میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شریف خاندان کی نظر ثانی اپیلوں پر سپریم کورٹ کاتاریخ ساز فیصلہ

شریف خاندان کی نظر ثانی اپیلوں پر سپریم کورٹ کاتاریخ ساز فیصلہ

منتظم
اتوار, ۱۷ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

سپریم کورٹ نے شریف خاندان اور اسحاق ڈار کی جانب سے دائر پاناما کیس میں نظر ثانی کی تمام اپیلوں کو خارج کرتے ہوئے نوازشریف کی نااہلی اور ان کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے سمیت اپنا 28 ؍جولائی کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔سپریم کورٹ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید ،جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس گلزاراحمد اور جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے اپیلوں کی سماعت کی جس میں شریف خاندان کی جانب سے پاناما نظر ثانی اپیلوں پر فریقین نے دلائل مکمل کیے۔سماعت کے دوران وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنس فائل ہونے سے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا کوئی تعلق نہیں ،برٹش ورجن آئی لینڈ نے مریم نواز کو مالک قرار دیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق بیان دیا ہے،کیپٹن صفدر کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔عدالت کا کہنا تھا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر مریم نواز کے شوہر ہیں ، یہ مناسب نہ ہوتا کہ ہم اس مرحلے پر کوئی آبزرویشن دے دیتے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے پہلے لندن فلیٹ کے تعلق سے انکار کیا تھا،جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مریم نواز لندن فلیٹ کی بینیفیشل مالک ہے،معاملے کی تحقیقات ہونے دی جائے۔ نواز شریف کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجانے کہا کہ انکوائری ہونی چاہیے تھی ریفرنس کا کیوں کہہ دیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نواز شریف نااہل رہیں گے،میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز اور صاحبزادی مریم نواز اور اسحاق ڈار کوبھی نااہل قرار دیا گیا تھا جبکہ تمام افراد کیخلاف نیب میں ریفرنس دائر کیے جائینگے ،اس کے علاوہ نیب کو حدیبیہ پیپرز ملز کیس میں بھی ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔سابق وزیراعظم نواز شریف نے پاناما کیس کے فیصلے پر نظرثانی کیلیے پہلی درخواست 15 اگست کو دائر کی تھی جس میں انہوں ں ے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جس بنیاد پر انہیں نااہل کیا گیا وہ کاغذات نامزدگی میں ظاہر کیے گئے تھے، لہذا سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔بعد ازاں 9 ستمبر کو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی جانب سے نظر ثانی کی ایک اور اپیل دائر کی گئی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ 12 ستمبر کو بینچ کے سامنے صرف 3 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں مقرر کی گئی ہیں ، ان کے ساتھ 5 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی سماعت کے لیے مقرر کی جائیں ، درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی تھی کہ دائر کردہ تمام اپیلوں کو ایک ہی بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کے بچوں حسین نواز، مریم نواز، حسن نواز اور داماد کیپٹن صفدر کی جانب سے 25 اگست کو دائر کی گئی نظرثانی اپیلوں میں کہا گیا تھا کہ جے آئی ٹی نے انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جبکہ عدالتی فیصلے میں جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات کو زیر غور نہیں لایا گیا ہے۔اسی طرح کیس کے فریق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے بھی نظرثانی کی اپیل دائر کی گئی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت عظمی ٰکے 28 جولائی کے فیصلے میں سقم موجود ہیں ، عدالت نے مکمل ریکارڈ نہیں دیکھا ہے۔ لہذا عدالت عظمی درخواست پر نظرثانی کرتے ہوئے 28 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے اور اس حوالے سے دائر درخواستیں بھی خارج کردے۔جن کی سماعت کی تاریخ 12 ستمبر مقرر کی گئی تھی، چند دن کی سماعت کے بعد عدالت نے 15ستمبر بروز جمعہ اپنا فیصلہ سنادیا۔ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انصاف کے حصول کے لیے جانا سپریم کورٹ ہی پڑے گا ، پاناما کیس میں نتائج کا اندازہ ہونے کے باوجود نظرثانی اپیل میں گئے، ملک میں انتشار برداشت نہیں کرسکتے۔اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ایسے لوگ موجود ہیں جو اداروں کو جھوٹی اور بے بنیاد رپورٹس دیتے ہیں ، اداروں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں اور پاکستان ادارہ جاتی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔مسلم لیگ (ن)کے رہنما نے کہا کہ ملک میں انتشار برداشت نہیں کرسکتے، سیاسی قیادت کو داغ دار کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا تو اس سے ملک میں کبھی بہتری پیدا نہیں ہوسکتی۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہماری بھی عزت نفس ہے اور عزت نفس کا تحفظ کرنا آتا ہے۔
نواز شریف اور اسحاق ڈار کی نظرثانی کی اپیلوں کی سماعت کے دوران ہی عدالت عظمیٰ کی طرف سے وکلا کومتنبہ کردیا گیا تھا کہ چھیڑ چھاڑ سے باز رہا جائے، مذکورہ فیصلہ محض جھلک ہے، عدالت کیس کی تہہ میں گئی تو پھر شکوہ نہ کیا جائے۔ دراصل یہ عدالت کی جانب سے انتباہ نہیں تھا بلکہ شریف خاندان کو نرمی سے سمجھانے کی کوشش تھی کہ فیصلے سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تو مزید پھنستے چلے جانے کا پورا امکان ہے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ وضاحت بھی کردی تھی کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ متفقہ تھا جب کہ شریف خاندان کا اصرار تھا کہ فیصلہ صرف تین ججوں کا تھا، متفقہ نہیں تھا۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں کا کہنا ہے کہ 5 رکنی بینچ نے بہت محتاط رہ کر فیصلہ لکھا تھا، وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں لیکن کسی جج نے نیب میں ریفرنس بھجوانے پر بھی اختلاف نہیں کیا۔ شریف خاندان کا پورا زور اس پر تھاکہ فیصلہ متفقہ نہیں تھا لیکن عدالت نے واضح کردیا ہے کہ 5 ججوں پر مشتمل بینچ کا فیصلہ متفقہ تھا اور کسی جج نے اختلاف نہیں کیا۔ جسٹس آصف سعید نے نظرثانی اپیل پر سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل کو یہ دلچسپ مشورہ دیا تھاکہ چلیں آپ ہمیں چھوڑیں ، 3 ججوں ہی کو اپنے دلائل سے قائل کرلیں ، ہم دو جج 3 ججوں کے فیصلے سے اختلاف کریں یا نہ کریں اس سے فرق نہیں پڑتا۔سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی اس شفقت کے باوجود نواز شریف کے وکلا نہ تواس مقدمے کے حوالے سے جج صاحبان کی رائے کو سمجھ سکے اورنہ ہی اپنے موکل یعنی نواز شریف کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوسکے کہ جی ٹی روڈ اور دیگر مقامات پر جلسوں اور اجتماعات کے ذریعے وہ عدلیہ کے فیصلے پر اثر انداز نہیں ہوسکیں گے اس لیے انھیں نوشتہ دیوار پڑھتے او ر حقائق کاا دراک کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرنی اوراپنی پارٹی کو منظم اورفعال رکھنے کے لیے متبادل قیادت کاانتظام کرناچاہئے۔
بہرحال یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاسی مقاصد سے کے زیر اثر آنے سے انکار کرتے ہوئے عدلیہ کے سامنے پیش کیے جانے والے حقائق کے مطابق فیصلہ دیا اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرتے ہوئے فریب دہی اور لوٹ مار کی نشان دہی کرتے ہوئے قصور وار کو سزا دی ہے، اس لیے سپریم کورٹ۔ عدلیہ کے اسی پختہ عزم نے سابق وزیر اعظم کا اصل چہرہ پاکستان کے عوام کے سامنے عیاں کردیا ہے۔ یہ اعلیٰ ترین عدلیہ کی جانب سے پاکستان میں سیاست دانوں اور سرکاری
عہدے داروں کے احتساب کی پہلی کامیاب کوشش ہے جس پر یقینا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت تمام جج حضرات مبارکباد کے مستحق ہیں ان کے اس فیصلے سے عوام کے دلوں میں عدلیہ کے احترام میں اضافہ ہوگا جس سے ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ امید کی جاتی ہے کہ ماتحت عدالتوں کے جج صاحبان بھی سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی قائم کردہ اس زریں مثال کی پیروی کرتے ہوئے اس ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے اور دولت یا طاقت کے بل پر قانون کو خریدلینے کے زعم میں مبتلا لوگوں کے سر سے دولت کانشہ اتار دیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں