میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ماضی ہو یا حال ۔خواتینِ کشمیر کا کردار مثا لی!!!

ماضی ہو یا حال ۔خواتینِ کشمیر کا کردار مثا لی!!!

منتظم
اتوار, ۱۶ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

shaikh-amin

شیخ امین

تحریک مزاحمت برائے حصول حق خودارادیت کے ہر مرحلے پر انتہائی مشکلات و مصائب کے باوجود کشمیری خواتین نے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے بھائی بزرگوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کیا اور ہمیشہ بہادری اور غیرت مندی کا مظاہرہ کرکے عزیمت کی مثالیں قائم کیں۔ بھارتی فورسز کی ظلم و زیادتیوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں خواتین نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔تحریکی جلسے اورجلوسوں میں خواتین بڑے ہی جوش و خروش کے ساتھ شامل ہوتی تھیںاور اپنے گھروں میں مردوں کا حوصلہ بھی بڑھاتی تھیں۔ جموں کشمیر میں ہزاروں خواتین بیوہ ایسی ہیں، جن کے سروں سے اپنوں کا سایہ ا±ٹھ جانے کی وجہ سے بے بس و لاچار تو ہیں ،لیکن اپنی عظیم قربانیوں کی حفاظت کرتے ہوئے وہ عزم و استقلال کے ساتھ مزاحمتی تحریک کے ہر مرحلے پر اپنا بھر پور کردار ادا کرتی ہیں۔ انتہائی مشکلات و مصائب سہنے اور بے حد و حساب غم برداشت کرنے کے بعد بھی جموں کشمیر کی مسلم خواتین کا صبر و استقامت اپنی مثال آپ ہے۔90کی دہائی کے چند ایمان افروز چشم دیدواقعات ملاحظہ ہوں ۔
معروف صحافی بشارت پیر اپنی کتاب "Curfewed Nights”میں ایک چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں،جب حزب المجاہدین کے ایک کمانڈر عارف خان بھارتی دستوں کے ساتھ مقابلے میں شہید ہوئے۔اس کے جنازے کے جلوس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور جن میں خواتین کا ایک دستہ روایتی کشمیری طریقے سے شہید کو اپنا خراج عقیدت پیش کررہی تھیں۔لکھتے ہیں:
میں جنازے کے جلوس میں شریک ہوا اور قریب ہی میں نے خواتین کے گانے کی آواز سنی، مجھے لگا کہ جیسے یہ وہی گیت ہیں جو شادیوں میں روایتی طور پر گائے جاتے ہیں۔ اورمجھے ان میں مردوں کی نعرہ بازی کے مقابلے میں زیادہ جوش اور ولولہ نظر آیا۔ یہ ۰۵ لڑکیوں اور عورتوں پر مبنی ایک گروپ تھا جو جلوس کے پیچھے پیچھے گیت گاتے ہوئے چل رہا تھا۔ میں رک گیا ان کا انتظار کیا اور پھر ان کے ساتھ ساتھ ہی جنازہ گاہ کی طرف چلنے لگا۔ کچھ خواتین اپنا دوپٹہ ٹھیک کررہی تھیں اور کچھ صرف ترنم اور جوش کے ساتھ گارہی تھیں ۔۔۔شہیدو مبارک،شہیدو مبارک (اے شہید تمھیں شہادت مبارک ہو)
خواتینِ کشمیر کے شہید مجاہدین کے ساتھ محبت اور جذبات کو بشارت پیر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
میں نے دیوار پھلانگ کے بڑی مشکل سے جنازہ گاہ میں داخل ہونے کی کا میا ب کوشش کی، لیکن اچانک ایک نحیف سی بزرگ خاتون نے میر ے کندھے پر ہاتھ رکھا اور چلائی کہ یہ )عارف خان)بے شک یہاں پیدا ہوا ،جوان ہوا ،لڑائی لڑی لیکن شہید میرے گاوں میں ہوا۔ یہ لوگ تب تک اس کا جنازہ ادا نہیں کر سکتے جب تک میں اس کی زیارت نہ کرلوں، میںسینکڑوں لوگوں کے ساتھ دس میل کی مسافت طے کرکے یہاں آئی ہوں۔ میںنے اسے بتایا کہ جنازے میں تاخیر کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے۔ یہ سن کر اس خاتون نے مجھے پیار سے گلے لگایا اور جنازہ گاہ کی طرف دوڑ پڑی“
بھارتی تحقیق کارخاتون منیشا سبرا جانی جو قضیہ کشمیر پر کام کررہی ہیں ،لکھتی ہیںکہ کشمیری خواتین، تحریک آزادی کشمیر کے لیے مردوں سے بڑھ چڑھ کرجدوجہدمیں مصروف ہیں:
”جہاد اور مجاہدین کی تشریح کو بھر پور طریقے سے سمجھ کے،کشمیری خواتین، مائیں، بہنیں اپنے مردوں کو نفسیاتی اور اخلاقی مدد فراہم کرتی ہیں۔مجاہدین کو ایک ہیرو کی حیثیت دی جاتی ہے اور خواتین ان مجاہدین کی زیارت کے لیے لمبی مسافت طے کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ ایک کشمیری مجاہد کی ماں،بہن اور چاچی ہونا فخر کی علامت سمجھا جاتاہے۔ اس سارے منظر کو سمجھنے کے لیے یہ کافی ہے کہ کشمیری خواتین ان مجاہدین کا استقبال اپنے مخصوص کشمیری لوک گیتوں (ونہ ون) سے کرتے ہیں اور اس طریقہ عزت افزائی سے سارا منظر نامہ سمجھ میں آتا ہے “
یہ ایک عیاں اور کھلی حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی راہ آزادی میں شہید ہوتا ہے تو خواتین نے اس وقت بہت ہی حوصلے اور ہمت کے ساتھ، اپنے ان لخت جگروں کی جدائی کو برداشت کیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ان کے بیٹے زندہ ہیں اور ایک ایسی زندگی گزار رہے ہیں،جس میں کوئی غم یا دکھ نہیں ، یہ اللہ کے مہمان ہیں ۔کشمیری خواتین حضرت اُم عمارہ اور دیگر عظیم المرتبت صحابیات کے کردار سے واقف ہیں،اس لیے وہ ان لخت جگروں کی موت کو موت نہیں سمجھتیں۔
منیشا سبرا جانی اس حقیقت کا ان الفاظ میں اعتراف کرتی ہیں:
”تحریک آزادی کشمیر کے لیے جہاں کہیں بھی کوئی جوان شہید ہوتا ہے،ان کی ماو¿ں کو بہت ہی مقدس حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔جب بھی کسی مجاہد کی لاش ،اس کے گھر پہنچائی جاتی ہے تو اس وقت اس گھر کے پاس لوگوں کا ایک ہجوم جمع ہوجاتا ہے۔شہداءکی ماﺅں کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ وہ کتنی خوش نصیب ہیں کہ انھوں نے ایک شہید کو جنم دیا“
مو¿قر انگریزی اخبار گریٹر کشمیر نے انھی ماﺅں میں سے ایک ماں کا ذکر ان الفاظ میں کیا ©ہے:
”جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ایک اعلیٰ ذمہ دار ،کی والدہ سارہ (۵۶)نے جب اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر سنی تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھیں کہ مجھے اپنے بیٹے کی شہادت پر فخرہے کیونکہ اس نے آزادی کشمیر کے حصول کے لیے جان دی ہے۔واضح رہے کہ، ۹۱نومبر۲۹۹۱ءکو فوجیوں کے ساتھ عالی کدل سری نگر کے ایک تصادم میں معروف مجاہدکمانڈر شیخ عبد الحمید اور اس کے دیگر چھ ساتھی شہید ہوئے۔ان میں مشتاق احمد کوچھے بھی شامل تھے۔سارہ کا کہنا ہے دس روز مشتاق کی شادی میں رہ گئے تھے،جب وہ ایک تنظیمی مشن کے لیے گھر سے نکلے۔الوداع کرتے وقت میں نے اسے پیشانی پہ بوسہ دیا اور کچھ مٹھائیاں بھی دیں۔میں نہیں روئی ،بلکہ میں دستگیر صاحب کی زیا رت پر پہنچی اور وہاں اللہ کا شکر بجا لائی کہ اس نے میرے بیٹے کو قبول فرمایا“
منیشا سبرا جانی حزب المجاہدین کے ایک مجاہد کی بیوہ سے جو دو بچوں کی ماں ہے ،پوچھتی ہیں کہ شوہر کی موت سے آپ کے بچوں پر اب کیا اثرات پڑے ہیں تو وہ جواب دیتی ہے کہ ایک ”مجاہد کے بچے بھی مجاہد ہی ہوا کرتے ہیں“
سری نگر سے 65کلومیٹر دوری پر واقع گاوں سندر ونی جہاں 65سالہ اماں نبضہ بیگم کے تینوں بیٹے اعجاز خان، غلام حسن اور محمدعباس بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ان کا گھر خاکستر کردیا گیا۔ان کے دو بیٹے اعجاز خان اور عباس خان حزب المجاہدین سے وابستہ تھے، تیسرے بیٹے محمد عباس کا تعلق براہ راست کسی تنظیم کے ساتھ نہیں تھا۔لیکن ۳۰۰۲ءمیں مجاہدین کو تعاون دینے کے الزام میں اسے نزدیکی راشٹریہ رائفلز نے گرفتار کیا۔۸ دنوں تک اسے اپنے کیمپ میں رکھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اس کے گردے بیکار ہوگئے۔زخمی حالت میں اسے رہا کیا گیا لیکن رہائی کے بعد گھر میں وہ صرف چند دن ہی سانسیں لیتا رہا اور آخرکار اس کا وہ آخری بیٹا بھی اللہ کو پیارا ہوا۔ الجزیرہ ٹی وی کے نمائندے نے جب اس جوڑے سے ملاقات کی تو وہ حیرت زدہ ہوگیا کہ سب کچھ لٹنے کے باوجود لسہ خان اور نبضہ بیگم مایوس نہیں۔الجزیرہ ٹی وی کے رپوٹرماجد مقبول اس ماں کی زندگی کا خاکہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
نبضہ بیگم کے تین بیٹے شہید اور رہائش کا مکان اس جنگ کی نذر ہوگیا ۔نبضہ کے پاس اللہ پر غیر متزلزل ایمان کے سوا کچھ بھی نہیں۔اسے یقین ہے کہ اس کے بیٹوں کا خون رائیگان نہیں جائے گا۔ نبضہ اپنے بچوں کوزندہ سمجھتی ہے وہ ان کی تصویروں سے باتیں کرتی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ میرے تمام بیٹے زندہ ہیں اور پھر ایک توقف کے بعد اپنی اس بات میں یہ اضافہ کرتی ہیں کہ البتہ ہم سب مرچکے ہیں“۔اس طرح کے ہزاروں واقعات ہیں ،جہاں یہ ثابت ہورہا ہے کہ کشمیری خواتین نے بھارت سے خلاصی حاصل کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے اور وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر ممکنہ قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
موجودہ صورتحال میں اگر ایک طرف مجاہدین نے بھارتی فورسز پر اپنے حملے تیز کیے، وہیں دوسری طرف فورسز نے اپنی خفت اور ناکامیاں مٹانے کے لیے نہتے کشمیریوں کے قتل عام ،گرفتاریوں ،زیر حراست شہادتوں اور گرفتار کرنے کے بعد لوگوں کو لا پتا کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔فوج کی اس بربریت کے خلاف خواتین نے محاذ سنبھالا اور وہ سڑکوں پر نکل آئیں۔وہ دختران ملت،مسلم خواتین مرکز اور ماس موومنٹ جیسی تنظیموںکے پرچم تلے منظم ہوگئیں۔کریک ڈاو¿نز کے دوران انھوں نے بے گناہ اور معصوم لوگوں کی گرفتاری کی مزاحمت کی اور کئی بار وہ انہیں چھڑانے میں کامیاب ہوگئیں۔ایک طرف مجاہدین کو تعاون دینا اور دوسری طرف گھر سنبھالنا،بھارتی فورسز کی نہتے ہاتھوں مزاحمت کرنا ،روز کا معمول بن گیا۔صوفیانہ مزاج کی یہ کشمیری خواتین ایک انقلابی روپ میں سامنے آگئیں اوربھارتی پالیسی ساز کشمیری عورتوں کے اس روپ کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔
دیکھا جائے توآج کی کشمیری خواتین بھی اپنا کردار اسی جو ش و جذ بے کے ساتھ نبھا رہی ہیں ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں