نواز شریف اپنے طرز عمل پر نظر ثانی اور میں نہیں تو کوئی نہیں کارویہ تبدیل کریں
شیئر کریں
اسلام آباد میں گزشتہ روز احتساب عدالت کے اندر اور باہرحکمراں پارٹی سے تعلق رکھنے ولے وکلا کی ہلڑبازی کے نتیجے میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر فرد جرم عائد نہیں کی جاسکی اورمقدمے کی سماعت کسی کارروائی کے بغیر 19 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ۔ گزشتہ روزسماعت کے موقع پر مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر احتساب عدالت میں پیش ہوئے جب کہ نااہل قراردیے گئے نواز شریف کی جانب سے ان کے نمائندے ظافر خان پیش ہوئے۔عدالت پہنچنے پر مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ آصف کرمانی، دانیال عزیز اور عابد شیر علی سمیت مسلم لیگ (ن) کے متعدد رہنما بھی موجود تھے۔اس موقع پر ن لیگی کارکنوں کی بھاری نفری نے بھی عدالت میں گھسنے کی کوشش کی جس پرپولیس نے انہیں روکاجس پر لیگی وکلا مشتعل ہوگئے اور ر ایک ن لیگی وکیل نے جوپنجاب حکومت کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ہیں پولیس انسپکٹر کو تھپڑ مار دیا۔ یہ صاحب پرانے لیگی کارکن ہیں ، اسلام آباد میں ان کی موجودگی اور پولیس افسر کوتھپڑ مارکر صورت حال کوخراب کرنے کی ان کی کوشش معنی خیز ہے جس سے اپوزیشن کی جانب سے ظاہر کیے جانے والے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ ہنگامہ آرائی حکمراں مسلم لیگ کی سوچی سمجھی اور منظم سازش کاحصہ تھی اور دراصل ن لیگ کی جانب سے عدالت پر حملے کاایک نیا طریقہ تھا ،اگر یہ شبہات درست نہیں ہیں تو پھر سوال یہ پیداہوتاہے کہ حکومت پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کا اسلام آباد میں کیا کام تھا؟اور وہ اپنی سرکاری مصروفیات چھوڑ کر اسلام آباد کیوں آئے تھے کیا اس سے ان شہبات کو تقویت نہیں ملتی کہ انھیں ان کی پارٹی کی ہدایت پر خاص طور پر اس کام کے لیے اسلام آباد بھیجے گیا تھا؟ انھوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پولیس افسر کو تھپڑ رسید کردیا اورپولیس اہلکاروں کی وردیاں پھاڑ دیں ‘اور پولیس کو لاٹھی چارج کرنے پر مجبور کیاجس کے نتیجے میں ایک وکیل زخمی ہوگیا سرکاری وکیل چاہتے یہی تھے کہ کوئی وکیل معمولی سا زخمی ہوجائے تاکہ اس کی بنیاد پر وکلا ء کو مشتعل کرکے عدالتی کارروائی کو روکا جاسکے اور عدالت کونواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ پر فرد جرم عاید کرنے سے روکاجاسکے۔ ان خدشات کو اس حقیقت سے بھی تقویت ملتی ہے کہ مسلم لیگی وکلا ء جب عدالت کے اندر اور باہر یہ ڈراما کررہے تھے اور پولیس اور وکلا ء کے درمیان ہاتھا پائی ہو رہی تھی اس وقت داخلہ امور کے وزیر مملکت طلال چودھری جوڈیشل کمپلیکس کے احاطے میں ہی موجود تھے لیکن انہوں نے بیچ بچاؤ کرانے کی کوشش کی اور نہ ہی اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں کو بچانے کی کوشش کی۔
اس حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب لیگی وکلا ء نے احتساب عدالت کے جج سے پولیس کی مبینہ زیادتی کی شکایت کی اور اپنے زخمی ساتھی کو ان کے سامنے پیش کیاتو احتساب عدالت کے جج نے وکلا کو تحریری درخواست جمع کرانے کو کہا تاہم ن لیگ لائرز فورم کے وکلا نے جج کی ہدایت کے مطابق تحریری شکایت جمع کرانے کے بجائے براہ راست یہ دھمکی دی کہ اگر ذمے دار پولیس افسران کے خلاف فوری ایکشن نہ ہوا تو عدالتی کارروائی نہیں چلنے دیں گے اور اس کے ساتھ ہی لیگی وکلا ء نے کمرۂ عدالت میں نعرے بازی ‘شور شرابااورہنگامہ آرائی شروع کردی ۔ نیب پراسیکیوٹر کو ڈائس سے ہٹانے کے لیے انھیں دھکے دیے اور حالات اس حد تک خراب کردیے کہ احتساب عدالت کے جج کو مقدمے کی سماعت شروع کیے بغیر نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف فردِ جرم کی کارروائی 19 اکتوبر تک مؤخر کر نے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس طرح حکمراں مسلم لیگ احتساب عدالت کے جج کو اپنے حامی وکلا کے ذریعے نواز شریف اور ان کے اہل خانہ پر فرد جرم عاید کیے جانے سے روکنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس حوالے سے احتساب جج کی غیر جانبداری کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اپنے چیمبر میں جا کر اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو وکلا پر تشدد اورانھیں جوڈیشل کمپلیکس میں داخلے سے روکنے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن چونکہ لیگی وکلا کابظاہر مقصد عدالت کی کارروائی نہ چلنے دینا اور اس میں خلل اندازی کرکے جج کو کارروائی موخر کرنے پر مجبور کرناتھا اس لئے انھوں نے غل غپاڑہ اور ہنگامہ آرائی جاری رکھی اورکارروائی موخر کرانے کامقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔
نیب کی جانب سے پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے جاری کردہ احکام کی روشنی میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف‘ انکے سمدھی وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار‘ بیٹوں حسین نواز‘ حسن نواز‘ صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کیخلاف ریفرنس احتساب عدالت اسلام آباد میں دائر کیے گئے ہیں جبکہ احتساب عدالت نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ان ریفرنسوں کی چھ ماہ کے اندر اندر سماعت مکمل کرکے فیصلہ صادر کرنا ہے۔ ان ریفرنسوں میں احتساب عدالت کی کارروائی کی مانیٹرنگ کے لیے سپریم کورٹ کے متعلقہ بینچ کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے ایک فاضل جج کو نگران جج بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں احتساب عدالت کی کوشش ہے کہ ان ریفرنسوں کی کارروائی میں کوئی تاخیر نہ ہونے دی جائے تاکہ مقررہ مدت کے اندر کارروائی مکمل ہوسکے۔ یہ بلاشبہ احتساب عدالت کے لیے ایک مشکل چیلنج ہے کیونکہ ان ریفرنسوں میں بیسیوں گواہوں کے بیانات قلمبند ہونے ہیں جن پر وکلاء کو جرح کرنی اور پھر اپنے دلائل پیش کرنے ہیں۔ چنانچہ عدالتی کارروائی مقررہ مدت میں اسی صورت مکمل ہو سکتی ہے کہ بغیر کسی التواکے تسلسل کے ساتھ کی جائے لیکن ان ریفرنسوں کے حوالے سے شریف فیملی کے ارکان اور انکے وکلاکی جانب سے جو طرز عمل اختیار کیا گیا وہ بادی النظر میں ان ریفرنسوں کو معرضِ التوامیں ڈالنے کی حکمت عملی ہے جس کے تحت میاں نوازشریف اور انکے بیٹے عدالت میں پیش ہونے سے گریز کرتے رہے۔ میاں نوازشریف تیسری پیشی پر عدالت میں آئے اور اگلی تاریخ سماعت پر انکی جانب سے استثنیٰ کی درخواست دائر کردی گئی جبکہ حسن نواز اور حسین نواز کسی بھی تاریخ سماعت پر عدالت میں پیش نہیں ہوئے چنانچہ گزشتہ تاریخ سماعت پر عدالت نے انکے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرکے انہیں مفرور قرار دینے کی کارروائی کا آغاز کر دیا ۔ میاں نوازشریف گزشتہ روز بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور اپنے ایک نمائندے کو بھجوا دیا ۔نواز شریف اینڈ فیملی کے اس طرز عمل سے بادی النظر میں یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے شریف فیملی کیخلاف دائر ان ریفرنسوں کی کارروائی مقررہ مدت تک مکمل نہ ہونے دینے کی حکمت عملی پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ مدعا علیہان کی جانب سے ان ریفرنسوں کے حوالے سے پہلے ہی تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا اور اسے انتقامی کارروائی سے تعبیر کیا جارہا تھا جس کا بطور خاص میاں نوازشریف اور انکی صاحبزادی مریم نواز نے شدومد کے ساتھ پروپیگنڈا کیا جبکہ مسلم لیگی کارکنوں بشمول وفاقی‘ صوبائی وزراء اور مشیروں نے ہر تاریخِ سماعت پر احتساب عدالت میں آنے کی حکمت عملی طے کی جس سے امن و امان کی صورتحال کنٹرول سے باہر ہونے کا خطرہ لاحق ہوا۔ گزشتہ روز احتساب عدالت میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی پیشی کے موقع پر بالخصوص مسلم لیگی وکلاکی جانب سے جس انداز میں ہنگامہ آرائی اور زبردستی کمرہ عدالت میں گھس کر عدالت کو کام سے روکنے کی کوشش کی گئی ہے اس سے پنجاب حکومت اور وزرا کے اس دعوے کی تردید ہوگئی ہے کہ پنجاب پولیس معاملات سنبھالنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے اور اس سے احتساب عدالت کے باہر امن و امان کو کنٹرول کرنے کے لیے رینجرز کی تعیناتی کا ازخود جواز پیدا ہوگیا ہے۔ گزشتہ روز اگر مجاز سول اتھارٹی کے احکام پر تعینات گیارہ سو اہلکاروں نے ہجوم کو کنٹرول کرنے میں اپنی نااہلیت ثابت کی ہے اور مسلم لیگ (ن) لائرز ونگ کے ارکان عملاً قانون ہاتھ میں لیکر عدالتی کارروائی چلنے نہ دینے کی حکمت عملی پر کاربند نظر آئے ہیں تو آئندہ تاریخ سماعت پر عدالت کو یقیناً سیکورٹی کا کوئی اور بندوبست کرناہوگاتاکہ عدالتی کارروائی میں کسی قسم کا خلل پیدا نہ ہو۔اس وقت جبکہ حکومت بھی مسلم لیگ (ن) کی ہے اور اسلام آباد کی انتظامیہ بھی حکومت ہی کے تابع ہے تو اسکی جانب سے احتساب عدالت کی کارروائی کے موقع پر امن و امان کنٹرول کرنے کے لیے کسی قسم کا انتظام نہ کیے جانے کو عدالتی کارروائی میں خلل ڈالنے کی حکومتی حکمت عملی سے ہی تعبیر کیا جائیگا۔ عمران خان کو اسی تناظر میں یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت دوسری بار عدلیہ پر حملہ آور ہوئی ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے قائدین بھی احتساب عدالت میں پیش آنیوالے گزشتہ روز کے واقعہ کو عدلیہ پر حملہ آور ہونیوالی مسلم لیگ (ن) کی پالیسی سے ہی تعبیر کررہے ہیں۔ یہ صورتحال بلاشبہ مسلم لیگ (ن) اور اسکی وفاقی اور صوبائی حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ سید سجادعلی شاہ کے دور میں میاں نوازشریف کی سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی جانب سے عدالت پر کیے گئے حملے کا داغ ابھی تک مسلم لیگ (ن) کے دامن سے مٹ نہیں سکا جسے اس پارٹی کے سیاسی مخالفین فسطائی طرز عمل سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ایسی پالیسی سے سیاسی محاذآرائی کی صورتحال گمبھیر ہوتی ہے تو اس سے امن و امان کو کنٹرول کرنے کے نام پر طالع آزمائوں کو ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوریت پر شب خون مارنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اگر آج مسلم لیگ (ن) کے اپنے دور حکومت میں اداروں کے ساتھ محاذآرائی کرکے امن و امان کی صورتحال بگاڑی جارہی ہے تو اس پالیسی کے نتیجہ میں جمہوریت کے پھر سے ڈی ریل ہونے کی نوبت ہی آئے گی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور اس کے قائدین کے لیے ایسے حالات کی ذمہ داری سے خود کو بچانا مشکل ہو جائیگا۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ’’ہم نہیں تو کوئی بھی نہیں‘‘ والی پالیسی طے کی ہے جس کی بنیاد پر احتساب عدالت کی کارروائی چلنے نہ دینے کی گزشتہ روز کوشش کی گئی تو اس سے بڑی خود غرضانہ سیاست اور کوئی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس سیاست کا خمیازہ جرنیلی آمریتوں کی صورت میں ملک اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے اور جمہوریت کے نام لیوا سیاست دانوں کے ہاتھوں سے جمہوریت کی گاڑی بھی چھوٹ جاتی ہے جسے دوبارہ ٹریک پر لانے کے لیے انہیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر سالہا سال کٹھن جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
یہی تاریخ کا وہ سبق ہے جو اپنی مفاداتی سیاست کے تحت جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کی راہ پر گامزن سیاست دانوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ مگر ہمارا یہ قومی المیہ ہے کہ ہماری سیاست میں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی روایت آج تک قائم ہی نہیں کی جاسکی۔ اگر مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف اور ان کے متعلقہ فیملی ممبرز کو اپنے خلاف دائر ریفرنسوں پر کسی قسم کے تحفظات ہیں تو انکے پاس مجاز
عدالتی فورم پر اپیل میں جانے کا حق موجود ہے۔ ان کے پاس عالی دماغ وکلاکی پوری ٹیم موجود ہے اس لیے انہیں عدالتی فورم پر اپنے خلاف دائر مقدمات کا قانونی طور پر دفاع کرنا چاہیے اور انصاف کی عمل داری میں اپنے سرخرو ہونے کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے چہ جائیکہ وہ عدالتی کارروائی چلنے نہ دینے کی پالیسی طے کرکے جمہوریت پر شب خون مارنے کی نوبت لانے والی محاذآرائی کا راستا اختیار کریں۔ اسی تناظر میں مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں موجود بعض صائب حلقے بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی اختیار کردہ ٹکرائو کی پالیسی پر مضطرب نظر آتے ہیں جس کا اظہار گزشتہ روز سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں اپنی پریس کانفرنس میں کر بھی چکے ہیں جبکہ گزشتہ روز کے واقعہ کی بنیاد پر تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی بھی جمہوریت کو بچانے کے نام پر سیاسی محاذآرائی کے میدان میں اتر آئی ہے۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) اور اسکی حکومت کے اکابرین کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ عدالتی کارروائی چلنے نہ دینے کی پالیسی سے انہیں ریفرنسوں کے التواکی صورت میں وقتی فائدہ تو ہو جائیگا مگر وہ جمہوریت کی منزل کو طویل عرصہ تک خود سے دور کرنے کا اہتمام کر بیٹھیں گے۔ جس کاسب سے زیادہ نقصان خود ان ہی کوپہنچے گا اور اگر اس دفعہ ان کی پارٹی دولخت ہوئی تو شاید وہ اسے دوبارہ کبھی منظم نہ کرسکیں۔