میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کراچی کی تاریخ کا بدترین جمہوری دن

کراچی کی تاریخ کا بدترین جمہوری دن

ویب ڈیسک
هفته, ۱۷ جون ۲۰۲۳

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کراچی کے عوام کے مینڈیٹ پر قبضے کے پورے عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت پر شب خون مار کر مرضی کا نتیجہ حاصل کیا گیا۔ قبضہ مینڈیٹ کسی صورت قبول نہیں۔ ڈھٹائی اور دلیری سے کراچی کے عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ سندھ اور پاکستان کی تاریخ کا بدترین جمہوری دن ہے۔امیر جماعت اسلامی کراچی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے پیپلز پارٹی کی بی ٹیم کا کردار ادا کیا۔ اس میئرشپ کو قبول نہیں کریں گے۔ شہر کے لوگوں نے ہمیں ووٹ دیا۔ کراچی کے لوگ کرپشن سے پاک نظام چاہتے ہیں۔ ہمارے 31 لوگوں کو اغوا کیا اور خریدا گیا۔ یہ قبضہ، اغوا والا مینڈیٹ قبول نہیں کر سکتے۔ہم پْرامن عوامی احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور جمہوری حق کے لیے اپنی آواز اٹھائیں گے۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ میئر اور ڈپٹی میئر کراچی کے نتائج ، پی پی پی کا طاقت کے زور پر جمہوریت پر ڈاکہ ہے۔15 جون سندھ اور پاکستان کی تاریخ کا بدترین جمہوری دن تھا۔ الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے جمہوریت پر شب خون مارا گیا۔ یہ ایک پارٹی کو فائدہ پہنچانے والی حلقہ بندیاں تھیں۔ کراچی کے مینڈیٹ پر شب خون مارا گیا۔ کراچی کے مینڈیٹ کے تحفظ کیلئے عدالت جائیں گے، اورپْرامن احتجاج کریں گے۔ کراچی شہر کو ایک شہزادے کی خواہش کے مطابق نہیں چلایا جاسکتا۔ پیپلز پارٹی اندرون سندھ پر توجہ دے جو موہنجوداڑو کا منظر پیش کر رہا ہے۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے ہر مرحلے میں بدترین دھاندلی ہوئی۔ میئر کے انتخاب کے دوران 31 منتخب افراد کا غائب ہونا ملکی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ جماعت اسلامی و دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے میئر کراچی کے امیدوار نے شہر کے مینڈیٹ کو چرانے کی مبینہ کوشش کو 1970 میں مشرقی پاکستان کے انتخابی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے سے تشبیہ دی۔پی پی پی نے پہلے بھی ملک کو تقسیم کیا لیکن مینڈیٹ کوتسلیم نہیں کیا، یہ آپ کی تاریخ ہے۔ آج تم پھر وہی کر رہے ہو۔ آپ لوگوں کو اغوا کر رہے ہیں۔ بھٹو صاحب نے یہ بھی یہی کچھ کیا تھا۔کل بھی آپ لوگوں کو اٹھا رہے تھے۔ مولانا جان محمد عباسی جو ان کے مخالف امیدوار تھے ان کو اغوا کروا کر انتخاب جیتا تھا۔ چاروں صوبائی وزرا اعلیٰ بھی بھی اسی طرح منتخب ہوئے تھے۔ آپ جیت سکتے ہیں اور نہ ہی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے آپ فاشزم کرتے ہیں۔ انہوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔جہاں تک پی ٹی آئی کے ارکان کے اغوا یا انہیں خریدنے کا تعلق ہے تو یہ حقیقت ہے کہ پی پی پی نے ہمیشہ اقتدار کی خاطر ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کیا ہے۔ دھونس ، دھاندلی اور طاقت کے ذریعے بلدیاتی انتخاب سے لے کر صوبائی و قومی انتخابات جیتے ہیں۔ مخالف ارکان کو بھاری رقوم کے عوض خریدا گیا جو نہ بکا اسے اغوا کر لیا گیا۔ تحریک انصاف کی خواتین اراکین نے کہا ہے کہ ہم سے رابطہ کر کے بھاری رقم کی آفر کی گئی مگر ہم نے میئر کراچی کے انتخاب کیلئے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔
پیپلز پارٹی کی تاریخ ہی یہ رہی ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنا مفاد مقدم رکھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال سقوط ڈھاکہ ہے۔ سقوط ڈھاکہ کی ایک بڑی وجہ پیپلز پارٹی کا مجیب الرحمان کے مینڈیٹ کو تسلیم نا کرنا تھا۔یہ عام انتخابات کی ریہرسل ہے۔پیپلزپارٹی نے 1971 کا نسخہ دوبارہ استعمال کیا ہے۔ شہر قائد کے میئر اور ڈپٹی میئر کیلئے انتخاب کا عمل مکمل ہوگیا، جس میں پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب میئر کراچی منتخب ہوگئے ہیں جبکہ ڈپٹی میئر کا تاج بھی پیپلزپارٹی کے سلمان عبداللہ مراد کے سر سج گیا ہے۔میئر کراچی کیلئے پیپلزپارٹی کے مرتضیٰ وہاب اور جماعت اسلامی کے حافظ نعیم کے درمیان مقابلہ ہوا، شو آف ہینڈز کے ذریعے ووٹنگ کی گئی۔غیر حتمی غیر سرکاری نتیجہ کے مطابق پیپلزپارٹی کے مرتضیٰ وہاب 173 ووٹ لیکر میئر کراچی منتخب ہوئے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم نے 161 ووٹ حاصل کئے۔کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئر الیکشن کے موقع پر 33 اراکین غیر حاضر رہے۔
جماعت اسلامی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خط میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سندھ حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 29 ارکان کو اغوا کیا۔ پی ٹی آئی ارکان کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا گیا۔ الیکشن کمیشن کا بنیادی مقصد صاف و شفاف الیکشن کرانا ہے لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کمیشن خاموش تماشائی بنا رہا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حاضری مکمل کی جاتی اور پھر میئر کے انتخاب کا عمل شروع کیا جاتا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔الیکشن کمیشن سے استدعا ہے کہ میئر اور ڈپٹی میئر کے فراڈ الیکشن کو کالعدم قرار دے کر نیا شیڈول جاری کرے۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ ہم میدان چھوڑنے والے لوگ نہیں۔پہلے الیکشن کمیشن اور پھر عدالت جائیں گے۔ کراچی کے لوگوں کو ان سے امید ہوتی تو ان کو ووٹ ڈالتے، انہوں نے مینڈیٹ پر قبضہ کیا۔ ہماری لڑائی پیپلز پارٹی سے نہیں چوری، ڈاکے سے ہے۔ 15 سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ پیپلز پارٹی نے ڈلیور نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کراچی کے عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکتی۔ کب تک ہمارے لوگوں کو لاپتا رکھیں گے۔ ایک ایک ووٹ کی حفاظت کرنا اپنا حق سمجھتا ہوں۔ افسوس دوخواتین کو بھی لاپتا کیا گیا، ایوان مکمل نہیں۔یہ فری فیئر الیکشن کیسے ہوگا جب 30 منتخب بندے کہیں نہیں ہیں کب تک لوگوں کو لاپتا رکھیں گے، ہمارے پاس سارے آپشن موجود ہیں، حالات دیکھ کر سارے آپشن استعمال کریں گے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں