حکومت اور اے این ایف بطور ادارہ میرے خلاف مدعی ہے ،رانا ثناء اللہ
شیئر کریں
پاکستان مسلم لیگ (ن)پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ خان نے ڈی جی اے این ایف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مجھے اس عدالت سے رجوع کرنے کا کہہ رہے ہیں جس کا جج ان کی مرضی کے مطابق کام نہ کرے تو اس کا واٹس ایپ پر تبادلہ ہو جاتا ہے ۔ ڈی جی اے این ایف اور و فاقی وزیر اکٹھے بیٹھ کر میرے خلاف پریس کانفرنس کرتے ہیں ، اس کا مطلب ہے کہ حکومت اور اے این ایف بطور ادارہ میرے خلاف مدعی ہے ۔اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ذاتی طور پر میرے کیس میں کمیشن یا کمیٹی کے حامی ہیں مگر ان کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار رانا ثناء اللہ نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈی جی اے این ایف کس عدالت کی بات کررہے ہیں ، کہیں یہ اس عدالت کی بات تو نہیں کررہے اگر وہ ان کی مرضی یا ہدایت پر کام نہ کرے تو اس کا واٹس ایپ پر فوری طور پر تبادلہ کروا دیتے ہیں۔ کیا میرے کیس میں ایسا نہیں ہوا؟ان کا کہنا تھا کہ اے این ایف کورٹ کے جج ارشد منصور تھے جب اے این ایف پراسیکیوٹر نے دیکھا کہ جج میری ضمانت لینا چاہتے ہیں تو انہوں نے ان سے ڈیڑھ گھنٹے کا وقت لیا اور 35منٹ بعد حکومت نے ان کی خدمات واپس کر دیں، اس عدالت میں ڈی جی اے این ایف مجھے انصاف دلاناچاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جن ججز کے نام ہائی کورٹ کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں ان میں سے پھر جس کو وزارت قانون یا جن پر اے این ایف پر اعتماد ہو ان کو وہاں پر تعینات کیا جاتا ہے ۔ رانا ثناء اللہ خان کا کہنا تھا کہ ڈی جی اے این ایف اور و فاقی وزیر اکٹھے بیٹھ کر میرے خلاف پریس کانفرنس کرتے ہیں ، اس کا مطلب ہے کہ حکومت اور اے این ایف بطور ادارہ میرے خلاف مدعی ہے ۔ میرے خلاف کیس میں کوئی شواہد نہیں، کوئی انکوائری نہیں اور کوئی تفتیش نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہاایک ایسی غیر جانبدار باڈی جو کہ جوڈیشل کمیشن ہی ہو سکتا ہے یا پارلیمانی کمیشن ہوسکتا ہے اور اس کے لیئے میں نے ایوان میں اسپیکر قومی اسمبلی سے بھی مطالبہ کیا ہے اورمیں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ قائم کیا جائے ، تاہم اسپیکر صاحب کی بھی اپنی حدودوقیود ہیں ، اسپیکر صاحب چھ ماہ میرے پروڈکشن آرڈرز جاری نہیں کر سکے اور انہوں نے خود مجھے کہا کہ میری یہ خواہش تھی کہ میں پروڈکشن آرڈرز جاری کروں لیکن میں ایسا نہیں کر سکا۔