میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عزیر بلوچ کے پاک فوج کی تحویل میں جانے سے سیاست دانوں کی نیندیں اڑگئیں

عزیر بلوچ کے پاک فوج کی تحویل میں جانے سے سیاست دانوں کی نیندیں اڑگئیں

ویب ڈیسک
پیر, ۱۷ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

فریال تالپور کو ماہانہ ایک کروڑروپے بھتہ دیا جاتا تھا،بلاول ہاوس کے اطراف کے بنگلے اور فلیٹ خالی کرائے
عسکری قیادت نے ملکی و غیر ملکی دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کرنے میں تیزی کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس میں ملک دشمن اور جرائم پیشہ عناصر ضرور گرفت میں آئیں گے
محمد فہد بلوچ
لیاری گینگ وار کا مرکزی کردار اس وقت پاک فوج کی تحویل میںہے اور میڈیا پرآئے روز آنے والے انکشافات نے عزیر بلوچ سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔عزیر جان بلوچ کو لیاری میں پاکستان پیپلز پارٹی کا سیاسی نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ پیپلز پارٹی گزشتہ کچھ برسوں سے خود کو اس شناخت سے الگ کرنا چاہتی تھی۔2001ءمیں عزیر نے لیاری کے ناظم کا الیکشن بطور آزاد امیدوار لڑا۔ تاہم پیپلز پارٹی کے ایک جیالے، حبیب خان نے اسے اس انتخاب میں شکست دے دی۔عزیر بلوچ لیاری کے ایک ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف فیضو ماما کا بیٹا ہے۔ وہ جرائم کی دنیا میں اس وقت داخل ہوا جب 2003ءمیں ارشد عرف ارشد پپو گینگ نے اس کے باپ کو قتل کیا۔اس نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ارشد پپو،عبدالرحمن عرف رحمن ڈکیت کا دشمن تھا۔رحمن ڈکیت، لیاری میں منشیات اور زمین کے معاملات میں ارشد پپو گینگ کے ساتھ ایک پرانی اور تلخ خانہ جنگی میں مبتلا تھا۔عزیر نے رحمن ڈکیت کے گینگ میں شمولیت اختیار کر لی کیونکہ پپو گینگ کے لوگوں نے اسے اپنے باپ کا مقدمہ عدالت لے جانے پر دھمکیاں دینی شروع کر دی تھیں۔ عبدالرحمن کی موت کے بعد عزیر کو گینگ کا سربراہ منتخب کر لیا گیا۔2012ءتک پیپلز پارٹی درپردہ عزیر کو تحفط فراہم کرتی رہی۔ ایک دو بار پولیس نے اسے گرفتار کیا تو پی پی پی کے رہنماو¿ں،کارکنوںکی مداخلت پر اسے فوراً رہا کر دیا جاتا۔پھراویس مظفرالمعروف ٹپی نے لیاری سے الیکشن لڑنا چاہا مگر عزیر نے انکار کر دیا۔ عزیر کے پیپلز پارٹی کی پیپلز امن کمیٹی سے تعلقات خراب ہونے کے فوراً بعداپریل 2012ءمیں لیاری میں آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا۔پی پی پی کے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے آغاز کی وجوہات خالصتاً سیاسی تھیں۔ایک ہفتے بعد آپریشن ختم کر دیا گیا اور نتیجتاً پی پی پی کو 2013ءکے عام انتخابات میں لڑنے کے لیے اپنی قبیل کے لوگ منتخب کرنے کی اجازت دے دی گئی۔لیکن جب اندرونی لڑائیوں کے سبب پیپلز امن کمیٹی ٹوٹ گئی اور یہاں گروہ در گروہ بنتے گئے تو حالات مزید بگڑ گئے، عزیر بلوچ پر درجنوں مقدمات ہیں۔ ان میں اغوا، قتل اور دہشتگردی کے مقدمات بھی ہیں۔لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیز بلوچ نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق صدرزرداری کی بہن کو ماہانہ ایک کروڑ روپے بھتہ جاتا جبکہ گینگ وار کو مکمل سرپرستی حاصل تھی ، اگر پکڑے جاتے تھے تو رہائی بھی دلوائی جاتی تھی ، یہاں تک کہ اعلیٰ سیاسی وسرکاری عہدیداران کی سرپرستی میں گینگ کارندے سرکاری محکموں سے بھی بھتے وصول کرتے رہے ہیں،24اپریل 2016ءکو جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کے روبرو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164کے تحت بیان ریکارڈ کراتے ہوئے عزیر بلوچ کا کہنا تھاکہ 2003ءمیں رحمان ڈکیت گروپ میں شرکت کی اور2008ءتک اسی گروپ کے ساتھ کام کرتارہا تاہم رحمان کی ہلاکت کے بعدلیاری گینگ کا گروپ سنبھال لیا، پھر پیپلزامن کمیٹی بناکر اس کا چیئرمین بن گیا۔ساتھیوں کی مدد سے پشین سے اسلحہ منگوایا اوربااثرافراد کی سرپرستی میں بھتہ خوری، منشیات فروشی اور اغواجیسی وارداتیں کرتاتھا، قادر پٹیل ، یوسف بلوچ اور دیگراعلیٰ افسران ہمارا خیال رکھتے تھے اور اگر کوئی پکڑا جاتاتواسے چھڑاتے تھے۔ عزیربلوچ نے انکشاف کیاکہ سرکاری محکموں سے بھی بھتے وصول کیے، فشریز سے 20لاکھ روپے بھتہ ملتاتھا جبکہ2013ءمیں ہونیوالے عام انتخابات تک سینیٹر یوسف بلوچ اور فریال تالپور کے رابطے میں تھا،فریال تالپور کو ماہانہ کروڑ روپے بھتہ ملتا تھا۔ 2013ءمیں کراچی آپریشن میں تیزی آئی تو فریال تالپور نے مجھے قادر پٹیل، یوسف بلوچ کے ذریعے اپنے گھر جو ڈیفنس میں واقع تھا بلوایا، اس موقع پر شرجیل انعام میمن اور نثار میمن بھی موجود تھے، فریال تالپور نے لیاری گینگ وار و دیگر معاملات میں بات چیت کی۔ اس نے ذاتی اسلحہ گولہ بارود چھپانے کو کہا اور انتظامی معاملات شرجیل انعام میمن اور نثار مورائی کے حوالے کرنے جبکہ لیاری کے معاملات قادر پٹیل اور سینیٹر یوسف بلوچ کے حوالے کیے اور مجھے فریال تالپور نے بیرون ملک جانے کو کہا تھا۔عزیربلوچ کاکہناتھاکہ میں نے متعدد غیرقانونی کام کیے ، جن میں جرائم پیشہ افراد کو مختلف محکموں میں نوکریاں دلا کر پہنچانا بھی شامل ہے، زرداری کے کہنے پر جرائم پیشہ افراد بلاول ہاو¿س بھجوائے جنہوں نے گردونواح میں بنگلے زبردستی خالی کرائے ۔

٭٭٭
عزیر بلوچ کی بیٹی کے انکشافات نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا
عزیر بلوچ کی بیٹی کا کہنا ہے کہ میرے والد کو پاکستان پیپلزپارٹی کے نام نہاد رہنماو¿ں نے استعمال کیا۔ میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے عزیر بلوچ کی بیٹی نے انکشاف کیا کہ میرے والد کو پیپلزپارٹی کے رہنماو¿ں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹر یوسف بلوچ، فریال تالپور، شرمیلا فاروقی اور وزیراعلیٰ سندھ کے فون آتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری وزیراعظم سے درخواست ہے کہ میرے والد کو تحفظ فراہم کیا جائے ان کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ عزیر بلوچ کی بیٹی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ثانیہ ناز میرے والد کے دل میں جگہ بنانا چاہتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارے گھر میں نوکرانیوں کی طرح رہتی تھی۔عزیر بلوچ کی بیٹی نے مزید کہا کہ ثانیہ ناز یا جاوید ناگوری کی اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وہ کسی کو کھانا کھلا سکیں وہ دعوت میرے والد عزیر بلوچ ہی کی جا نب سے دی گئی تھی جس میں شرمیلا فاروقی اور شہلا رضا سمیت پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما شریک ہوئے تھے۔ گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کی بیٹی کا مزید کہنا تھا کہ جب ا س کے پاپا لیاری میں تھے تو سب آتے تھے۔ اب فریال تالپور، شرجیل میمن، شرمیلا فاروقی کوئی فون تک نہیں ا ٹھاتا۔
کل بھوشن یادیو اور عزیر بلوچ ایک ہی سکے کے دو رخ
کل بھوشن یادیو کے بارے میں لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر جان بلوچ نے اپنی گرفتاری کے بعد جو معلومات فراہم کیں ان کی روشنی میں یہ بھارتی جاسوس گرفتار ہوا، عزیر جان بلوچ نے بلوچستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی راکے نیٹ ورک اور پاکستانی سرحد کے قریب ایرانی علاقے میں اسی ایجنسی کے بیس کیمپ سے متعلق اہم انکشافات کیے جہاںبھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری میں اہم کردار ادا کیا وہیں بلوچستان اور ایران کے درمیان دہشتگردوں کے نیٹ ورک اور کئی مراکز میں ان کی تربیت کے بارے میں بڑی معلومات فراہم کیں۔ کلبھوشن یادیو کا مشن پاکستان کیخلاف صرف جاسوسی کرنا نہیں تھا بلکہ وہ پاکستان میں دہشتگردی پھیلاکر ملک کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کے لیے سرگرم تھا۔ وزیر اعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل قمر زمان باجوہ کا یہ عزم خوش آئند ہے کہ ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا اور ملکی وغیر ملکی پاکستان دشمن عناصر کے ساتھ کوئی نرمی نہیں بر تی جائےگی، پیپلزپارٹی عزیر جان بلوچ کے اقبالی بیان میں میں کیے گئے انکشافات پر سخت ذہنی دباو¿ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ سیاسی قیادت عزیر جان بلوچ کے لیے اپنی مصلحتوں کے تحت شاید نرم گوشہ رکھتی ہولیکن عسکری قیادت نے ملک کو تمام سیاسی و غیر سیاسی ملکی و غیر ملکی دہشتگردوں کیخلاف بلا امتیاز کارروائی کرنے میں تیزی کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس میں ملک دشمن اور جرائم پیشہ عناصر ضرور گرفت میں آئیں گے۔ کراچی آپریشن کے دوران لیاری گینگ وار میں ملوث بہت سے افراد ایران، عمان، دبئی اور جنوبی افریقہ فرار ہوگئے تھے ۔عزیر جان بلوچ کے اقبالی بیانات میں انکشافات کیے گئے ناموں کی بھی حساس اداروں نے تلاش شروع کردی ہے۔ ایف آئی اے کاوئنٹر ٹیررازم ونگ کو عزیر جان بلوچ کے ساتھیوں کے سفر کا ریکارڈ حاصل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ تحقیقاتی اداروں نے لیاری اور شہر کے دیگر بلوچ اکثریتی علاقوں میں ایسے دہشتگردوں کی تلاش شروع کردی ہے جو کئی برس تک شہر میں حالات خراب کرنے اور قتل و غارت کا بازار گرم کرنے کے علاوہ جاسوسی کے نیٹ ورک کا حصہ بنے رہے۔ بی ایل اے کے ان کیمپوں میں آنے والوں کو فنڈز اور عسکری تربیت بھارتی خفیہ ادارے کی طرف سے فراہم کی جاتی رہی۔ سیکورٹی فورسز نے آپریشن رد الفساد میں اہم کامیابی حاصل کرتے ہوئے بلوچستان اور کراچی میں بھارتی و افغانی خفیہ ایجنسیوں کا نیٹ ورک چلانے والے پانچ دہشتگرد گرفتار کرکے ان سے بھاری اسلحہ و بارود برآمد کرلیا۔ بھارتی اور افغان ایجنسیوں کا نیٹ ورک پکڑا جانا اس امر کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک ہمسایہ ملک پاکستان میں دہشتگردی کرکے اس کا امن تباہ کرنے جیسی مذموم کارروائیوں میں مصروف ہیں پاکستان میں رونما ہونے والے دہشتگردی کے متعددواقعات میں بھی یہ ہی دونوں ممالک ملوث ہیں ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں