پاکستانی طرزِسیاست امریکی انتخاب پر بھی غالب ٹرمپ نے 15سال سے ٹیکس ادا نہیں کیا
شیئر کریں
٭امریکی صدارتی امیدوار کو ٹیکس گوشواروں کے نئے تنازع کا سامنا، کیا یہ نقصانات حقیقی معنوں میں ہیں یا صرف ٹیکس گوشواروں تک ہی محدود ہےں؟
٭ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیکس قوانین میں ماسٹر کیاہواہے، یہ خیال غلط نہیں ہوگا کہ وہ امریکا کے ٹیکس کوڈ اور ٹیکس قوانین کے ساتھ سقم سے بھی اچھی طرح واقف ہوں گے
میکائل ایس کنول
امریکا کے معروف ارب پتی تاجر ڈونلڈ ٹرمپ ان دنوں ری پبلکن پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے صدارتی مہم میں مصروف ہیں، لیکن صدر کی انتخابی مہم شروع ہونے سے قبل ری پبلکن پارٹی کی جانب سے نامزدگی حاصل کرنے کے لیے ہونے والے مباحثوں کے دوران ہی وہ ایک متنازع شخصیت کے طورپر سامنے آئے اور ان مباحثوں کے دوران ان کی جانب سے جن انتہا پسندانہ خیالات اور پروگراموں کا اعلان کیاگیا اس نے نہ صرف امریکا کے سنجیدہ طبقوں بلکہ خود ری پبلکن پارٹی کے مقتدر حلقوں کوبھی چکر ا کر رکھ دیاتھا،اس طرح نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بارے میں خود ان کی پارٹی کے رہنما بھی شکوک وشبہات کاشکار ہیں ۔ انتخابا ت سے قبل ہی ان کے انتہا پسندانہ اور بعض احمقانہ بیانات کے بعد ری پبلکن پارٹی کے متعدد اہم اور بااثر رہنماﺅں نے ان کی حمایت سے دست کش ہونے کابرملا اعلان کردیاہے،ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی مہم کے آغاز سے ہی طرح طرح کے تنازعات میں الجھتے جارہے ہیں ۔اب ان کی دولت کے بارے میں جو اعدادوشمار سامنے آئے ہیں اس نے ان کی شخصیت کے بارے میں کچھ نئے اور سنگین سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
اعدادوشمار سے ظاہر ہوتاہے کہ گزشتہ 15سال سے انھوں نے سرکاری خزانے کو ٹیکس کی شکل میں ایک ڈالر بھی ادا نہیں کیا اور ان کے ٹیکس گوشواروں میں ان کی دولت میں مسلسل کمی کی نشاندہی کی جارہی ہے اور اس دوران ان کوہونے والے نقصان کی مالیت916 ملین ڈالر یعنی 91 کروڑ 60 لاکھ ڈالر بتائی جاتی ہے۔1995 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جمع کرائے گئے دولت اورآمدنی کے گوشواروں کی روشنی میں کئی سنگین سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جن کا جواب دینا ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے مالیاتی امور کے نگراں اہلکاروں کے لیے بہت مشکل کام ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیکس گوشواروں سے ظاہرہوتاہے کہ ان کو ہونے والے خسارے کی شرح بہت زیادہ ہے،یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ہونے والا نقصان ان کی جائیدادوں اور املاک کی قیمتوں میں کمی سے ہواہے۔ اگر ایسا ہے توپھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ املاک کی قیمتوں میں کمی کا بڑا بوجھ انھیں قرض فراہم کرنے والے مالیاتی اداروں کو برداشت کرنا پڑے گا یا یہ بوجھ خو دڈونلڈ ٹرمپ کو ہی اٹھانا پڑ رہاہے؟بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برسوں کے دوران حکومت کو کوئی ٹیکس ادا نہ کرکے اپنے نقصان کی تلافی کرلی ہے۔امریکا کے ٹیکس ماہرین کا کہناہے کہ ٹیکسوں کی عدم ادائیگی کے ذریعے نقصان کی تلافی کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے گوشواروں میں ردوبدل کرنا ضروری ہے لیکن یہاں پھر یہ سوال پیداہوتاہے کہ وہ اپنے ٹیکس گوشواروں میں یہ تبدیلیاں کب تک یعنی کتنے سال تک کرسکتے ہیں؟۔
ٹیکس ماہرین کاکہناہے کہ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیکس گوشواروں میں نقصانات کی نشاندہی کی ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ نقصانات حقیقی معنوں میں نقصان ہیں یا یہ نقصان صرف ٹیکس گوشواروں تک ہی محدود ہےں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کی مثالیں موجود ہیں کہ بعض ٹیکس گزار گوشواروں میں نقصانات تو ظاہرکرتے ہیں لیکن اصل میں انھیں کوئی مالی خسارہ نہیں ہوتا۔اگرچہ بعض ماہرین ٹیکس ڈونلڈ ٹرمپ کے داخل کردہ ٹیکس گوشواروں کو درست تسلیم کرنے پر تیار ہیں لیکن اس کے برعکس بعض ماہرین کو ان میں گھپلا نظر آتاہے اوروہ ان نقصانات کو فرضی اور جعلی قرار دینے پر مصر ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے گوشواروں پر عدم اعتماد اور عدم اطمینان کا اظہار کرنے والے ماہرین کاکہناہے کہ ہوسکتاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے ٹیکس سے متعلق ایک شق سے ناجائز طورپر فائدہ اٹھارہے ہوں جس کے تحت ان لوگوں کو جن کے قرضے معاف کئے گئے ہوں یا جنھوںنے اپنے کچھ قرض معاف کرائے ہوں اپنی آمدنی ظاہر نہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حال ہی داخل کرائے گئے گوشواروں پر بھی سوال اٹھتے ہیں جس میں انھوں نے خود اپنے کاروبار میں توسیع اور دولت مندی کی ڈینگیں ہانکی ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ان کاکاروبار دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلاہواہے اور وسعت پذیر ہے یعنی روز بروز اس میں اضافہ ہورہا ہے ،ا ب ان سے سوال کیاجاسکتاہے کہ آپ کن کن ملکوں میں کتنا ٹیکس ادا کررہے ہیں ؟ اور مختلف ممالک میں ہونے والا منافع امریکا منتقل کرنے کے بعد کیا وہ قابل ٹیکس نہیں رہتا؟۔
ڈونلڈ ٹرمپ اپنے آپ کو ایک انتہائی کامیاب تاجر قرار دیتے ہیں، انھوںنے ٹیکس قوانین میں ماسٹر کیاہواہے۔اس لئے یہ خیال کرنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ امریکا کے ٹیکس کوڈ اور ٹیکس قوانین کی تمام شقات سے اچھی طرح واقف ہوں گے۔ہوسکتاہے کہ انھوں نے اپنے ٹیکس گوشواروں کو متوازن بنانے اور ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کے لیے بڑے پیمانے پر فلاحی اداروں کی مدد کی ہولیکن فلاحی اداروں کواتنے بڑے پیمانے پر عطیات کی فراہمی ممکن نظر نہیں آتی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کوہونے والے ان نقصانات پر ان کے سیاسی مخالفین ان کی کاروباری ذہانت پر بھی انگلیاں اٹھارہے ہیں اور ان کاکہنا ہے کہ جو شخص اپنے کاروبار پر پوری طرح دسترس نہیں رکھتا اور چند سال کے دوران اتنا بھاری نقصان اٹھاچکاہے وہ امریکا جیسی دنیا کی ایک بڑی طاقت کی معیشت کو کس طرح متوازن رکھ سکے گا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالفین اب یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنے گوشواروں سے ظاہرہوتا ہے کہ وہ کامیاب تاجر نہیں ہیں ، بلکہ ایک ناکام کاروباری ہیں جو نہ صرف یہ کہ سابق مالیاتی امور کے ملازمین کی انتہائی محنت سے کمائی گئی دولت میں اضافہ کرنے میںبری طرح ناکام رہے ہیں اور اس میں مسلسل بھاری کمی برداشت کررہے ہیں بلکہ طویل عرصے سے کاروباری خسارے کے باجود وہ ایسے ماہرین کی خدمات بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں جو خود ان کے بیان کے مطابق ان کے روبہ زوال کاروبار کو سہارا دے کراسے منفعت بخش بناسکیں اوراگر وہ خود اپنے کاروبار کو سہارا دینے کے لیے موزوں شخصیت کاانتخاب کرنے میں ناکام رہے ہیں تو پھر ملک کی معیشت کو سہارا دینے اور امریکا جیسی بڑی طاقت کی اندرون اور بیرون ملک مالیاتی اور اقتصادی نگہبانی کا فریضہ کیسے انجام دے سکیں گے؟
امریکی عوام ڈونلڈ ٹرمپ کے بھاری نقصانات کی خبروں اور اس حوالے سے سامنے آنے والے اعدادوشمار پر حیران ہیں اور وہ اب خو د ڈونلڈ ٹرمپ کے منہ سے اس پوری صورتحال کی تفصیل سننا چاہتے ہیں تاکہ وہ یہ اندازہ لگاسکیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک کامیاب تاجر ہیں یا ناکام ارب پتی۔ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی ووٹرز کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ انھوں نے گزشتہ برسوںکے دوران سرکاری خزانے میں کوئی ٹیکس کیوں ادا نہیں کیا ۔ عین انتخابات کے وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی دولت اور ٹیکس گوشواروں کے منظر عام پر آجانے سے یقینا ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ یہ بات وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکی عوام کسی ٹیکس چور کو اپنا صدر بنانے پر شاید کبھی تیار نہ ہوں۔