۔
ہم نے اپنے ڈاکومنٹس کا عدالتی کاغذات ،سرکاری رجسٹر اور دیگر ذرائع سے موازنہ کیاتھا اور ان میں کوئی خامی نہیں ملی تھی۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس ایک ضمنی ضمانت بھی موجودتھی۔ہمیں معلوم ہوا تھا کہ جرمنی کے ٹیکس کی تفتیش کرنے والے تفتیش کاروں نے کچھ دنوں قبل ہی موسفون کاڈیٹا خریداتھا۔گھوم پھر کر ہم ان کے حاصل کردہ ڈیٹا کو اپنے ڈیٹا سے موازنہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ہمارا ڈیٹا اس سے کہیں زیادہ اپ ڈیٹ تھا اور اس سے کہیں زیادہ تھا۔لیکن آف شور کمپنیوں کے بارے میں ہمارے پاس موجود ڈیٹا اور تفتیش کاروںکے پاس موجود ڈیٹا میں کوئی موازنہ نہیں تھا۔ہم نے یہی سوال آئی سی آئی جے کے سربراہ گیرارڈ رائل سے کیے۔ کہ وہ کون ہوسکتاہے جو ہمارے ساتھ تعلقات استوار کرناچاہتاہو؟۔ وہ کون ہوسکتاہے جو ہمارے لیے کوئی پھندا تیار کررہاہو اور وہ ایسا کس طرح کررہاہے؟۔ ہم اپنے ذرائع کے بااعتماد ہونے کا کیسے یقین کرسکتے ہیں؟۔ان تمام سوالات کا آخر میں ایک ہی جواب سامنے آتاتھا کہ اصل چیز ذریعہ نہیں ہے بلکہ میٹریل ہے اوراس بات کی سیکڑوں طریقے سے بار بار چیکنگ سے تصدیق ہوتی تھی۔ہم آئی سی آئی جے کے سربراہ کے اس خیال سے متفق تھے جنھوں نے اب سرکاری طورپر یہ اعلان کردیاتھا کہ ہمارے پاس موجود ڈیٹا آی سی آئی جے کا اپنا پروجیکٹ بننے کے قابل ہے۔اس اعلان کے بعد ہم منصوبہ بندی میںلگ گئے۔
ہمارے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ ڈیٹا بہت زیادہ تھا اوراگرچہ ہم اس سے قبل بھی اس طرح کے پروجیکٹ پرکام کرچکے تھے لیکن ہم میں سے کوئی بھی اتنی بڑی تعداد میں ڈیٹا نمٹانے کاماہر نہیںتھا۔اس میں ایک بڑا فرق یہ بھی تھا کہ یہ ڈیٹا کسی پرانی جگہ پر نہیںرکھاتھابلکہ یہ اب ہمارے اپنے کمپیوٹرمیں موجود تھا۔ہمیں صرف اس ڈیٹا کو جمع رکھنا اور معلومات کی حفاظت کرناتھا۔ہم نے نصف ٹیرابائیٹ میموری کے ایکسٹرنل ہارڈ ڈرائیو خریدی اور فائلوں کا رخ تبدیل کیا اور انھیں ڈرائیو میں محفوظ کردیا۔اصل بات یہ تھی کہ اب ہم اس کو مزید سرچ نہیںکرسکتے تھے۔حالانکہ چند ہفتے پیشتر تک جزوی طورپر سرچ کرنا ممکن تھا کیونکہ ہم پی ڈی ایف پر چلنے والے ٹیکسٹ کو سمجھ نہیں سکتے تھے پہچان نہیں سکتے تھے۔ہمارے کمپیوٹر کاسرچ انجن ٹیکسٹ کے موادکوسمجھ نہیں سکتاتھا، یہ صرف فائل کانام رجسٹرکرلیتاتھا اور یہ ظاہرکردیتاتھا کہ یہ پکچر فائل ہے۔اس وقت اس کمپیوٹر میں 200گیگابائٹ کے مساوی ڈیٹاموجود تھا ہمارے آئی ٹی ماہرین نے ہمیں بتایا کہ ہمارے کمپیوٹر بڑی بھاری تعداد میں ڈیٹا سرچ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس کے ڈسک کی اسپیس ،میموری اورپروسیسنگ پاور ہماری ضرورت سے بہت کم ہے۔
ہمیں فوری طورپر ایک نئے کمپیوٹر کی ضرورت تھی، ہمارے شعبے کے سربراہ اور ایڈیٹرانچیف ہمارے لیے نیا کمپیوٹر زیادہ پاور فل لیپ ٹاپ خریدنے پر تیار ہوگئے ۔ ہمیں دفتر کیلیے اشیا کی خریداری کے مرکزی نظام سے ہٹ کر علیحدہ سے اس کی خریداری کیلیے آرڈر دینے کا اختیار دے دیاگیا ہمارے دفتر کے آئی ٹی ماہر نے ہمیںبتایاتھا کہ اگرسب کچھ ٹھیک رہاتو بھی ہمارے اسپیشل لیپ ٹاپ کے سیٹ اپ کو دفتر میں نصب کرنے میں 4سے 6ہفتے درکار ہوںگے۔ہم نے آن لائن خریداری کا آرڈردیا اور ایک ہفتے کے اندر مطلوبہ چیز آگئی۔
اس کی بعض ٹیکنیکل خوبیوں کے علاوہ اس میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ یہ اس سے قبل کسی انٹرنیٹ سے منسلک نہیں کیاگیاتھا اس کا وائر لیس لوکل ایریا نیٹ ورک ڈی ایکٹی ویٹ کیاجاچکاتھا اور کوئی لین کیبل کبھی اس کے کیسنگ میں نہیںلگایاگیاتھا۔اسے ایئرگیپ کہاجاتاہے۔
سنو ڈن لیکس سے ملنے والے سبق میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جو کمپیوٹر کبھی کسی انٹرنیٹ سے منسلک نہ رہا ہو اور اگرایئر گیپ اسے دوسرے سسٹم سے ممیز کرتا ہو تو وہ ہیکرز کی دست برد سے نسبتاً زیادہ محفوظ رہتاہے۔انٹیلی جنس سروس اب بند رکھے گئے موبائل فون پر بھی کنٹرول حاصل کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں۔اس لیے ڈبلیو ایل اے این سے کنیکٹ کمپیوٹر ان کیلیے گرماگرم کیک کی مانند ہوتا جبکہ ایئر گیپ کوختم کرنے کیلیے سیکرٹ سروس والوں کومتعلقہ کمپیوٹر پر ذاتی رسائی حاصل کرنا ضروری ہوتاہے جس کے معنی یہ تھے کہ وہ سوڈش زیتانگ کے دفتر میں داخل ہونے کیلیے سیکورٹی گارڈز کے سامنے سے آئیں۔
اب ہم چند دن کے وقفے سے مل بیٹھتے اور یہ سوچتے کہ کام کو کس طرح آگے بڑھایاجائے ،ہم رپورٹنگ کی موجودہ ملازمت سے کسی حد تک مطمئن نہیں تھے ، ہم میں سے ایک سالمونہ سے آلودہ انڈوں سے متعلق اسکینڈل پر بھی کام کررہاتھا۔ دوسرے کو جرمن پارلیمنٹ پر ہیکرز کے حملے میں کسی جاسوسی کاعنصر نہ ہونے کے موضوع پر کام کررہاتھا بالفاظ دیگر ہمارے ساتھی ہانس لے ینڈیکراور کلاس اوٹ کم وبیش خوفناک آرٹیکلز کے حوالے سے ہماری پشت پر تھا۔کسی کوبھی یہ خبر نہیں تھی کہ اوبرمائیر برادرز کئی ہفتوں سے ایک نئے خفیہ پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں