میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تلور کی آڑ میں انسانیت کا شکار؟

تلور کی آڑ میں انسانیت کا شکار؟

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۸ نومبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

منظر
۔۔۔۔۔
ذکی ابڑو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سندھ میں پولیس کی خراب کارکردگی پر عدالتوں ہی سے آوازیں نہیں آ تیں بلکہ سول سوسائٹی اور متاثرہ شہری بھی اس پر اپنی آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں،مقتول صحافی عزیز میمن ہو؟یا ناظم جوکھیو کا قتل؟ یاپھر دادو میں تہرے قتل کے الزام میں دو اراکینِ اسمبلی کے نامزد ہونے کا معاملہ؟پولیس پر سیاسی دباؤ اور ملزمان کو بچانے کی شکایات زد عام ہیں،دادو واقعے کی مدعی اور مقتول کی بیٹی اْم رباب نے سرداری اور جاگیردارانہ نظام کو اپنے والد، دادا اور چچا کے قتل کا موجب قرار دیاہے؟ایم پی اے جام اویس کے شاہی مہمان سندھ میں جس پرندے کا شکار کرنے آئے تھے اس کا نام تلور ہے۔19 اگست 2015 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے تلور کے شکار پر پابندی عائد کی اورجنوری 2016 میں اعلی عدلیہ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے یہ پابندی ختم کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ تلور کا شکار ملکی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے اورپھر اسے قبول کرلیاگیا،تلورکے شکارکی آڑمیں آج انسانیت شکارہورہی ہے؟ہمیں کوئی سوموٹوایکشن نظرنہیں آتا؟مقتول ناظم جوکھیوکے بیوہ اوربچوں کوانصاف کس پالیسی کے تحت ملے گا اس کے لیے کوئی لارج بینچ نہیں بنا؟ مقتول ناظم کے بھائی افضل جوکھیوکہتے ہیں کہ انہوں نے جام اویس پر اندھا اعتماد کرتے ہوئیے بھائی کو ان کے حوالے کیاجس کی لاش دوسرے دن علی الصبح کچرے کے ڈھیرسے ملی؟پس یہ ثابت ہواکہ درندوں کے اس معاشرے میں انسانی زندگی سے ’’تلور‘‘ زیادہ اہم ہے؟کراچی کے علاقے ملیر میں مبینہ طور پر رکنِ سندھ اسمبلی جام اویس کے تشدد سے قتل ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو کا کہناہے کہ میرے بھائی کاصرف اتنا قصورتھا کہ اس نے چند غیر ملکی شکاریوں کو اپنے علاقے میں تلور کے شکار سے روکا اورراستہ نہ دینے پران کی ویڈیو بنائی جس کے بعد اسے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بناکرلاش کچرے کے ڈھیرپرپھینک دی گئی؟ناظم جوکھیو قاتلوں کوسزادینے کی آوازسینیٹ میں بھی گونجی؟اورمنتخب سینیٹرز نے واقعے کو سندھ پولیس اسٹیٹ قرار دیا،چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے واقعے پر رپورٹ طلب کی ہنوزکیس عدالت میں تفتیشی مراحل سے گزرہاہے واضح رہے کہ ملیر کے علاقے میمن گوٹھ کے قریب سے ملنے والی ناظم جوکھیو کی لاش اس گلے سڑے فرسودہ جاگیردارانہ نظام پرایسا تھپڑ ہے جو روز کسی بے گناہ کے قتل کی صورت سیدھا ہمارے منہ پرپڑتاہے، مقتول کے اہل خانہ نے ناظم کے قتل کو پیپلزپارٹی کے رکن سندھ اسمبلی جام اویس کے مہمانوں کے شکار کی ویڈیو وائرل ہونے کانتیجہ قراردیاہے ورثاء کہتے ہیں کہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ناظم جوکھیو کو سردارجام اویس نے ملیر اپنے
گھر بلا کر وحشیانہ تشدد کیا جس سے وہ جاں بحق ہوا؟آج ناظم کے قتل کی گواہی دینے والوں کیخلاف پولیس نے زمین تنگ کررکھی ہے کیس پر دباؤ اورورثاء کی جانب سے شدید تحفظات سامنے آنے کے بعد شہید ناظم جوکھیو قتل کیس کی نئی جے آئی ٹی تشکیل دیدی گئی،نوٹی فیکشن جاری کردیاگیاہے،مدعی مقدمہ کی جانب سے ڈی آئی جی ایسٹ کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا،شہید ناظم الدین جوکھیو قتل کیس کی انوسٹی گیشن کا ہیڈ ڈی آئی جی تنویر عالم اوڈھو کو مقرر کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیاگیاہے،موجودہ جے آئی ٹی کیس کی انوسٹی گیشن کو آگے بڑھاتے ہوئے کیس سے متعلق شواہد اکٹھا کرنے میں مدد فراہم کرے گی ،سکھر رینج کے ڈی ایس پی غلام علی جمالی اور حیدرآباد رینج کے انسپکٹر سراج احمد لاشاری بھی نئی جے آئی ٹی کے ممبران میں شامل ہیں اس وقت جام اویس ٹھٹہ میر پور ساکرو کی صوبائی نشست ان کے بڑا بھائی ملیر کی دیہی قومی اسمبلی کی نشست سے رکن اسمبلی منتخب ہیں جواس بات کاواضح ثبوت ہے کہ سندھ میں جاگیر دارانہ سسٹم کس حد تک حاوی ہے؟ اور قانون سازی کرنے والی نشستوں پربراجمان بھی ہے؟ہمیں ڈر ہے کہ کہیں تلورکے شکارکی آڑمیں انسانیت کے شکارکی پالیسی غالب آگئی تو ہماری آنے والی نسلیں تک اس ناسور کے درد ناک نتائج کو بھگتیں گی؟ آخر کب تک جاگیر داروں کی گرائی ہوئی لاشیں بھائی اپنے کاندھوں پر اٹھاتے رہیں گے؟ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کبھی کسی جاگیر دار کو اس کے ظلم اور بربریت کی قانونی تقاضوں کے تحت سزا ملی ہو جاگیردار،وڈیرے ہمیشہ قانون اور آئین سے بالا تر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہم اکیسویں صدی میں بھی سرمایہ دار اور جاگیردارانہ سسٹم کو بھگت رہے ہیں؟ان کی اپنی سلطنت؟ اپنا آئین اوراپنا قانون ہوتاہے؟ یہ ان پڑھ اور جاہل وڈیرے، پنچایت کے نام پر سیکڑوں مظلوموں کے فیصلہ کرکے انہیں اپنی ظلم کی بھینٹ چڑھاتے ہیں؟ جام اویس گہرام آج عدالتی کٹہرے میں ہے معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا توہمیں ڈر ہے کہ ’’تلو ر‘‘ کے شکارکی آڑمیں انسانیت کا شکار کرنے کی ریت نہ پڑجائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں