میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیراعظم کی جے آئی ٹی میں پیشی

وزیراعظم کی جے آئی ٹی میں پیشی

منتظم
هفته, ۱۷ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں


وزیراعظم محمد نواز شریف نے گزشتہ روز بالآخر پاناما لیکس کیس میں سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے روبرو تفتیش کے لیے پیش ہوکر اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے ساتھ ہی جے آئی ٹی کی طلب کردہ بعض دستاویزات اور کاغذات بھی جے آئی ٹی ارکان کے حوالے کردیے جو بقول نواز شریف سپریم کورٹ کے پاس پہلے ہی سے موجود تھے۔ وزیراعظم جے آئی ٹی کے جاری کردہ سمن کی تعمیل کرتے ہوئے صبح گیارہ بجے کے قریب متعلقہ دستاویزات اور ریکارڈ کے ساتھ جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد پہنچے جہاں جے آئی ٹی کے ارکان نے کم وبیش 3گھنٹے تک ان سے پوچھ گچھ کی۔جے آئی ٹی میں وزیراعظم نواز شریف کی پیشی کے حوالے سے مقامی انتظامیہ نے خصوصی حفاظتی انتظامات کیے تھے اورجو ڈیشل اکیڈمی کے باہر 500 سے زیادہ پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے جبکہ رینجرز اہلکار بھی اکیڈمی کے باہر موجود تھے۔ وزیراعظم کی جے آئی ٹی آمد سے قبل جوڈیشل اکیڈمی کی مرکزی سڑک کی مرمت کر کے علاقے کی صفائی کا عمل بھی شروع کردیا گیا تھا جبکہ سی ڈی اے کے اہلکار سڑکوں کے اطراف لگے درختوں کے بنائو سنگھار اور جوڈیشل اکیڈمی جانے والی سڑک سے جھاڑیوں کو ہٹانے کے عمل میں مصروف نظر آرہے تھے۔ دوسری جانب حکمران مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی جانب سے جوڈیشل اکیڈمی کے اطراف وزیراعظم نواز شریف کی حمایت میں بینر آویزاں کیے گئے تھے جن پر ’’قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے نعرے درج تھے۔
جے آئی ٹی میں پیشی اور تقریباً 3 گھنٹوں کی پوچھ گچھ کے بعد جوڈیشل اکیڈمی کے باہر حسین نواز اور حمزہ شہباز کے ہمراہ میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ‘میں جے آئی ٹی کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرکے آیا ہوں، میرے تمام اثاثوں کی تفصیلات متعلقہ اداروں کے پاس پہلے سے موجود ہیں، میں نے آج پھر تمام دستاویزات جے آئی ٹی کو دے دی ہیں’۔وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ‘آج کا دن آئین اور قانون کی سربلندی کے حوالے سے سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے۔وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ میں اور میرا پورا خاندان اس جے آئی ٹی اور عدالت میں سرخرو ہوں گے’، ساتھ ہی انھوں نے سوال کیا کہ ‘ملک میں کوئی ایسا خاندان ہے جس کی تین نسلوں کا حساب ہوا ہو؟انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اگر پاناما پیپرز کا معاملہ سامنے آنے کے بعد قومی اسمبلی میں گزشتہ سال کی میری دی گئی تجویز پر عمل کرلیا جاتا تو پاناما کیس کا معاملہ یہاں تک نہ پہنچتا۔وزیراعظم نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ ہمارے دامن پر نہ پہلے کبھی کرپشن کا داغ تھا اور نہ اب ایسا ہوگا’، انھوں نے کہا کہ ‘میں پنجاب کا وزیراعلیٰ بھی رہا ہوں، مجھے 20 کروڑ عوام نے تیسری مرتبہ ملک کا وزیراعظم منتخب کیا ہے اور میرے حالیہ دور میں اتنی سرمایہ کاری ہوئی جتنی گزشتہ 65 سال میں بھی نہیں ہوئی، مجھ پر بدعنوانی یا کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے’۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ موجودہ صورت حال میں بھی ہم پر کرپشن کا الزام نہیں ہے بلکہ ہمارے خاندان اور ذاتی کاروبار پر الزامات لگائے جارہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ چند دن میں جے آئی ٹی کی رپورٹ اور عدالتی فیصلہ بھی آجائے گا، اس کے بعد 20 کروڑ عوام کی جے آئی ٹی بھی لگنے والی ہے، ’ایک بڑی جے آئی ٹی عوام کی عدالت میں بھی لگنے والی ہے جس میں ہم سب کو پیش ہونا ہے، وقت آگیا ہے کہ حق اور سچ کا علم بلند ہو‘۔وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ میں آج صرف اس لیے جوڈیشل کمیشن میں پیش ہوا ہوں کہ ہم سب عدالت کے سامنے جوابدہ ہیں، عوام 2013 سے زیادہ 2018 میں ہمارے حق میں فیصلہ کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نواز شریف نے یہ بھی اعتراف کیا کہ عدالت عظمیٰ اور عوام کی عدالت سے بڑی ایک عدالت اللہ تعالیٰ کی عدالت بھی جہاں ہم سب کو پیش ہوکر اپنے اعمال کاحساب دینا ہے، وزیراعظم نے کہا کہ مجھے ہر وقت وہاں پیش ہونے کی فکر لاحق رہتی ہے۔
میاں نواز شریف کا بطور وزیراعظم پاکستان کسی تفتیشی ٹیم کے روبرو پیش ہونا بلاشبہ ملک کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کا پہلا اچھوتا، انوکھا اور یادگار واقعہ ہے،اور اس کا سہرا بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے سر جاتاہے کہ جن کی پیہم کوششوں کے نتیجے میں وزیر اعظم نواز شریف کو بالآخر جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے پرمجبور ہونا پڑا ،جے آئی ٹی کے سامنے وزیراعظم نواز شریف کی پیشی بلا شبہ ایک اچھی اور مثبت روایت ہے اس سے جہاں ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا تصور مستحکم ہو گا وہیں اس سے جمہوریت کی بنیاد بھی مستحکم ہو گی اور اس کے یقیناً ہماری قومی معاشرت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ایک زیادہ اچھی او رخوش آئند بات ہے کہ بقول وزیراعظم انھیں اللہ کی عدالت کے سامنے پیش ہوکر جوابدہی کی فکر لگی رہتی ہے ،اگر واقعی ایسا ہی ہے اور اگر ہمارے تمام حکمراں اور ارباب اختیار دن میں صرف ایک دفعہ بھی اللہ کی عدالت میں پیشی کا تصور بھی کرلیں تو پھر یہ ملک حقیقی معنوں میں جنت نظیر بن سکتا ہے،اگر وزیر اعظم نواز شریف واقعی اللہ کی عدالت میں پیشی کے بارے میں فکر مند ہوجائیں تو انھیں جمشید دستی اور ان جیسے سیکڑوں سیاسی رہنمائوں کو جیل میں بند رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی، لیکن وزیر اعظم کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کی فکر بھی ہے او ر جمشید دستی جیسے سیاسی رہنما محض عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے جرم میں پابند سلاسل بھی ہیں، وزیر اعظم کو خود ہی اس دوعملی پر غور کرنا چاہیے۔
یہ جمہوریت کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ اس میں منتخب سربراہان حکومت و مملکت بھی خود کو احتساب کے لیے کسی بھی مجاز فورم پر پیش کرنے پر ہمہ وقت آمادہ ہوتے ہیں اور اس کے لیے اپنے آئینی استثنیٰ کا بھی سہارا نہیں لیتے ، عدلیہ کی آزادی اور آئین و قانون کی حکمرانی بھی جمہوری ادوار کے ساتھ ہی وابستہ ہے تو عدلیہ سمیت تمام آئینی، قانونی اور ریاستی اداروں کو بہر صورت جمہوریت کی تقدیس و پاسداری کرنی چاہیے اور اسے گزند پہنچانے کی کسی بھی سوچ کو پنپنے نہیں دینا چاہیے۔ آج میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف زیر تفتیش پاناما کیس میں سلطانی جمہور کی پاسداری ملحوظ خاطر رکھنے کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ اس کیس کی بنیاد پر جمہوریت کو پنپنے نہ دینے کے خواہش مند عناصر کی جانب سے ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے جس سے جمہوریت کی گاڑی پھر سے پٹڑی سے اتارنے کا کوئی راستہ نکل سکتا ہو، وزیراعظم نواز شریف نے خود کو آئین و قانون کی عملداری میں لا کر سلطانی جمہور کو اپنے حکمرانوں کی بھی جوابدہی کا عملی نمونہ بنایا ہے اور جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہو کر وزیراعظم نواز شریف جمہوری حکمرانوں کی جانب سے اپنے احتساب کے لیے ہمہ وقت آمادگی کی مثال قائم کر رہے ہیں۔پاناما کیس یقیناً معمولی نوعیت کا نہیں ہے کیونکہ عدالت عظمیٰ کے متعلقہ بنچ کے دو فاضل ارکان پہلے ہی وزیراعظم کی نا اہلیت کی رائے دے چکے ہیں اور اب عدالت عظمیٰ کے تین فاضل ججوں کی کڑی نگرانی کے تحت جے آئی ٹی میں وزیراعظم اور ان کے صاحبزادوں کی انکوائری ہو رہی ہے۔ اس لئے اس کیس کوبہر صورت آئندہ کے لیے انصاف کی عملداری کی مثال بننا ہے چنانچہ انصاف کا یہی تقاضہ ہے کہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچنے دیا جائے اور جو عناصر اس کیس کی بنیاد پر سسٹم کی اکھاڑ پچھاڑ پر مبنی اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں، ان کی سازشیں کسی صورت کامیاب نہ ہونے دی جائیں۔آج جمہوریت کو بچانے کے اقدامات کی زیادہ ضرورت ہے جس کے لیے سیاسی رواداری کو فروغ دینا ہو گا۔ یقیناً اس کے لیے بھی حکمران پارٹی پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں