سقوطِ ڈھاکا سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت
شیئر کریں
پاکستان کو دولخت ہوئے 46سال ہوگئے،لیکن اس ملک کے عوام کے لیے یہ زخم اب بھی ہرا ہے اور دسمبر کامہینہ شروع ہوتے ہی لوگوں کی آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں، ’’ سقوطِ ڈھاکہ کو 46سال گزرنے کے باوجود اس ملک کے عوام کی اکثریت اب بھی اس سانحے کے اسباب اور اس کی پشت پر کارفرما عناصر سے ناواقف ہے اگرچہ سقوط ڈھاکہ کے بعد اس حوالے سے کئی کتابیں منظر عام پر آئیں جن میں میں ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا کو زیادہ مستند تصور کیاجاتارہاہے لیکن اس حوالے سے دیگر کتابوں کے مطالعے سے ظاہر ہوتاہے کہ ہر ایک نے اس سانحے کو مختلف انداز اور مختلف نظریات سے دیکھا اور اسی کے مطابق اس کے بارے میں اپنی رائے دی ہے ،اس حوالے معروف اسکالر، محقق جنید احمد کی کتاب "Creation of Bangladesh Myths Exploded”نیاس سانحے کے بارے میں جو انکشافات کیے ہیں ان کوپڑھ کر یہ محسوس ہوتاہے کہ ہمارے ارباب اقتدار نے اس سانحے کے اصل حقائق کوکس خوبصورتی اورچابکدستی کے ساتھ پردے میں رکھنے کی کوشش کی اس کتاب میں اس سانحے کا دوسرا رْخ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ کہانیاں، مفروضے جو ہمیں کسی اور رنگ وروپ میں دکھائے گئے تھے اس کتاب میں کسی اور رنگ ڈھنگ سے پیش کیے گئے ہیں ،جس سے ظاہرہوتاہے کہ اس سانحے کے حوالے متعدد اہم سوالوں کے جوابات اور حقائق جان بوجھ کر چھپائے گئے، نظر انداز کیے گئے یاپھر ان، حقائق تک کسی کی رسائی ہی نہ ہوپائی یا پھر ہرا یک نے اپنا اپنا سچ یا جھوٹ بولا۔
سقوط ڈھاکہ کے بارے جو باتیں اب تک منظر عام پر آئی یالائی گئی ہیں ان میں بتایا گیا کہ 93ہزار پاکستانی فوجی ہتھیار ڈال کر قیدی بنے، جبکہ جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے ظاہرہوتاہے کہ یہ پروپیگنڈا، باقاعدہ منصوبہ بندی سے بنگلہ دیشی اور بھارتی میڈیا نیکیا تھااورسی کو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھی آگے بڑھایا، حقیقت یہ ہے کہ ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں کی کل تعداد 34ہزار، پولیس، رینجرز، اسکاوٹس اور ملیشیا 11ہزار، یوں لڑاکا فوج 45ہزار، لیکن بھار ت نے بچوں، عورتوں، شہری وفوجی انتظامی افسروں، انکے عملے،ڈاکٹروں، نرسوں،نائیوں، موچیوں اور تمام سویلینزکو فوجی بنا کر تعداد93ہزار تک پہنچا دی۔
دوسری بات یہ پھیلائی گئی کہ تقسیم کی ایک وجہ مغربی پاکستان کے ہاتھوں مشرقی پاکستان کا اقتصادی ومعاشی استحصال تھا یعنی مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان میں کوئی ترقیاتی کام نہیںکرایا، ہر معاشی میدان میں بنگالیوں کو نظرانداز کیا گیا، یہ بات عوامی لیگ نے اس خوبصورتی سے پھیلائی کہ عام بنگالی تک ہمنوا بنا اور ایک وقت آیا کہ پورے مشرقی پاکستان کی رائے یہی تھی کہ بنگال تو سونے کی چڑیاہے یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہیں، ہمیں محروم رکھا جا رہاہے، ہمارا پیسہ مغربی پاکستان پر لگ رہا ہے۔ یہاں جان بوجھ کر ملک کے دونوں حصوں کے تاریخی اقتصادی عدمِ توازن کو بھی نظر اندازکردیا گیا، کسی نے یہ توجہ بھی نہ دی کہ پنجاب کو چھوڑ کر باقی مغربی پاکستان بھی مشرقی پاکستان جیسا ہی تھا، کسی نے یہ بھی نہ سوچاکہ آئے روز کے سیلابوں نے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے پیچھے دھکیل دیا اورکسی نے یہ بھی نہ دیکھا کہ مشرقی پاکستان تو 1943سے قحط کی لپیٹ میںرہاہے، مورخین اور ناقدین ملک کے دونوں حصوں کا موازنہ کرتے ہوئے دانستہ طورپر ایک ہی تصویر پیش کرتے رہے کہ مشرقی پاکستان کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئیور بتایا یہ جاتا رہا کہ بنگال میں خوراک مہنگی، آمدنی کم اور بے روزگاری زیادہ، لیکن اصل کہانی یہ تھی کہ پہلے دن سے ہی مشرقی پاکستان کی ترقی کے لیے کوششیں شروع کی گئیں، بے روزگار بنگالیوں کو پٹ سن کے ان کارخانوں میں روزگار فراہم کیا گیا جو مغربی پاکستان کے صنعت کاروں نے وہاں قائم کیے، ’(یاد رہے پاکستان بنتے وقت بنگال میں ایک بھی پٹ سن کا کارخانہ نہیں تھااس دور میں وہاں سے خام پٹ سن بھارت برآمد کیا جاتا تھا پھر مرکزی حکومت نے صنعتی ترقیاتی کارپوریشن، سرمایہ کاری کارپوریشن اور صنعتی ترقیاتی بینک کے ذریعے وہاں صنعتی قرضے دلائے، سرمایہ کاری کرائی اور چٹاگانگ کی بندرگاہ،چندر گوناپیپر مل، فینچو گنج، فرٹیلائزر کمپلیکس، فولاد کا پہلاکارخانہ، ریلوے وروڈ سسٹم، فضائی کمپنی، دریائی گزرگاہوں کی تعمیر وترقی مرکزی حکومت کی مرہون منت رہی۔
ایک مفروضہ یہ بھی گڑھاگیا کہ مغربی پاکستان نے بنگالیوں پر اپنی ثقافت مسلط کی، گوکہ کمزور سیاسی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں نے بروقت اس تنازع پر توجہ نہیں دی اورایک مخصوص سازشی ٹولے نے معاملے کو اتنا بگاڑ دیا کہ اْردو زبان سے ہی نفرت کی جانے لگی، حالانکہ ثقافتی تسلط کے لیے تو زبان کے ساتھ ساتھ لباس، موسیقی اور غذا کو بھی بدلا جانا چاہیے تھا، لیکن اس حوالے سے کبھی کسی نے کوئی کوشش نہیں کی، حقیقت یہ تھی کہ اْردو کو ملک کے دونوں حصوں میں اس لیے لاگو کیا گیا کہ ایک توقیام پاکستان سے پہلے یہی رابطے کی زبان تھی ،دوسرے یہ کہ مشرقی پاکستان کی طرح مغربی پاکستان کے صوبوں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی میں بھی اس وقت علاقائی زبانیں بولی جاتی تھیں لہذا پورے ملک کے کے لیے ایک زبان کا ہونا ضروری تھا اور اْردو یقیناً بہترین انتخاب تھی، اگر یہ معاملہ اتنا سنجیدہ اور اہم ہوتا تو سقوطِ ڈھاکہ سے پہلے اور بعد میں فردوسی بیگم، شہناز بیگم، عالمگیر، شبنم اور رونا لیلیٰ جیسے نام اْردو کو کیوں اپناتے اس سے کیوں محبت کرتے۔
ایک کہانی یہ بھی گڑھی گئی کہ’’ اگر تلہ سازش، ،کیس مغربی پاکستان کی افسرشاہی کی اختراع تھی اور اس کامقصد مجیب الرحمان کو غدار قرار دینا تھاجیسا کہ سب کو معلوم کہ اگر تلہ سازش کا الزام مجیب الرحمان اور عوامی لیگ کے دیگر رہنمائوں پر تب لگا جب ملک دولخت کرنے کے لیے بھارتی ایجنسیوں سے ان کے رابطے ثبوتوں کیساتھ پکڑے گئے، شروع میں تو اسے مغربی پاکستان کا کیا دھراہی کہا گیا مگر جب agartala doctrineجیسی کتابیں آئیں، بھارتی دانشوروں، فوجی افسروں اورانٹیلی جنس افسروں کے انکشافات سامنے آئے تو پتا چلا کہ مجیب اور اس کے ساتھی سازش کر رہے تھے، یہ بہت پہلے پکڑا جا تا اگر 1962میں چین، بھارت اور 65میں پا ک، بھارت جنگیں نہ ہوتیں،1967میں حکومت ِ پاکستان کو سازش کا پتہ چلا،12جولائی 1967کو شیخ مجیب سمیت 35افراد کے خلاف مقدمے قائم کر کے گرفتاریاں ہوئیں، لیکن پھر عوامی دبائوپر 23فروری 1963کو یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا، یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ ’’را‘‘انہی دنوں بنی، اسپیشل فر نٹیئر فورس اور مکتی باہنی بھی اسی زمانے میں وجود میں آئیں، مگر چونکہ تاریخ ہمیشہ کامیاب قوموں کا ساتھ دیتی ہے لہذا اگر تلہ سازش سے سقوطِ ڈھاکہ تک تمام ملبہ پاکستان پر پھینک دیا گیا۔
یہ کہانی بھی باقاعدہ منصوبہ بندی سے پھیلائی گئی کہ شیخ مجیب بنگالی قوم کا نجات دہندہ تھاپوری دنیا کو باور کرایا گیا کہ مجیب نے مظلوم بنگلہ دیشیوں کو آزادی دلائی حقیقت یہ کہ مجیب اقتدار کا بھوکاتھا اورمرکزی حکومت سے غلطی یہ ہوئی کہ انتخابات جیتنے کے باوجود مجیب الرحمان کو اقتدار نہیں دیا گیا، یہ درست کہ اسے اقتدار ملنا چاہیے تھا مگر یہ بھی اک حقیقت کہ مجیب کو بھار ت سے مسلسل فنڈز، تربیت یافتہ لوگ اور اسلحہ مل رہا تھا، جس کااعتراف مجیب الرحمان کے دست راست اور مکتی باہنی کے ایک کمانڈر میجر ڈالم نے اپنی کتاب میں کیا ہے ،جو پاکستان میں بھی کتابوں کی دکانوں پر دستیاب ہے ،بھارتی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ ہر معاملے میں جلتی پر تیل ڈالتا رہا، گوکہ تقسیم کے بعد مجیب ہیرو کہلایا مگر جلدہی اسکی حقیقت سامنے آگئی، سیاہ کارنامے، ظلم وستم سامنے آئے اور جب اقتدار کی خاطر اس نے اپنے ہی لوگوں کو مروانا شروع کر دیا تب ایک دن آزادی کے وہ سپاہی جواس پر جان چھڑکتے تھے، اْنہوں نے ہی اسے قتل کر دیا۔
یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ مغربی پاکستان کی افسر شاہی نے ’’آپریشن سرچ لائٹ ‘‘ کی آڑ میں بے گناہ بنگالیوں کو قتل کیااور اس آپریشن کی آڑ میں فوج نے قتل وغارت و آبروریزی کی، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جب یحییٰ خان نے مارچ 1971کو انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کیا تو پہلے سے تیار بیٹھے عوامی لیگ کے غنڈے چْھروں، تلواروں، درانتیوں اور ڈنڈوں سے مسلح ہو کر سٹرکوں پہ نکل آئے، ایک منصوبہ بندی کے تحت توڑ پھوڑ، جلائو گھیرئو، لوٹ مار اور قتل وغارت گری شروع کردی گئی اور 31مارچ 1971کو آپریشن شروع ہونے تک اس ایک ماہ میں ہزاروں بے گناہ افراد قتل کیے جا چکے تھے، سینکڑوں خواتین کی آبروریزی ہوچکی تھی، جگہ جگہ قومی پرچم کی توہین کی گئی، جیلیں توڑی گئیں، امریکی و برطانوی اداروں پر حملے کیے گئے اور اس تمام درندگی کا ماسٹر مائنڈ مجیب الرحمان اپنی رہائش گاہ دھان منڈی سے مسلسل ہدایات دے رہاتھاجب نوبت یہاں تک آپہنچی تھی کہ جرائم پیشہ افرا د نے اپنے تھانے اور چوکیاں بنانا شروع کیں تو فو ج کو آپریشن سرچ لائٹ کے نام سے عوامی لیگ کی قیاد ت اور اس کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت ملی لیکن آپریشن شروع ہی ہوا تھا کہ نہ صرف بنگالی رجمنٹس اور ایسٹ بنگال رائفلزنے بغاوت کر دی بلکہ رات کے اندھیرے میں اپنے مغربی پاکستان کے فوجی ساتھیوں کو سوتے ہوئے اہل وعیال سمیت مار ڈالا، لہٰذا ان مشکل گھڑی میں انسانی زندگیاں بچانے اور امن قائم کرنے کے لیے فوج کو یہ آپریشن کرنا پڑا، مگر اتنا وحشیانہ یا سفاکانہ ہرگز نہ تھا، جتنا مشہور کیا گیا۔
یہ تمام حقائق اپنی جگہ لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے اس سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھا ،جس کا اندازہ بلوچستان اورسندھ کی صورت حال اور اس کے اسباب پر نظر ڈال کر اچھی طرح لگایاجاسکتاہے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں برسراقتدار آنے والی ہر سول اور فوجی حکومت نے بلوچستان کااحساس محرومی دور کرنے کے نام پر اس صوبے کو ترقی دینے اور اس صوبے کے عوام کو بنیادی سہولتوںتعلیم ، صحت اور روزگار کی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اس کے حصے سے کہیں زیادہ رقم فراہم کی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، پاکستان بننے کے بعد سے اب تک بلوچستان میں اس صوبے کی نمائندگی کے دعویدار سردار اور نواب ہی برسراقتدار رہے اوروفاقی حکومت سے اس صوبے کی ترقی کے نام پر بھاری فنڈز وصول کرنے کے باوجود تمام ترقیاتی کام کاغذات تک ہی محدود رکھے گئے،تمام ترقیاتی رقوم خورد ہوکر ان بلوچ سرداروں اورنوابوں کے ذاتی اکائونٹس میں منتقل ہوتی رہیںا ور اس صوبے کے عوام بدستور غربت کی چکی میں پستے رہے، اس صورت حال کو بھی بھارت نے اپنے مفادات کے تحت استعمال کیا اوربلوچستان میں بھی بنگلہ دیش ہی کی طرح ایک باغی فوج کھڑا کرنے کی کوشش کرتارہا جس کاانکشاف کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیانات سے ہوچکاہے۔ دوسر ی طرف سندھ میں بھی ایک طرف بنگلہ دیش کی طرح زبان کی بنیاد پر آبادی میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو اب بھی جاری ہے اورسندھ کے دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے مختص کیے گئے فنڈز اسی طرح حکمرانوں اور ان کے چہیتوں کے ذاتی اکائونٹس میں منتقل کیے جاتے رہے اس طرح سندھ کے عوام میں بھی احساس محرومی فزوں تر ہوتاچلاگیا، اور پاکستان کے لیے سب سے زیادہ قربانیا ں دینے والے سندھ کے نوجوان پاکستان نہ کھپے جیسا گھنائونیاورناقابل قبول نعرے لگانے پر مجبور کیے گئے،بات یہیں ختم نہیں کی گئی بلکہ پاکستان کے لیے اپنے آبائو اجداد کی جانوں کی قربانی دینے اورپاکستان کی خاطر اپنی تمام متاع چھوڑ کرپاکستان آنے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی انتہا کردی گئی ، سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان پر بند کرنے کے لیے ایک طرف انھیں کوٹہ سسٹم کی لعنت میں انھیں جکڑ دیاگیا دوسری طرف کوٹہ سسٹم اور میرٹ کی بھاری رکاوٹیں عبور کرلینے والے اردو بولنے والے مہاجروں کوکسی نہ کسی بہانے ملازمت سے محروم کیاجاتارہا، اس احساس محرومی کو مہاجروں کاہمدرد بن کر سامنے آنے والے ایک مفاد پرست حلقے نے استعمال کیا اوردیکھتے ہی دیکھتے اس گروہ کے من پسند لوگ کروڑ پتی اور ارب پتی بن کر بیرون ملک سدھارتے رہے،اور جب بلی تھیلے سے باہر آئی تو بہت دیر ہوچکی تھی ، لیکن بجائے اس کے کہ بلی کے تھیلے سے باہر آنے کے بعد حکمراں اپنی غلطیوں کااحساس کرتے ہوئے اردو بولنے والے نوجوانوں سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں کاازالہ ا ور تدارک کرنے کی کوشش کی حکمرانوں نے اپنے مفادات کی خاطر اردو بولنے والے پورے طبقے ہی کو ملک دشمن، لٹیرا، بھتہ خور اور قبضہ گیر ثابت کرکے ان پر زندگی اجیرن کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ یہ ایسی صورت حال ہے اس ملک کا درد رکھنے والے دانشوروں اور سیاستدانوں کو جس کا نوٹس لینا چاہئے اور حکمرانوں کو عقل کے ناخن لینے اور ملک کے ہر طبقے کے عوام کے ساتھ انصاف کرنے پر مجبور کرناچاہئے ورنہ 46سال قبل پیش آنے والا سانحہ دوبارہ بھی پیش آسکتاہے اور اگر خدانخواستہ خاکم بدہن اس دفعہ یہ نوبت آئی توپھر ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔