تاریخ حسنی مبارک کو معاف کر دے گی؟
شیئر کریں
(مہمان کالم)
اسامہ الشریف
سابق صدر حسنی مبارک کی موت مصر کی سیاسی زندگی کے ایک دور کا خاتمہ تھا۔ وہ تقریباً تین عشرے تک حکمران رہے، تاہم عوامی دبائو کے باعث فروری 2011ء میں انہیں عہدے سے دستبردار ہونا پڑا۔ انہوں نے ایسے دور میں مصر کی قیادت کی جب خطہ سنگین انتشار سے دوچار تھا، جس میں انہوں نے نا صرف مصر کے مفادات کا کامیابی سے دفاع کیا، بلکہ عرب دنیا میں مصر کے قائدانہ کردار کو بھی محفوظ رکھا۔ انہوں نے اپنے پیشرو انور سادات کی خارجہ پالیسی کو برقرار رکھا، مصر کی معیشت بھی بحال کی جو کہ 1952ء کی فوجی بغاوت اور ملوکیت کے خاتمے کے بعد سے زبوں حالی کا شکار تھی۔ حسنی مبارک کی قیادت میں مصر انتہاپسند ی پر قابو پانے میں بڑی حد تک کامیاب رہا۔ اس دوران مصر کا امریکا کی طرف جھکائوبرقرار رہا، البتہ 1979ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ پر دستخط سے شروع ہونیوالے اس تعلق نے قاہرہ کو خطے میں واشنگٹن کا انتہائی قابل اعتماد علاقائی اتحادی بنا دیا تھا۔ حسنی مبارک نے بتدریج مصر کو اشتراکیت سے آزاد معیشت کی طرف لے جانے کا عمل شروع کیا، تاہم کم آمدنی والے طبقے کی مدد کے لیے فیول، خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کی مد میں سبسڈی دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سرکاری4 کمپنیوں کو فعال بنانے کے لیے انہوں نے نجی شعبہ کو حصہ دار بنایا۔
1981ء میں انور سادات کے قتل کے بعد حسنی مبارک ایک امید بن کر ابھرے کہ وہ قوم کے زخموں پر مرہم رکھیں گے۔ طویل دور حکومت میں انہوں نے کچھ جمہوری اصلاحات کیں، تاہم وہ ہر مرتبہ بلا مقابلہ صدر منتخب ہوتے رہے۔ ان کی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کو کسی قسم کی اپوزیشن کا سامنا نہیں تھا۔ وہ سیاسی آزادیوں کی قیمت پر شخصی حکمران کرتے رہے جس نے ملک پولیس ا سٹیٹ بنا دیا، کرپشن اور اقربا پروری کے علاوہ غربت اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا۔ اخوان المسلمون کو کچلنے کے نتیجے میں ملک میں بنیاد پرستی بڑھتی چلی گئی، امیر امیر تر ہوا جبکہ غریبوں کے مسائل بڑھتے چلے گئے۔ نئے امرائ کی صورت میں جو نیا ٹولہ پیدا ہوا، وہ حسنی مبارک کا اتحادی بن گیا، جنرلوں کو خوش رکھنے کے لیے انہیں اعلیٰ عہدے اور کروڑوں ڈالر کے ٹھیکے دیئے گئے۔ ملک کا کل مختار یہی ٹولہ بن گیا، اسی وجہ سے 25جنوری کو عوام سڑکوں پر آئے، جس کے نتیجے میں حسنی مبارک کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔
حسنی مبارک کے خلاف مظاہرے جو کہ عرب سپرنگ کی کہانی کا حصہ بنے، ان میں شریک افراد کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی، جن کا کسی جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ مظاہرے ایسے وقت شروع ہوئے جب حسنی مبارک اپنے بیٹے جمال کو اپنا جانشین بنانے کی کوششوں میں مگن تھے۔ معزولی کے بعد انہیں مختلف الزامات میں سزائیں سنائی گئی، جن میں 18روزہ مظاہروں کے دوران 800 افراد کے قتل کا الزام بھی شامل تھا۔ اسی دوران لیبیا اور شام میں عرب سپرنگ بدترین انتشار کا پیش خیمہ بن گیا۔ حسنی مبارک اور ان کے بیٹوں کو سنائی گئی سزائیں عبدالفتح السیسی کے دور میں ختم کر کے انہیں بری کر دیا گیا۔ حسنی مبارک نے اپنی زندگی کے آخری دن ہسپتال میں گزارے۔ حسنی مبارک کے لیے یہ بات کافی اطمینان بخش ہو گی کہ انہیں معافی دینے کا مطالبہ کرنے والوں میں مصری عوام کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ مجموعی طور پر حسنی مبارک کے دور حکومت کو اچھے دنوں کا نام دیا جا سکتا ہے، جب معاشرے میں اعتدال پسند ی اور لوگوں کو بڑی حد تک اظہار کی بھی اجازت تھی، معاشی حالات بھی کافی بہتر تھے۔
حسنی مبارک کو 1973ء کی اسرائیل کے ساتھ جنگ کے ہیروز میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج جبکہ مصر کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، بعض مصری یہ سوچتے ہیں کہ اگر حسنی مبارک آج حکمران ہوتے تو مختلف چیلنجز سے کیسے نمٹنے، جن میں ایک دریائے نیل پر بننے والا ایتھوپیا کے گرینڈ ڈیم ہے جو کہ ڈیم مصر کو صحرا میں تبدیل کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ لیبیا میں ترکی کی فوجی مداخلت اور صحرائے سینا میں داعش کے خلاف جنگ شامل ہیں۔حسنی مبارک کے حق میں ایک بات بھی جاتی ہیں کہ انہوں نے کبھی اسرائیل کا دورہ نہیں کیا، 2 ریاستی حل کی بنیاد پر انہوں نے مسئلہ فلسطین مذاکرات کے ذریعے حل کی ضرورت پر ہمیشہ زور دیا۔ ان کے دور میں مصر کو عالمی سطح پر خوب احترام ملا۔ شرم الشیخ سے ان کی دلی وابستگی نے اسے بحیرہ احمر کا ایک اہم تقریحی مقام بنا دیا، سیاحوں کی کثیر تعداد ہر سال اس ساحلی شہر کا رخ کرتی ہے۔
تاریخ حسنی مبارک کے ساتھ کم از کم بْرا سلوک ہرگز نہیں کرے گی۔ عرب سپرنگ جمہوریت، اازادی اظہار اور سماجی انصاف کو یقینی بنانے میں بْری طرح سے ناکام رہا ہے۔ اس کی وجہ سے خطہ ا?ج تک شورش اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ ایسے مصریوں کی کمی نہیں جو کہ حسنی مبارک کے دور کو آج بھی یاد کرتے ہیں۔ وہ سکیورٹی اور استحکام کو مصر کی بقا کے دو بنیادی تقاضے قرار دیتے اور خود کو دونوں کا ضامن کہتے تھے۔ مگر مصر کی نئی نسل اس کے علاوہ بہت کچھ چاہتی تھی، حسنی مبارک نئی نسل کے مطالبات اور تقاضوں کو سمجھے میں ناکام رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔