میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات، سخت اقدامات کی ضرورت

خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات، سخت اقدامات کی ضرورت

جرات ڈیسک
پیر, ۱۷ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

گزشتہ کچھ دنوں کے دوران ملک میں خواتین کو ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات تواتر کے ساتھ سامنے آئے ہیں جس سے عام طورپراس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ ہمارے بڑے شہر بھی جہاں قانون کی عملداری نسبتاً زیادہ ہوتی ہے، خواتین کے لیے غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں کراچی اور اسلام آباد میں 2 واقعات منظرِ عام پر آئے ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ مرد خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کیلئے سرعام فحش حرکتیں کرتے ہیں۔ اتفاقیہ طور پر یہ عمل کیمرے میں قید ہو گیا جس کے نتیجے میں عوام میں غم و غصہ جنم لے چکا ہے، جس نے حکام کو معاملے کی تحقیقات کرنے پر مجبور کیا۔دراصل خواتین کو نہ صرف گھر بلکہ عوامی سطح پر بھی مردوں کے سخت اور تسلط پسند رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر روز بس کی سواری کیلئے سڑکوں پر چلنا خواتین کیلئے کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا۔ عوامی مقامات پر قدم رکھنے والی ہر خاتون نے یا تومردوں کے ہاتھوں ہراسگی کا نشانہ بننے والی خواتین کو دیکھا ہوتا ہے یا پھر خود اس بد ترین فعل کا نشانہ بن چکی ہوتی ہے۔ اگر ان واقعات کی اطلاع گھر والوں یا رشتہ داروں کو دی جاتی ہے تو خواتین کو چپ رہنے کا کہا جاتا ہے یا پھر ہراسگی کا الزام الٹا خود ان پر ہی لگا دیا جاتا ہے۔ہراسگی کے ان واقعات کی صورتحال اس قدر تشویشناک ہوچکی ہے کہ خواتین کو کسی بھی تکلیف دہ تجربے سے بچنے کے لیے مرد محافظ کے بغیر عوامی مقامات پر تنہا سفر کرنے میں دشواری محسوس ہونے لگی ہے۔ جنسی حملوں اور صنفی بنیاد پر تشدد کا شکار ہونے والی ان تمام خواتین کا تعلق نچلے اور متوسط طبقے سے ہی نہیں بلکہ ان میں سے بعض کاتعلق معاشرے کے دولت مند گھرانوں سے بھی ثابت ہوا ہے،ان واقعات میں اضافے کا ایک سبب یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا واقعہ اخبارات یا چینل کے ذریعے سامنے لے آیا جاتا ہے تو وقتی طورپر انتظامیہ حرکت میں آجاتی ہے اور ملزمان گرفتار بھی کرلیے جاتے ہیں لیکن اس کے بعد دیکھنے میں یہ آیاہے کہ بیشتر واقعات میں قانون کے رکھوالے اورمجرموں کو گرفتار کرنے والے ہی متاثرہ فیملیز کو صلح کرکے معاملے کا دبادینے کیلئے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہیں اور بعض اوقات مقدمے کا رخ تبدیل کرکے خود متاثرہ فریق ہی کو ذمہ دار قرار دے کر مجرموں کو کلین چٹ دلوانے کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں۔ اس طرح ان واقعات کے زیادہ تر ذمہ دار اپنے اثر ورسوخ اور دولت کی بنیاد پر قانون سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہ اس طرح کے معاملات میں ذاتی دلچسپی لیں اور رشوت یا اثر ورسوخ کی بنیاد پر کسی مجرم کو سہولت فراہم کرنے سے ایک لمحہ کیلئے یہ سوچنے کی زحمت کریں کہ کل کلاں ان کے گھر کی خواتین بھی اسی طرح کے کسی مجرم کا نشانہ بن سکتی ہیں۔خواتین کو ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کا سدباب کرنے کیلئے ضروری ہے کہ نظامِ انصاف ہراسگی کی شکار خواتین کی امداد کیلئے سامنے آئے اور خواتین پولیس افسران یا خواتین کی شکایات سے ہمدردی رکھنے والے افراد کو پولیس افسران تعینات کیا جائے۔ ہر خاندان اور خاص طورپر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سرکردہ افراد کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہراسگی اور تشدد ناقابلِ قبول چیزیں ہیں اور اس کی روک تھام کو یقینی بنانے کیلئے سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے تا کہ ہماری خواتین، بچیاں اور لڑکیاں اپنے گھروں اور عوامی مقامات پر ہر لحاظ سے محفوظ ہوں اور کوئی انہیں ہراساں نہ کرسکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں